Translate

Tuesday, July 30, 2019

اسلام_اور_ٹیکس_پالیسی "💹

مغرب بنیادی طور پر ٹیکس کے حوالے سے دو پالیسیوں سے گزرا

ھ•اول: ٹیکس لگانا بادشاہ اور چرچ کا حق ہے کہ وہ جو مناسب سمجھیں ٹیکس لگائیں۔

•دوم:
No taxation without representation کا اصول جو امریکہ انقلاب کا پیش خیمہ بنا۔ یعنی صرف عوام کے نمائندوں کو ہی حق ہے کہ وہ عوام پر ٹیکس لگائے۔ اور یہ اصول آج بھی قائم ہے۔
تاہم اسلام اس پالیسی کو مسترد کرتا ہے۔ اسلام میں اختیار اعلیٰ صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالی کو حاصل ہے۔ اور اللہ اپنے بادشاہی میں کسی کو شریک نہیں کرتا، وہی الحاکم ہے۔ اور صرف اللہ سبحانہ و تعالی کا حکم ہی آپ کو اس قابل بنا سکتا ہے کہ آپ کسی کا مال لے سکیں۔ اس کے دلائل درج ذیل ہیں۔

ھ1) شریعت نے بیت المال کے ذرائع آمدن کا تعین کر دیا ہے اور اسی سے ریاست کے امور چلانے کا حکم دیا ہے اور اس میں کوئی ٹیکس شامل نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے ریاست کے تمام امور چلائے اور کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا۔ اور جب آپ کو علم ہوا کہ بارڈر پر بیرونی تاجر سے مال پر کسٹم لیا جا رہا ہے، تو آپ نے اس سے منع فرمایا۔ عقبی بن عامر رض سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی کریم کو فرماتے سنا؛
٭لا یدخل الجنہ صاحب المکس"
(کسٹم لینے والا جنت میں نہیں جائے گا) [الحاکم، احمد]

ھ2) تاہم یہ حرمت صرف کسٹم تک نہیں، آپ نے حجۃ الوداع میں فرمایا؛
٭إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا...»“
[بے شک تمہارا خون، تمہارا مال، تمہاری آبرو اس دن (یوم عرفہ)، اس شہر (مکہ) اور اس مہینے (ذی الحجہ) کی طرح ایک دوسرے پر حرام ہے] (متفق علیہ بروایت ابی بکرہ رض)

پس جس طرح کسی کی جان لینے کیلئے شرعی دلیل چائیے (جیسے شادی شدہ زانی، مرتد، قصاص) کسی کی عزت پامال شریعت کے حکم کے بغیر نہیں ہو سکتی، (شرعی عدالت کا فاسق یا مجرم ٹھہرانا)۔۔۔ ویسے ہی کسی سے اس کا مال (خواہ ریاست ہی کرے) نہیں چھینا جا سکتا۔ یہ ڈاکہ ہے۔ اور ڈاکہ روکنے کیلئے شریعت جان دینے تک لڑنا چائیے۔ یہ ریاستی بدمعاشی ہے۔ جو ہمارے حلال کی آمدن کو جبر سے چھینتی ہے۔

ھ3) فقہاء نے احادیث سے بصراحت ثابت کیا ہے کہ ٹیکس لینے والا حوض کوثر سے محروم رہے گا، اس کی دعا قبول نہیں ہو گی، اس کا گناہ زنا سے کم نہیں۔ اور ٹیکس لینے والا سود خور سے بڑا مجرم ہے۔ (اس کے ریفرنس عند الطلب)۔

ھ4) اگرچہ موجودہ دور کے حساب سے دیکھا جائے تو اسلامی ریاست کے شرعی ذرائع آمدن (زکواۃ، عشر، خراج، مال فے، غنائم، رکاز خمس، مال الغلول، حمی وغیرہ) ریاست کی تمام ضروریات کیلئے ضرورت سے بہت زائد ہیں، (جس کی تفصیلات ایک الگ تفصیلی پوسٹ کی متقاضی ہیں) تاہم سوال یہ ہے کہ اگر وہ ناکافی ہو، تو پھر کیا ہو گا؟
اس کا جواب شریعت کے رو سے یہ ہے۔ کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کچھ فرائض صرف بیت المال پر رکھے ہیں اور کچھ بیت المال اور مسلمانوں دونوں پر۔ پس جو فرائض صرف بیت المال پر ہیں۔ اگر بیت المال میں اس کیلئے مال کافی نہ ہو تو وہ کام ملتوی کئے جائیں گے۔ تاہم جو ذمہ داری بیت المال اور امت دونوں پر ہیں اس کیلئے امت سے ٹیکس لینا جائز ہے۔

پس دو طرح کے اصول یاد رکھنے کی ضرورت ہے؛
•اول: ٹیکس لینے کے اصول، یعنی کتنا، اور کس سے وغیرہ۔
•دوم: وہ کونسے امور ہے جس کیلئے ریاست ٹیکس لے سکتی ہے

ھ5) ٹیکس لینے کے اصول یہ ہیں؛
•ا) بیت المال میں فنڈ کافی نہ ہو۔ (خزانہ بھرنے کیلئے ٹیکس لینے کی اجازت نہیں)
•ب) ٹیکس جتنا شرعیت کی ذمہ داری پوری کرنے سے زائد نہ ہو
•ج) یہ صرف دولت مندوں پر ہو، دولت پر۔۔۔ آمدن پر نہیں۔ وہ دولت جو بالمعروف خرچ کرنے کے بعد سرپلس ہو۔
•د) صرف ان امور کیلئے جس کی ذمہ داری اللہ نے امت پر بھی ڈالی ہے۔ (دلائل عند الطلب)

ھ6) وہ کونسے امور ہیں جن کی ذمہ داری اللہ نے بیت المال کے ساتھ امت پر بھی ڈالی ہے؛
ا) جہاد ؛
"انْفِرُواْ خِفَافًا وَثِقَالاً وَجَاهِدُواْ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ​"
(نکلو اللہ کی راہ میں خواہ تم ہلکے ہو یا بوجھل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔) سورہ التوبہ)۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔اور کثیر تعداد میں آیات و احادیث ہیں۔
ب) ملٹری انڈسٹری:
"وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدْوَّ اللّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لاَ تَعْلَمُونَهُمُ اللّهُ يَعْلَمُهُمْ​"
( اورتیار کرو پلے ہوئے گھوڑے اور جو کچھ طاقت تم جمع کر سکو تاکہ دشمن پر رعب پڑھ سکے۔۔۔۔۔۔)(الانفال)
ج) غریبوں، ضرورت مندوں اور مسافروں پر خرچ کرنا:
"وہ شخص مجھ ہر ایمان نہیں لایا جو یہ جانتے ہوئے کہ اس کا پڑوسی بھوکا ہے، سکون سے رات کو سو جائیں"۔ (طبرانی)
د)ریاستی ملازمین، فوجیوں، اساتذہ، قاضیوں کی تنخواہیں وغیرہ
س) ضروری سڑکیں، سکول، ہسپتال، پانی، مسجد ۔ ۔ ۔لیکن اس میں اعلی ضروریت نہیں آتی۔ (لا ضرر و لا ضرار) [الحاکم]
ص) قحط، زلزلہ، سیلاب وغیرہ (دلائل عند الطلب)

پس بالواسطہ ٹیکس جیسے جی ایس ٹی، عدالتی فیس، سٹیمپ ڈیوٹی، ریسٹورنٹ ٹیکس، بجلی گیس کے بلوں کے سارے ٹیکس، ڈیم کا ٹیکس، کسٹم، ایکسائز، ود ہولڈنگ، FED، موبائل بیلنس کے ٹیکس، اشیا پر ٹیکس، VAT، سود کی ادائیگی کے ٹیکس سب کے سب ناجائز اور حرام ہیں۔ یہ ریاستی ڈاکہ اور لوٹ مار ہے۔

آمدن پر براہ راست ٹیکس بھی سارے حرام ہیں، جیسے انکم ٹیکس، کیپٹل گین ٹٰیکس، کرایہ وصولی پر ٹیکس، کارپوریٹ ٹیکس، AOP اور دوسری آمدن پر ٹٰیکس، سودی کمائی پر ٹیکس۔
کیونکہ آمدن پر ٹٰکس جائز نہیں۔ بلکہ بالمعروف خرچ کے بعد دولت پر مخصوص کیسز میں جائز ہے جیسا کہ اوپر درج ہے۔
۔ ۔ ۔
#shefro

No comments: