Translate

Showing posts with label #JahangirPirzada. Show all posts
Showing posts with label #JahangirPirzada. Show all posts

Thursday, August 1, 2019

"سلطنت_عثمانیہ_کی_عظیم_بحری_فوج "🚤

عثمانی بحریہ ::

سلطنت عثمانیہ کی بحریہ چودھویں صدی عیسوی کے اوائل میں تشکیل دی گئی۔ اس کی سربراہی قیودان پاشا (گرینڈ ایڈمرل) کرتا تھا۔ اس عہدے کو 1867ء میں ختم کر دیا گیا۔ 

ۃ1308ء میں بحیرہ مرمرہ میں جزیرہ امرالی کی فتح عثمانیوں کی پہلی بحری فتح تھی۔ 1321ء میں اس کے جہاز پہلی بار جنوب مشرقی یورپ کے علاقے تھریس میں لنگر انداز ہوئے اور بعد ازاں براعظم یورپ میں فتوحات میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ عثمانی بحریہ دنیا کی پہلی بحریہ تھی جس نے بحری جہازوں پر توپیں نصب کیں۔ 

ۃ1499ء میں لڑی گئی جنگ زونکیو تاریخ کی پہلی بحری جنگ تھی جس کے دوران بحری جہازوں پر لگی توپیں استعمال کی گئیں۔ عثمانی بحریہ نے ہی شمالی افریقہ میں فتوحات کا آغاز کیا اور 1517ء میں الجزائر اور مصر کو سلطنت میں شامل کیا۔ 

ۃ1538ء میں جنگ پریویزا اور 1560ء میں جنگ جربا بحیرۂ روم میں عثمانی بحریہ کی طاقت اور وسعت کا ثبوت ہیں۔ علاوہ ازیں عثمانی بحری جہازوں نے 1538ء سے 1566ء کے درمیان بحر ہند میں گوا کے قریب پرتگیزی جہازوں کا مقابلہ بھی کیا۔ 1553ء میں عثمانی امیر البحر صالح رئیس نے مراکش اور آبنائے جبل الطارق سے آگے کے شمالی افریقہ کے علاقے فتح کیے اور عثمانی سلطنت کی سرحدیں بحر اوقیانوس تک پہنچا دیں۔ 

ۃ1566ء میں آچے (موجودہ انڈونیشیا کا ایک صوبہ) کے سلطان نے پرتگیزیوں کے خلاف عثمانیوں کی مدد طلب کی اور خضر رئیس کی قیادت میں ایک بحری بیڑا سماٹرا بھیجا گیا۔ 

یہ بیڑا 1569ء میں آچے میں لنگر انداز ہوا اور اس طرح یہ سلطنت کا مشرقی ترین علاقہ قرار پایا جو عثمانیوں کی زیر سیادت تھا۔ اگست 1625ء میں مغربی انگلستان کے علاقوں سسیکس، پلائی ماؤتھ، ڈیوون، ہارٹ لینڈ پوائنٹ اور کورن وال پر چھاپے مارے۔ 1627ء میں عثمانی بحریہ کے جہازوں نے جزائر شیٹ لینڈ، جزائرفارو، ڈنمارک، ناروے اور آئس لینڈ تک اور 1627ء سے 1631ء کے دوران آئرستان اور سویڈن تک بھی چھاپے مارنے میں کامیاب ہوئے۔ 

ۃ1827ء میں جنگ ناوارینو میں برطانیہ، فرانس اور روس کے مشترکہ بحری بیڑے کے ہاتھوں شکست اور الجزائر اور یونان کے کھو جانے کے بعد عثمانی بحریہ کا زوال شروع ہو گیا اور اس طرح سلطنت سمندر پار مقبوضات پر گرفت کمزور پڑتی چلی گئی۔ 

سلطان عبد العزیز اول (دور حکومت: 1861ء تا 1876ئ) نے مضبوط بحریہ کی تشکیل کے لیے از سر نو کوششیں کیں اور کثیر سرمایہ خرچ کرنے کے بعد برطانیہ اور فرانس کے بعد دنیا کا تیسرا سب سے بڑا بحری بیڑا تشکیل دیا لیکن زوال پذیر معیشت ان بحری جہازوں کے بیڑے کو زیادہ عرصے برقرار نہ رکھ سکی۔ سلطنتِ عثمانیہ کی بحریہ اٹھارہویں صدی میں جمود کا شکار ہو گئی تھی۔ اس صدی میں جہاں اس بحریہ نے بہت سی کامیابیاں حاصل کیں وہیں اسے بہت سی شکستیں بھی ہوئیں۔ 

انیسویں صدی میں عثمانی بحریہ کا زوال شروع ہوا۔ تاہم یہ سرگرم رہی۔ جنگ عظیم اول میں عثمانی بحریہ نے اکتوبر 1914ء میں بحیرہ اسود میں روسی ساحل پر اچانک حملہ کیا۔ اس کے بعد نومبر میں روس اور اس کے اتحادیوں برطانیہ اور فرانس نے باقاعدہ جنگ شروع کردی۔ جنگ عظیم اول میں عثمانی بحریہ خاصی سرگرم رہی۔جدید ترکی کے قیام کے بعد بحریہ کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا۔ 

عثمانی بحریہ کا امیر قپودان پاشا (کپتان پاشا) کہلاتا تھا۔ ان میں معروف نام خیر الدین باربروسا، پیری رئیس، حسن پاشا، پیالے پاشا، طرغت پاشا اور سیدی علی عثمانی ہیں۔ 

بحری فتوحات کے علاوہ ان کے علمی کارنامے بھی نمایاں ہیں۔ عثمانی ترکوں کی بحری طاقت میں اضافے کے ساتھ ساتھ امیر البحر کی اہمیت بھی دو چند ہو گئی اور باربروسا کے زمانے میں کپتان پاشا دیوان کا باقاعدہ رکن بن گیا۔ 

عہدے کے اعتبار سے وہ امیر العساکر کے مساوی اور شیخ الاسلام کے ماتحت سمجھا جاتا تھا۔

۔ ۔ ۔
#shefro

Tuesday, July 30, 2019

اسلام_اور_ٹیکس_پالیسی "💹

مغرب بنیادی طور پر ٹیکس کے حوالے سے دو پالیسیوں سے گزرا

ھ•اول: ٹیکس لگانا بادشاہ اور چرچ کا حق ہے کہ وہ جو مناسب سمجھیں ٹیکس لگائیں۔

•دوم:
No taxation without representation کا اصول جو امریکہ انقلاب کا پیش خیمہ بنا۔ یعنی صرف عوام کے نمائندوں کو ہی حق ہے کہ وہ عوام پر ٹیکس لگائے۔ اور یہ اصول آج بھی قائم ہے۔
تاہم اسلام اس پالیسی کو مسترد کرتا ہے۔ اسلام میں اختیار اعلیٰ صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالی کو حاصل ہے۔ اور اللہ اپنے بادشاہی میں کسی کو شریک نہیں کرتا، وہی الحاکم ہے۔ اور صرف اللہ سبحانہ و تعالی کا حکم ہی آپ کو اس قابل بنا سکتا ہے کہ آپ کسی کا مال لے سکیں۔ اس کے دلائل درج ذیل ہیں۔

ھ1) شریعت نے بیت المال کے ذرائع آمدن کا تعین کر دیا ہے اور اسی سے ریاست کے امور چلانے کا حکم دیا ہے اور اس میں کوئی ٹیکس شامل نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے ریاست کے تمام امور چلائے اور کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا۔ اور جب آپ کو علم ہوا کہ بارڈر پر بیرونی تاجر سے مال پر کسٹم لیا جا رہا ہے، تو آپ نے اس سے منع فرمایا۔ عقبی بن عامر رض سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی کریم کو فرماتے سنا؛
٭لا یدخل الجنہ صاحب المکس"
(کسٹم لینے والا جنت میں نہیں جائے گا) [الحاکم، احمد]

ھ2) تاہم یہ حرمت صرف کسٹم تک نہیں، آپ نے حجۃ الوداع میں فرمایا؛
٭إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا...»“
[بے شک تمہارا خون، تمہارا مال، تمہاری آبرو اس دن (یوم عرفہ)، اس شہر (مکہ) اور اس مہینے (ذی الحجہ) کی طرح ایک دوسرے پر حرام ہے] (متفق علیہ بروایت ابی بکرہ رض)

پس جس طرح کسی کی جان لینے کیلئے شرعی دلیل چائیے (جیسے شادی شدہ زانی، مرتد، قصاص) کسی کی عزت پامال شریعت کے حکم کے بغیر نہیں ہو سکتی، (شرعی عدالت کا فاسق یا مجرم ٹھہرانا)۔۔۔ ویسے ہی کسی سے اس کا مال (خواہ ریاست ہی کرے) نہیں چھینا جا سکتا۔ یہ ڈاکہ ہے۔ اور ڈاکہ روکنے کیلئے شریعت جان دینے تک لڑنا چائیے۔ یہ ریاستی بدمعاشی ہے۔ جو ہمارے حلال کی آمدن کو جبر سے چھینتی ہے۔

ھ3) فقہاء نے احادیث سے بصراحت ثابت کیا ہے کہ ٹیکس لینے والا حوض کوثر سے محروم رہے گا، اس کی دعا قبول نہیں ہو گی، اس کا گناہ زنا سے کم نہیں۔ اور ٹیکس لینے والا سود خور سے بڑا مجرم ہے۔ (اس کے ریفرنس عند الطلب)۔

ھ4) اگرچہ موجودہ دور کے حساب سے دیکھا جائے تو اسلامی ریاست کے شرعی ذرائع آمدن (زکواۃ، عشر، خراج، مال فے، غنائم، رکاز خمس، مال الغلول، حمی وغیرہ) ریاست کی تمام ضروریات کیلئے ضرورت سے بہت زائد ہیں، (جس کی تفصیلات ایک الگ تفصیلی پوسٹ کی متقاضی ہیں) تاہم سوال یہ ہے کہ اگر وہ ناکافی ہو، تو پھر کیا ہو گا؟
اس کا جواب شریعت کے رو سے یہ ہے۔ کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کچھ فرائض صرف بیت المال پر رکھے ہیں اور کچھ بیت المال اور مسلمانوں دونوں پر۔ پس جو فرائض صرف بیت المال پر ہیں۔ اگر بیت المال میں اس کیلئے مال کافی نہ ہو تو وہ کام ملتوی کئے جائیں گے۔ تاہم جو ذمہ داری بیت المال اور امت دونوں پر ہیں اس کیلئے امت سے ٹیکس لینا جائز ہے۔

پس دو طرح کے اصول یاد رکھنے کی ضرورت ہے؛
•اول: ٹیکس لینے کے اصول، یعنی کتنا، اور کس سے وغیرہ۔
•دوم: وہ کونسے امور ہے جس کیلئے ریاست ٹیکس لے سکتی ہے

ھ5) ٹیکس لینے کے اصول یہ ہیں؛
•ا) بیت المال میں فنڈ کافی نہ ہو۔ (خزانہ بھرنے کیلئے ٹیکس لینے کی اجازت نہیں)
•ب) ٹیکس جتنا شرعیت کی ذمہ داری پوری کرنے سے زائد نہ ہو
•ج) یہ صرف دولت مندوں پر ہو، دولت پر۔۔۔ آمدن پر نہیں۔ وہ دولت جو بالمعروف خرچ کرنے کے بعد سرپلس ہو۔
•د) صرف ان امور کیلئے جس کی ذمہ داری اللہ نے امت پر بھی ڈالی ہے۔ (دلائل عند الطلب)

ھ6) وہ کونسے امور ہیں جن کی ذمہ داری اللہ نے بیت المال کے ساتھ امت پر بھی ڈالی ہے؛
ا) جہاد ؛
"انْفِرُواْ خِفَافًا وَثِقَالاً وَجَاهِدُواْ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ​"
(نکلو اللہ کی راہ میں خواہ تم ہلکے ہو یا بوجھل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔) سورہ التوبہ)۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔اور کثیر تعداد میں آیات و احادیث ہیں۔
ب) ملٹری انڈسٹری:
"وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدْوَّ اللّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لاَ تَعْلَمُونَهُمُ اللّهُ يَعْلَمُهُمْ​"
( اورتیار کرو پلے ہوئے گھوڑے اور جو کچھ طاقت تم جمع کر سکو تاکہ دشمن پر رعب پڑھ سکے۔۔۔۔۔۔)(الانفال)
ج) غریبوں، ضرورت مندوں اور مسافروں پر خرچ کرنا:
"وہ شخص مجھ ہر ایمان نہیں لایا جو یہ جانتے ہوئے کہ اس کا پڑوسی بھوکا ہے، سکون سے رات کو سو جائیں"۔ (طبرانی)
د)ریاستی ملازمین، فوجیوں، اساتذہ، قاضیوں کی تنخواہیں وغیرہ
س) ضروری سڑکیں، سکول، ہسپتال، پانی، مسجد ۔ ۔ ۔لیکن اس میں اعلی ضروریت نہیں آتی۔ (لا ضرر و لا ضرار) [الحاکم]
ص) قحط، زلزلہ، سیلاب وغیرہ (دلائل عند الطلب)

پس بالواسطہ ٹیکس جیسے جی ایس ٹی، عدالتی فیس، سٹیمپ ڈیوٹی، ریسٹورنٹ ٹیکس، بجلی گیس کے بلوں کے سارے ٹیکس، ڈیم کا ٹیکس، کسٹم، ایکسائز، ود ہولڈنگ، FED، موبائل بیلنس کے ٹیکس، اشیا پر ٹیکس، VAT، سود کی ادائیگی کے ٹیکس سب کے سب ناجائز اور حرام ہیں۔ یہ ریاستی ڈاکہ اور لوٹ مار ہے۔

آمدن پر براہ راست ٹیکس بھی سارے حرام ہیں، جیسے انکم ٹیکس، کیپٹل گین ٹٰیکس، کرایہ وصولی پر ٹیکس، کارپوریٹ ٹیکس، AOP اور دوسری آمدن پر ٹٰیکس، سودی کمائی پر ٹیکس۔
کیونکہ آمدن پر ٹٰکس جائز نہیں۔ بلکہ بالمعروف خرچ کے بعد دولت پر مخصوص کیسز میں جائز ہے جیسا کہ اوپر درج ہے۔
۔ ۔ ۔
#shefro

ننگے_بدن_والا 🌋

ایک انسان تھا جسے دنیا "ضرار بن ازور ؓ " کے نام سے جانتی تھی!
۔ ۔ ۔
یہ ایک ایسے انسان تھے کہ اس دور میں دشمن ان کے نام سے کانپ اٹھتے تھے اور انکی راہ میں آنے سے کتراتے تھے۔ جنگ ہوتی تھی تو سارے دشمن اور فوجیں زرہ اور جنگی لباس پہن کر جنگ لڑتے تھے۔ لیکن آفریں حضرت ضرار ؓ پر, زرہ تو درکنار اپنا کرتا بھی اتار دیتے تھے۔

لمبے بال لہراتے چمکتے بدن کے ساتھ جب میدان میں اترتے تھے تو ان کے پیچھے دھول نظر آتی تھی اور انکے آگے لاشیں۔ اتنی پھرتی، تیزی اور بہادری سے لڑتے تھے کہ دشمن کی صفیں چیر کر نکل جاتے تھے۔ ان کی بہادری نے بےشمار مرتبہ حضرت خالد بن ولید ؓ کو تعریف کرنے اور انعام و کرام دینے پر مجبور کیا۔

دشمنوں میں وہ "ننگے بدن والا" کے نام سے مشہور تھے۔
رومیوں کے لاکھوں کی تعداد پر مشتمل لشکر سے جنگِ اجنادین جاری تھی۔ حضرت ضرارؓ حسب معمول میدان میں اترے اور صف آراء دشمن فوج پر طوفان کی طرح ٹوٹ پڑے, اتنی تیزی اور بہادری سے لڑے کہ لڑتے لڑتے دشمن فوج کی صفیں چیرتے ہوئے مسلمانوں کے لشکر سے بچھڑ کر دشمن فوج کے درمیان تک پہنچ گئے۔ دشمن نے انہیں اپنے درمیاں دیکھا تو ان کو نرغے میں لے کر بڑی مشکل سے قید کر لیا۔

مسلمانوں تک بھی خبر پہنچ گئی کہ حضرت ضرار ؓ کو قید کر لیا گیا ہے۔
حضرت خالد بن ولید ؓ نے اپنی فوج کے بہادر نوجوانوں کا دستہ تیار کیا اور حضرت ضرارؓ کو آزاد کروانے کے لیے ہدایات وغیرہ دینے لگے۔
اتنے میں انہوں نے ایک نقاب پوش سوار کو دیکھا جو گرد اڑاتا دشمن کی فوج پر حملہ آور ہونے جا رہا ہے۔ اس سوار نے اتنی تند خوہی اور غضب ناکی سے حملہ کیا کہ اس کے سامنے سے دشمن پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گیا۔
حضرت خالد ؓ اس کے وار دیکھ کر اور شجاعت دیکھ کر عش عش کر اٹھے اور ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ سوار کون ہے؟ لیکن سب نے لاعلمی ظاہر کی کہ وہ نہیں جانتے۔ حضرت خالد ؓ نے جوانوں کو اس سوار کی مدد کرنے کو کہا اور خود بھی مدد کرنے اس سوار کی جانب لپکے۔
گھمسان کی جنگ جاری تھی کبھی حضرت خالد بن ولید ؓ اس سوار کو نرغے سے نکلنے میں مدد کرتے اور کبھی وہ سوار حضرت خالد ؓ کی مدد کرتا۔
حضرت خالد ؓ اس سوار کی بہادری سے متاثر ہو کر اس کے پاس گئے اور پوچھا کون ہو تم؟ اس سوار نے بجائے جواب دینے کے اپنا رخ موڑا اور دشمنوں پر جارحانہ حملے اور وار کرنے لگا موقع ملنے پر دوسری بار پھر حضرت خالد ؓ نے پوچھا: اے سوار تو کون ہے؟ اس سوار نے پھر جواب دینے کی بجائے رخ بدل کر دشمن پر حملہ آور ہوا, تیسری بار حضرت خالد ؓ نے اس سوار سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا کہ اے بہادر تو کون ہے؟
تو نقاب کے پیچھے سے نسوانی آواز آئی کہ میں ضرار ؓ کی بہن "خولہ بنت ازور ؓ" ہوں اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گی جب تک اپنے بھائی کو آزاد نہیں کروا لیتی۔ حضرت خالد ؓ نے کہا کہ پہلے کیوں نہیں بتایا تو کہنے لگی آپ نے منع کر دینا تھا۔ حضرت خالد ؓ نے کہا آپ کو آنے کی کیا ضرورت تھی ہم تھے آزاد کروانے کے لیے تو حضرت خولہ ؓ نے جواب دیا کہ جب بھائیوں پر مصیبت آتی ہے تو بہنیں ہی آگے آیا کرتیں ہیں۔
پھر مسلمانوں اور حضرت خولہ ؓ نے مل کر حضرت ضرار ؓ کو آزاد کروا کر ہی دم لیا۔

ایک گزارش ::
اسلام خون اور قربانیوں کے دریا میں تیر کر پہنچا ہے اس کی قدر کریں جذبہ جہاد کو زندہ رکھیں کہ جب تک جہاد تھا مسلمان ہمیشہ غالب رہے جب جہاد چھوڑا تو مسلمانوں پر زوال آیا۔
کم از کم اپنے بچوں کے نام ان اسلام کے ہیروز کے نام پر رکھیں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ ان کا نام کس کے نام پر ہے اور نام کا اثر شخصیت پر بھی پڑتا ہے۔اور ان کی تربیت ایسے کریں کہ اسلام کا مستقبل روشن کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
۔ ۔ ۔
#shefro

Saturday, June 8, 2019

6_جون_اور_دوسری_جنگِ_عظیم

آج کے دن کو دوسری جنگ عظیم کا سب سے اہم دن مانا جاتا ہے!!
۔ ۔ ۔

اس لڑائ کو مغرب میں "آپریشن نیپچون" یا سادہ الفاظ میں (ڈی-ڈے) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

6جون 1944کو اتحادی افوج (امریکی، برطانیوی، کینڈین) کے دستوں کو اوماہا  ساحل سمندر پر لینڈ کرنے کا حکم ملا، جس کے بعد ہزاروں کی تعداد میں امریکا، برطانیہ اور کینڈا کی فوج کے اہلکار بحری کشتیوں کے ذریعے اور پیراٹروپنگ کے ذریعے اس ساحل سمندر پر پہنچنے شروع ہوئے لیکن یہاں پہلے سے ہی جرمن فوج اپنی مضبوط قلعہ بندیاں کر چکی تھی۔

جرمن فوج نے ساحل پر اترتی اتحادی افواج کو تاک تاک کر بے رحمی سے نشانہ بنایا جس میں ہزاروں اتحادی فوجی مارے گئے ، لیکن اتحادیوں کے حملے کے آگے یہ قلعہ بندیاں زیادہ نا ٹک سکیں اور آخر کار یہ ساحل سمندر اتحادی افواج نے فتح کر لیا۔

یہ لڑائ اگرچہ یکم آپریل سے شروع ہوئ اور 6جون تک جاری رہی لیکن لڑائ کے آخری 24گھنٹوں نے پوری دنیا کا نقشہ بدل ڈالا۔

اس لڑائ میں 9,386 امریکی فوجی مارے گئے۔ جن میں سے 307 کی گلی سڑی باقیات ملیں، 1,557 کی باقیات بھی نا مل سکیں۔

حملے میں 4,868 برطانیوی فوجی بھی مارے گئے۔ ان میں سے 1,837 کی باقیات بھی نا مل سکیں۔

اسی دن 946 کینڈین فوجی بھی ہلاک ہوئے۔

اتحادی فورسز کے نقصانات میں پیراٹروپنگ اور بمباری میں استعمال ہونے والے 20,000 جنگی جہاز اور 12,000 پائلٹس بھی شامل ہیں جو اس لڑائ کا اندھن بنے۔

لڑائ کا دوسرا حریف جرمنی تھا جس کے 21,300 فوجی مارے گئے۔

اثرات:
لڑائ کے اثرات یہ تھے کہ مضبوط ترین پوزیشن کے چلے جانے کے بعد، جرمن افواج کے حوصلے پست ہو گئے اور انہوں نے ہر فرنٹ پر پسپا ہونا شروع کر دیا۔ یہ صورتحال جرمن افواج کی مکمل شکست اور ایک عالمی طاقت کی عالمی بالادستی پر ختم ہوئ۔

(زیرنظر تصویر اس جنگ کے آخری 24 گھنٹوں کی ہے جس میں ساحل پر لینڈ کرتے سپاہیوں میں سے چند ہی زندہ بچ پائے تھے)

۔ ۔ ۔
#shefro

Thursday, June 6, 2019

موہاکس_کی_شکست "💠

"رسول اللہ ﷺ کی روح" تمہاری طرف دیکھ رہی ہے !!
۔ ۔ ۔

؛29 اگست 1526 کو پورے یورپ کی اتحادی فوج نے ویٹیکن کے حکم پر عثمانی خلافت کی اسلامی فوج سے ٹکرانے کا فیصلہ کیا۔ اسلامی فوج کی قیادت "سلطان سلیمان القانونی" کر رہے تھے جبکہ اتحادی فوج کی قیادت "لویس ثانی" کر رہے تھے۔


اسلامی فوج کی تعداد ایک لاکھ جنکے پاس توپخانہ اور 800 آبدوزیں تھیں، جبکہ یورپی اتحادی فوج کی تعداد دو لاکھ تھی۔

؛29 اگست 1526کی صبح جنگ شروع ہو نے والی تھی۔ "سلیمان اعظم القانونی" نے اپنی فوج کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی, اس کے بعد ایک پرجوش تقریر کی جس میں ان کو صبر اور ثابت قدمی کی تلقین کی۔ اس کے بعد کمانڈوز کی "بریگیڈ صاعقہ" (آسمانی بجلی) کی صفوں میں گھس گئے۔ ان کی حوصلہ افزائی کی اور ان سے بات کرتے ہوئے کہا.. "رسول اللہ ﷺ کی روح تمہاری طرف دیکھ رہی ہے" یہ سن کر پوری مسلم فوج اپنے آنسووں پر قابو نہ پا سکی اور خوب روئے۔

اس دن عصر کے وقت اتحادی فوج نے اسلامی فوج پر حملہ کر دیا، سلطان نے اپنی فوج کی تین صفیں بنائی تھی, خود سلطان توپخانے کی کمان کر رہے تھے۔ یہ تیسری صف تھی، جب اتحادی فوج کے گھوڑ سوار بڑی بہادری سے آگےبڑھنے لگے تو سلطان نے اپنی فوج کو آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے کا حکم دیا یہاں تک کہ وہ اسلامی فوج کے بہت قریب پہنچ گئے۔

سلطان نے توپخانے کو ان پر آگ برسانے کا حکم دیا, 90 منٹ میں 200,000 یورپی فوج کو شکست دی۔ ان میں سے ہزاروں بھاگتے ہوئے موھاکس کے دلدل میں دھنس گئے۔ان کا بادشاہ لویس ثانی اور "سات اساقفہ" (بڑے مذھبی پیشوا) گرفتار ہوئے۔ 25000 اتحادی فوج کو اسلامی فوج نے قیدی بنالیا. خلافت عثمانیاں کی فوج میں صرف 150 جوان شہید ہوئے۔

اس فتح کے بعد مسلمان یورپ کے دل تک پہنچ گئے ،آج بھی یورپ اس شکست کو نحوست اور اپنی پیشانی پر داغ سمجھتا ہے،اس کو اپنی تاریخ کا سیاہ دن قرار دیتا ہے،400 سال گزر نے کے باوجود آج بھی ہنگری میں یہ کہاوت ہے" موھاکس کی شکست سے بھی بڑی" ۔
(آخرمیں پاک فوج سے بھی یہ گزارش ہے کہ.. "رسول اللہ ﷺ کی روح" تمہاری طرف دیکھ رہی ہے)
۔ ۔ ۔
#shefro

نقلی_علامہ_اقبال "💎

"علامہ اقبال" کے نام سے موسوم اشعار.. حیران کن معلومات !!
۔ ۔ ۔
انٹرنیٹ کی دُنیا میں اور بالخصوص فیس بُک پر اقبال کے نام سے بہت سے ایسے اشعار گردِش کرتے ہیں جن کا اقبال کے اندازِ فکر اور اندازِ سُخن سے دُور دُور کا تعلق نہیں۔ کلامِ اقبال اور پیامِ اقبال سے محبت کا تقاضا ہے، اور اقبال کا حق ہے کہ ہم ایسے اشعار کو ہرگز اقبال سے منسوب نہ کریں جو اقبال نے نہیں کہے۔

ذیل میں ایسے اشعار کی مختلف اقسام اور مثالیں پیشِ کی جاتی ہیں
ھ1۔ پہلی قسم ایسے اشعار کی ہے جو ہیں تو معیاری اور کسی اچھے شاعر کے، مگر اُنہیں غلطی سے اقبال سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ ایسے اشعار میں عموماََ عقاب، قوم، اور خودی جیسے الفاظ کے استعمال سے قاری کو یہی لگتا ہے کہ شعر اقبال کا ہی ہے۔ مثالیں
تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے"
- سید صادق حسین
اسلام کے دامن میں اور اِس کے سِوا کیا ہے
اک ضرب یَدّ اللہی، اک سجدہِ شبیری"
- وقار انبالوی
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا"
- ظفر علی خان

ھ2۔ پھر ایسے اشعار ہیں جو ہیں تو وزن میں مگر الفاظ کے چناؤ کے لحاظ سے کوئی خاص معیار نہیں رکھتے یا کم از کم اقبال کے معیار/اسلوب کے قریب نہیں ہیں۔
مثالیں:::
عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟
سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟
- نامعلوم
تِری رحمتوں پہ ہے منحصر میرے ہر عمل کی قبولیت.
نہ مجھے سلیقہِ التجا، نہ مجھے شعورِ نماز ہے"
- نامعلوم
سجدوں کے عوض فردوس مِلے، یہ بات مجھے منظور نہیں..
بے لوث عبادت کرتا ہوں، بندہ ہُوں تِرا، مزدور نہیں"
- نامعلوم

ھ3۔ بعض اوقات لوگ اپنی بات کو معتبر بنانے کے لئے واضح طور پر من گھڑت اشعار اقبال سے منسوب کر دیتے ہیں۔ مثلاََ یہ اشعار غالباََ شدت پسندوں کے خلاف اقبال کے پیغام کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں جبکہ اِن کا اقبال سے دُور دُور تک کوئی تعلق نہیں
اللہ سے کرے دور ، تو تعلیم بھی فتنہ"
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ"
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ"
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ"
- نامعلوم

ھ4۔ اِسی طرح اقبال کو اپنا حمایتی بنانے کی کوشش مختلف مذہبی و مسلکی جہتوں سے بھی کی جاتی ہے۔
مثلاََ
وہ روئیں جو منکر ہیں شہادتِ حسین کے
ہم زندہ و جاوید کا ماتم نہیں کرتے"
- نامعلوم
بیاں سِرِ شہادت کی اگر تفسیر ہو جائے
مسلمانوں کا کعبہ روضہء شبیر ہو جائے"
- نامعلوم
نہ عشقِ حُسین، نہ ذوقِ شہادت
غافل سمجھ بیٹھا ہے ماتم کو عبادت"
- نامعلوم

ھ5۔ پانچواں گروپ 'اے اقبال' قسم کے اشعار کا ہے جن میں عموماََ انتہائی بے وزن اور بے تُکی باتوں پر انتہائی ڈھٹائی سے 'اقبال' یا 'اے اقبال' وغیرہ لگا کر یا اِس کے بغیر ہی اقبال کے نام سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ اِس قسم کو پہچاننا سب سے آسان ہے کیونکہ اِس میں شامل 'اشعار' دراصل کسی لحاظ سے بھی شعری معیار نہیں رکھتے اور زیادہ تر اشعار کہلانے کے لائق بھی نہیں ہیں۔
مثالیں::
کیوں منتیں مانگتا ہے اوروں کے دربار سے اقبال
وہ کون سا کام ہے جو ہوتا نہیں تیرے پروردگار سے؟
تیرے سجدے کہیں تجھے کافر نہ کر دیں اقبال
تُو جُھکتا کہیں اور ہے اور سوچتا کہیں اور ہے!
دل پاک نہیں ہے تو پاک ہو سکتا نہیں انساں
ورنہ ابلیس کو بھی آتے تھے وضو کے فرائض بہت"
مسجد خدا کا گھر ہے، پینے کی جگہ نہیں
کافر کے دل میں جا، وہاں خدا نہیں"
کرتے ہیں لوگ مال جمع کس لئے یہاں اقبال
سلتا ہے آدمی کا کفن جیب کے بغیر"
میرے بچپن کے دِن بھی کیا خوب تھے اقبال
بے نمازی بھی تھا، بے گناہ بھی"
وہ سو رہا ہے تو اُسے سونے دو اقبال
ہو سکتا ہے غلامی کی نیند میں وہ خواب آزادی کے دیکھ رہا ہو"
گونگی ہو گئی آج زباں کچھ کہتے کہتے
ہچکچا گیا میں خود کو مسلماں کہتے کہتے"
یہ سن کہ چپ سادھ لی اقبال اس نے
یوں لگا جیسے رک گیا ہو مجھے حیواں کہتے کہتے"

ھ6۔ آخر میں ایک اہم نوٹ: اقبال کے بہت سے اشعار ایسے ہیں جنہیں اُنہوں نے ترک کر دیا تھا۔ ڈاکٹر صابر کلورُوی نے اپنی کتاب "کلیات باقیاتِ شعر اقبال (متروک اردو کلام )" میں ایسے اشعار کو تحقیق کے ساتھ شامل کیا ہے۔

متروکہ کلام کو شاعر کے نام سے پیش کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں کچھ اختلاف ہو سکتا ہے، البتہ اِس سلسلے میں ڈاکٹر کلورُوی کی رائے قابلِ غور ہے "زیر نظر مجموعے میں شامل اشعار کا تقریباً ۹۰ فیصد حصہ ایسا ہے جسے اقبال نے شعوری طور پر ترک کر دیا تھا۔ لہٰذا اس کلام کو درسی کتابوں میں شامل کرنا یا ریڈیو اور ٹی وی پر گانا مناسب نہیں ہو گا"۔ اگر کسی وجہ سے اقبال کا ایسا کلام پیش کرنا ہی ہو تو اِس کے ساتھ "متروک" یا "باقیات" لکھنا ہمارا اخلاقی فرض ہے۔
ایسے ایک شعر کی مثال::
پوچھتے کیا ہو مذہبِ اقبال
یہ گنہگار بو ترابی ہے"
۔ ۔ ۔
#shefro

لفظ_مولا "صحیح معنیٰ و مفہوم !!

مولیٰ ايک مستقل لفظ ہے جس کی جمع ”موالی“ ہے، جس کے تقريباً 20 معانی ہيں، جن ميں سے چند معانی یہ ہيں : 
آقا، مالک، پرورش کرنے والا، دوست، آزاد کرنے والا، آزاد کيا ہوا غلام اور مہربان ۔

قرآن کريم ميں بھی مولیٰ کا لفظ مختلف معانی ميں استعمال ہوا ہے۔ صرف مولیٰ کا لفظ تنہا بھی استعمال ہوا اور متعدد ضميروں کے ساتھ بھی يہ لفظ استعمال ہوا ہے۔

فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌo (سورہ تحريم 66 : 4)
ترجمہ : 
سو بے شک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے ، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مدد گار ہیں ۔

اسی طرح سورة الحج، آيت 78 ميں 2 جگہ مولیٰ کا لفظ استعمال ہوا ہے، ايک جگہ ”کُم“ ضمير کے ساتھ جبکہ دوسری مرتبہ بغير ضمير کے اور دونوں جگہوں پر اللہ کی ذات مراد ہے۔ 
قرآن کريم ميں مولیٰ کا لفظ دوسرے معانی ميں بھی استعمال ہوا ہے۔ 

سورة الدخان آيت 41 میں ہے: 
”جس دن کوئی حمايتی کسی حمايتی کے ذرا بھی کام نہيں آئے گا اور ان ميں سے کسی کی کوئی مدد نہيں کی جائے گی۔ اس ميں مولیٰ” اللہ“ کے لئے نہيں بلکہ دوست کے معنیٰ ميں يعنی انسان کے لئے استعمال ہوا ہے۔ 

اسی طرح سورة الحديد، آيت15 میں ہے : 
”چنانچہ آج نہ تم سے کوئی فديہ قبول کيا جائے گا اور نہ اُن لوگوں سے جنہوں نے کفر اختيار کيا تھا، تمہارا ٹھکانا دوزخ ہے ، وہی تمہاری رکھوالی ہے اور يہ بہت برا انجام ہے ۔ 
اس ميں لفظ مولیٰ ”کُم“ ضمير کے ساتھ جگہ يا ٹھکانے کے لئے استعمال ہوا ہے۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کريم ميں يہ واضح کر ديا کہ مولیٰ کے متعدد معانی ہيں۔ 

قرآن کريم ميں لفظ مولیٰ ”نا“ ضمير کے ساتھ 2 جگہ سورة ا لبقرة آيت286 اور سورہ التوبہ آيت51 میں استعمال ہوا ہے اور دونوں جگہ پر اللہ کی ذات مراد ہے يعنی ليکن اس کا مطلب ہرگز يہ نہيں کہ مولانا ايک لفظ ہے اور وہ صرف اللہ کے ساتھ خاص ہے۔ مولیٰ ايک مستقل لفظ ہے اور اس کے ساتھ مختلف ضميريں استعمال کی جا سکتی ہيں: مولائی، مولانا، مولاکم، مولاہ وغيرہ ۔

مفسّرِین کے نزدیک ’’مولیٰ ‘‘ کے معنیٰ::::
وہ تفاسیر جن میں مولا کے معنیٰ مددگار لکھے ہیں : اِس آیتِ مبارکہ میں وارِد لفظ’’ مولیٰ ‘‘کے معنیٰ وَلی اور ناصِر ( یعنی مدد گار) لکھے ہیں ۔ 
(تفسیرطَبَری جلد 12صفحہ154)
(تفسیرقُرطُبی جلد 18 صفحہ 143)
(تفسیرِکبیرجلد 10 صفحہ 570)
(تفسیرِبَغْوی جلد 4صفحہ337)
(تفسیرِ خازِن جلد 4صفحہ286)
(تفسیرِ نَسفی صفحہ1257)

اُن چار کتابوں کے نام بھی حاضِر ہیں جن میں آیتِ مبارَکہ کے لفظ ’’مولیٰ‘‘ کے معنیٰ ’’ناصر‘‘(یعنی مددگار) کئے گئے ہیں ۔ 
(تفسیر ِجلالین صفحہ465)
(تفسیرِ رُوحُ الْمَعانی جلد 28 صفحہ481)
(تفسیرِ بیضاوی جلد 5صفحہ 356)
(تفسیر ابی سُعُود جلد 5 صفحہ 738)

النھایہ میں لفظ مولا کے مختلف معانی بیان کیئے گئے ہیں::
(1)رب (پرورش کرنیوالا
(2)مالک۔ سردار
(3)انعام کرنیوالا
(4)آزاد کرنیوالا
(5)مدد گار
(6)محبت کرنیوالا
(7)تابع (پیروی کرنے والا)
(8)پڑوسی
(9)ابن العم (چچا زاد)
(10)حلیف(دوستی کا معاہدہ کرنیوالا )
(11)عقید (معاہدہ کرنے والا )
(12)صھر (داماد، سسر)
(13)غلام
(14)آزاد شدہ غلام
(15)جس پر انعام ہوا
(16)جو کسی چیز کا مختار ہو ۔ کسی کام کا ذمہ دار ہو۔ اسے مولا اور ولی کہا جاتا ہے ۔
(17)جس کے ہاتھ پر کوئی اسلام قبول کرے وہ اس کا مولا ہے یعنی اس کا وارث ہو گا وغیرہ ۔ 
(ابن اثير، النهايه، 5 : 228)

حکیم الامت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے الفاظ ’’جس کا میں مولیٰ ہوں علی بھی اُس کے مولیٰ ہیں ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں : مولیٰ کے بَہُت (سے) معنٰی ہیں : دوست، مددگار، آزاد شُدہ غلام،(غلام کو) آزاد کرنے والا مولیٰ۔اِس (حدیثِ پاک میں مولیٰ) کے معنٰی خلیفہ یا بادشاہ نہیں یہاں (مولیٰ) بمعنی دوست (اور) محبوب ہے یا بمعنی مددگار اور واقِعی حضرتِ سیِّدُنا علیُّ الْمُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم مسلمانوں کے دوست بھی ہیں، مددگار بھی، اِس لئے آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو ’’مولیٰ علی‘‘ کہتے ہیں۔
(مراٰۃ المناجیح ج۸ص۴۲۵،)

مولىٰ کا صحیح مطلب:::
علم اللغة والنحو والأدب والانساب کے امام محمد بن زیاد ابن الاعرابی ابو عبدالله الہاشمی رح (١٥٠-٢٣١ ہجری) فرماتے ہیں :"چچازاد، آزاد کرنے والے ، آزاد ہونے والے ، کاروباری ساجھی، معاہدہ کرنے والے ، محبت کرنے والے، با اثر اور دوست سب کو ((مولىٰ)) کہتے ہیں. نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے : ((من كنت مولاه فعلي مولاه))
ترجمہ : 
جس کا میں دوست ہوں اس کا علی رضی اللہ عنہ بھی دوست ہے. یعنی جو مجھ سے محبت رکھتا ہے ، وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی محبت رکھے ، ثعلب کہتے ہیں : 
رافضیوں کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ پوری مخلوق کے مولا یعنی مالک ہیں، اس معاملہ میں رافضی لوگ کفر کے مرتکب ہوئے ہیں، یہ بات تو عقلی اعتبار سے بھی غلط ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خرید و فروخت کرتے تھے، جب تمام چیزیں ان کی ملکیت تھیں تو خرید و فروخت کیسی ؟؟؟ 
مذکورہ حدیث میں لفظ مولا، محبت اور دوستی کے باب سے ہیں ۔ 
(تاریخ دمشق، لامام ابن عساکر : ٤٢/٢٣٨، وسندہ صحیح)

لفظ مولا یا لفظ مولانا کا اطلاق جس طرح باری تعالی پر ہوا ہے ، اسی طرح اس لفظ کا استعمال قرآن واحادیث میں دیگر مختلف معانی کے لیئے بھی ہوا ہے ۔ چنانچہ درج ذیل سطورمیں اس لفظ کی صحیح تحقیق اوراس کا استعمال کس انداز اور کس کس معنی میں ہوا ہے پیش کیا جا رہا ہے ۔

’’مولا ‘‘کااطلاق اللہ تعالی پرقرآن کریم میں

(1) فانصرناأنت مولانا ۔ (البقرہ:۲۸۶)
(2) بل اللہ مولاکم ۔ (آل عمران ۱۵۰)
(3) فاعلموا أن اللہ مولاکم ۔ (انفال:۴۰)
(4) واعتصموا باللہ ھومولاکم فنعم المولی ونعم النصیر ۔ (الحج:۷۸)
(5) ذلک نأن اللہ مولی الذین اٰمنوا (محمد:۱۱)
(6) واللہ مولاکم ۔ (تحریم:۲)
(7) الاماکتب اللہ لنا ھومولانا ۔ (توبہ:۵)
(8) فان اللہ ھومولاہ وجبرئیل وصالح المؤمنین ۔ (تحریم:۴)
(9) ثم ردواالی اللہ مولھم الحق ۔ (انعام:۶۲)
(10) وردواالی اللہ مولھم الحق ۔ (یونس:۳۰)

’’مولا‘‘ کا اطلاق اللہ تعالی پر احادیث میں

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : قولوا اللہ مولانا ولا مولالکم (بخاری:۴۰۴۳) ، لوگو!تم کہوکہ اللہ ہمارامولی اورکاسازہے نہ کہ تمہارا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ولیقل .... سیدی ومولای ۔ (بخاری:۲۵۵۲)(مسلم:۲۲۴۹) کہ اسے چاہئے کہ وہ اللہ کے بارے میں میرا آقا اورمیرا مولی کہے ۔

’’مولا ‘‘ کا اطلاق اللہ تعالی کے علاوہ پرقرآن کریم میں::

لبئس المولی ۔ (حج:۱۳) 
امام مجاھد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : اس آیت میں مولی بت کے معنی میں ہے ۔ (تفسیرابن کثیر:۳؍۷۸۰،چشتی)

یوم یغنی مولی عن مولی شیئا ۔ (دخان:۴۱) 
علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں: أی لا ینفع قریب قریبا ۔ (تفسیرابن کثیر:۴؍۱۸۳)، کہ کوئی رشتہ دار کسی بھی رشتہ دار کو نفع نہیں پہنچائے گا اس جگہ رشتہ دار پر مولی کا اطلاق ہوا ہے ۔

مأوٰکم النارھی مولاکم ۔ (تحدید:۱۵) 
علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں: ھی مولاکم : ھی أولی بکم من کل منزل علی کفرکم وارتیابکم ۔ (تفسیرابن کثیر:۴؍۳۹۵) ، 
کہ مولاکم سے مراد تمہارے لئے ہرمنزل پر تمہارے کفر اور شک کی بناء پر جہنم بہتر ہے۔ اس جگہ مولی کااستعمال جہنم کے لئے ہوا ہے ۔

وکل علی مولاہ ۔ (نحل:۷۶) 
امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’ای غلیظ وثقیل علی مولاہ‘‘ ۔ (التفسیر الکبیر:۲۰؍۸۸) کہ وہ اپنے آقا پر بھاری اور بوجھ ہے ۔ اس جگہ مولی کا اطلاق مالک اور آقا پر ہوا ہے ۔

ولکل جعلنا موالی مماترک ۔ (نساء) 
اس آیت میں لفظ موالی کا اطلاق وارث پر ہوا ہے ۔ (تفسیرابن کثیر:۱؍۶۳۸)

انی خفت الموالی ۔ (مریم:۵) 
امام مجاھد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اراد بالمولی العصبۃ۔ (تفسیرابن کثیر:۳؍۱۵۰) کہ یہاں پر مولی کااطلاق ان رشتہ داروں پر ہوا ہے جن کو اصطلاح شرح میں عصبہ کہا جاتا ہے جنہیں میت کے ترکہ میں سے ذوی الفروض کو ان کا حصہ دینے کے بعد بچا ہوا مال دیا جاتا ہے ۔

فاخوانکم فی الدین وموالیکم ۔ (احزاب:۵) 
ای ’’أنا من اخوانکم فی الدین ‘‘ کہ میں تمہارا دینی بھائی ہوں ۔ اس آیت میں موالی بھائی کے میں استعمال ہوا ہے ۔

احادیث میں ’’مولانا ‘‘ کا اطلاق اللہ تعالی کے علاوہ پر::

وقال لزید: أنت أخونا ومولانا ۔ (بخاری:۲۶۹۹) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ زید تم ہمارے بھائی اور مولی ہو ۔

حافظ ابن حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: واما المولی فکثیرالتصرف فی الوجوہ المختلفۃ من ولی وناصر وغیرذلک ،ولکن لایقال السید ولا الموتی علی الاطلاق من غیراضافۃ الا فی صفۃ اللہ تعالی ۔۔۔ فکان اطلاق المولی أسھل وأقرب الی عدم الکراھۃ ۔ (فتح الباری:۶؍۹۸۶،چشتی)
ترجمہ : 
لفظ مولی کا اطلاق بہت سے معانی پر ہوتا ہے، مثلا ولی، ناصر، وغیرہ، لیکن لفظ مولی اور سید مطلقا بغیرکسی اضافت کے اللہ تعالی کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے، اور لفظ مولی کا اطلاق اللہ کے علاوہ پر کرنے میں کوئی کراہت نہیں ہے (اس لئے کہ جب سید کا اطلاق اللہ کے علاوہ پر ہو سکتا ہے جب کہ اس میں ایک ہی معنی [سردار] پائے جاتے ہیں تو مولی میں چوںکہ بہت سارے معنی پائے جاتے ہیں اس اعتبار سے اللہ کے علاوہ پر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے)

ماکنت مولاہ فعلی مولاہ ۔ (سنن ترمذی:۳۷۲۲) ، اس حدیث کامطلب یہ ہے کہ جس کا میں ذمہ دارہوں اس کا علی رضی اللہ عنہ بھی ذمہ دارہے یا جس سے میں محبت کرتا ہوں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس سے محبت کرتے ہیں ۔

علامہ جزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کہ حدیث پاک میں لفظ مولی کا تزکرہ بکثرت آیا ہے ، اور لفظ مولی ایک ایسا نام ہے جوبہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ رب ، مالک ، آقا ، احسان کرنے والا ، آزاد کرنے والا ، مدد کرنے والا ، محبت کرنے والا ، الغرض ہر وہ شخص جوکسی معاملہ کا ذمہ دار ہو اس پر مولی اور ولی کا اطلاق ہوتا ہے ۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ثلاثۃ علی کثبان المسک یوم القیامۃ،عبدادی حق اللہ وحق مولاہ ۔ (سنن ترمذی:۱۹۸۶) کہ قیامت کے دن تین لوگ مشک کے ٹیلوں پرہوگے ، وہ غلام جس نے اللہ تعالی کا حق ادا کیا اور اپنے آقا کا حق ادا کیا ۔ اس حدیث میں بھی مولی آقا اور سردار کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ولابأس بقول العبد لسیدہ :مولای،فان المولی وقع علی ستۃ عشر معنی ۔۔۔ منھاالناصروالمالک ۔ (شرح مسلم:۵؍۹۰۴،چشتی)
ترجمہ : غلام کے لئے اپنے آقا کومولا کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے اس لئے کہ لفظ مولی سولہ معنی میں استعمال ہوتا اس میں سے مالک اور ناصر بھی ہے ۔

مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ لفظ مولی کا اطلاق اللہ عزّ و جل کے علاوہ دیگرمعانی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔

’’مولٰنا‘‘ دولفظ سے مرکب ہے’’مولی‘‘ اور’’نا‘‘ عربی زبان میں مولی متعدد معنوں کے لئے آتا ہے،’’صاحب تاج العروس‘‘علامہ زبیدی رحمۃ اللہ علیہ نے مولی کے معانی تفصیل کے ساتھ لکھ کرتحریر فرمایا ہے کہ : فھذہ احد وعشرون معنی للمولی : واکثرھا قدجاء ت فی الحدیث ،فیضاف کل واحد الی مایقتضیہ الحدیث الواردفیہ ۔(تاج العروس:۱۰؍۳۹۹)
ترجمہ : یہ اکیس معنی لفظ مولی کے ہیں اوران میں اکثرمعانی حدیث میں آئے ہیں اس لئے جس حدیث میں لفظ مولی وارد ہواہے ، وہ حدیث جس معنی کی مقتضی ہوگی وہ مراد لئے جائیں گے ۔

قرآن وحدیث اور علماء امت کی تشریحات سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ لفظ’’ مولا‘‘ کا اطلاق اللہ عزّ و جل کے علاوہ دیگر معانی میں بھی درست ہے، بعض لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ لفظ مولا کا اطلاق اللہ تعالی کی ذات کے علاوہ کسی اور پر کرنا گویا اللہ تعالی کے ساتھ شرک اور اللہ تعالی کی ناقدری ہے،ان کایہ موقف قرآن وحدیث کے موقف کے خلاف ہے ، نیزان کی علمی کجی اور جہالت کی دلیل ہے ، اس لئے ان کے اس طرح کے موقف سے اتفاق کرنے سے احتیاط ضروری ہے ۔ 

۔ ۔ ۔
#shefro

Wednesday, June 5, 2019

رکودک "Reko Diq" ء "$100 ارب امریکی ڈالرکےذخائر" 💯

پاکستانی بلوچستان میں ضلع چاغی کے علاقے میں ایران و افغانستان کی سرحدوں سے نزدیک ایک علاقہ ہے جہاں دنیا کے عظیم ترین سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں۔ مقامی زبان میں رکودک کا مطلب ہے ریت سے بھری چوٹی۔ یہاں کسی زمانے میں آتش فشاں پہاڑ موجود تھے جو اب خاموش ہیں۔ اس ریت سے بھرے پہاڑ اور ٹیلوں کے 70 مربع کلومیٹر علاقے میں 12 ملین ٹن تانبے اور 21 ملین اونس سونے کے ذخائر موجود ہیں۔ تانبے کے یہ ذخائر چلی کے مشہور ذخائر سے بھی زیادہ ہیں۔ حال ہی میں پاکستانی بلوچستان میں غیر ملکی قوتوں کی مداخلت کی ایک وجہ یہ علاقہ بھی بتایا جاتا ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق سونے کی ذخائر کی مالیت 100 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔ اس کان کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بیک وقت دنیا کی سب سے بڑی سونا نکالنے والی شراکت اور دنیا کی سب سے بڑی تانبا نکالنے کی شراکت دونوں کام کر رہی ہیں جس سے اس علاقے کی اہمیت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق ان عظیم ذخائر کو کوڑیوں کے بھاؤ غیر ملکی شراکتوں کو بیچا گیا ہے۔

اس میں کچھ کانکنی بھی ہو چکی ہے جو اخبارات و جرائد میں پاکستانی حکومت کی ناعاقبت اندیشی اور کمیشن کھانے کی مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ یہی اخبارات و جرائد اسے بلوچستان میں امریکی مداخلت کی وجہ بھی بتاتے ہیں۔ موجودہ کانوں کا جو ٹھیکا دیا گیا ہے اس میں بلوچستان کی حکومت کا حصہ 25 فی صد، انتوفاگاستا (Antofagasta plc ) کا حصہ 37 اعشاریہ 5 فی صد اور بیرک گولڈ (Barrick Gold) کا حصہ 37 اعشاریہ 5 فی صد ہے۔ لیکن حکومت بلوچستان کو یہ حصہ اس صورت میں ملے گا اگر وہ ان کانوں میں 25 فی صد سرمایہ کاری کرے۔ یعنی اصل میں بلوچستان کی زمین اور وسائل استعمال کرنے کے لیے بلوچستان یا حکومت پاکستان کو کوئی ادائیگی نہیں ہو رہی۔ انتوفاگاستا (Antofagasta plc ) چلی کی ایک شراکت ہے لیکن اس میں بنیادی حصص برطانوی لوگوں کے ہیں کیونکہ اس شراکت نے 1888 میں برطانیہ میں جنم لیا تھا۔ دوسری شراکت بیرک گولڈ (Barrick Gold) دنیا کی سب سے بڑی سونا نکالنے کی شراکت ہے جس کا صدر دفتر کینیڈا میں ہے مگر یہ اصلاً ایک امریکی شراکت ہے۔ اس کے دفتر امریکا، آسٹریلیا وغیرہ میں ہیں۔ اولاً کانکنی کے حقوق ایک آسٹریلوی شراکت ٹیتیان (Tethyan) کو دیے گئے تھے جس کا اپنا اندازہ تھا کہ ہر سال 500 ملین پاؤنڈ تانبا نکالا جا سکے گا۔ بعد میں اوپر دی گئی شراکتوں نے یہ حقوق لے لیے۔ واضح رہے کہ ٹیتیان (Tethyan) انہی دو شراکتوں نے مل کر بنائی تھی جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ سونے کا ذکر تک نہیں ہوا اور بعض ذرائع کے مطابق تابنے کی آڑ میں سونا بھی نکالا جاتا رہا اور ہر 28 گرام سونے کے لیے 79 ٹن کے ضائع زہریلے اجزاء بشمول آرسینک زمین میں دفن ہوتے رہے جو ادھر کے ماحول کو خراب اور زیر زمین پانی اور کاریزوں کو زہریلا کرتے رہے۔

زیادہ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسے تانبے کی کان کے نام سے مشہور کیا گیا ہے تاکہ سونا نکالنے پر پردہ پوشی کی جاسکے۔ جولائی 2009ء میں بیرک گولڈ اور انتوفاگاستا نے اس علاقہ میں مزید تلاش کے لیے تین ارب امریکی ڈالر کی مزید سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ جنوری 2011ء میں ثمر مبارک مند نے عدالت اعظمی کو بتایا کہ ملک کانوں سے خود سونا اور تانبا نکال کر دو بلین ڈالر سالانہ حاصل کر سکتا ہے۔ غیر ملکی کمپنی دھاتوں کو خستہ حالت میں ہی ملک سے باہر لے جانا چاہتی ہے۔ مبصرین کے مطابق چلی اور کینیڈا کی کمپنی پاکستانی حکمرانوں کو رشوت دے کر ذخائر کوڑیوں کے بھاؤ حاصل کر رہی ہے۔
بلوچستان کی موجودہ صورتحال کا اندازہ آپ خود ان باتوں سے لگاسکتے ہیں، کہ امریکی بحری بیڑے کی ہمارے سمندر میں موجودگی، امریکہ اور ایران کی موجودہ کشیدگی اور انڈیا کی جانب سے حالیہ بلوچستان میں دہشدگردی کی اصل وجوہات کیا ہیں۔ 
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے ملک کو نظر بد سے بچاےٗ۔ اور ہمارے حکمرانوں کو عقل سلیم عطاء کرے۔ آمین

یہ اہم معلومات میں اپنے ایک دوست کے فرمائش پر شئیر کررہا ہوں
----
#shefro





دعائے_انس_بن_مالک رضی اللہ عنہ اور حجاج بن یوسف "

ایک عبرت انگیز واقعہ !
۔ ۔ ۔

ایک دن حضرت انس رضی اللہ عنہ حجاج بن یوسف ثقفی کے پاس بیٹھے تھے۔ حجاج نے حکم دیا کہ ان کو مختلف قسم کے چار سو گھوڑوں کا معائنہ کرایا جائے، حکم کی تعمیل کی گئی۔ 

حجاج نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہا: 
فرمائیے ! اپنے آقا یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی اس قسم کے گھوڑے اور ناز و نعمت کا سامان کبھی آپ نے دیکھا؟ 
فرمایا: بخدا! 
یقینا میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بدرجہ بہتر چیزیں دیکھیں اور میں نے حضور اکرم ﷺ سے :سنا کہ آپ فرماتے تھے 

جن گھوڑوں کی لوگ پروَرِش کرتے ہیں، ان کی تین قسمیں ہیں:

ایک شخص... گھوڑا اس نیت سے پالتا ہے کہ حق تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرے گا اور دادِ شجاعت دے گا، اس گھوڑے کا پیشاب، لید، گوشت پوست اور خون قیامت کے دن تمام اس کے ترازوئے عمل میں ہوگا۔

دُوسرا شخص... گھوڑا اس نیت سے پالتا ہے کہ ضرورت کے وقت سواری کیا کرے اور پیدل چلنے کی زحمت سے بچے (یہ نہ ثواب کا مستحق ہے اور نہ عذاب کا)

تیسرا وہ شخص... ہے جو گھوڑے کی پروَرِش نام اور شہرت کے لئے کرتا ہے، تاکہ لوگ دیکھا کریں کہ فلاں شخص کے پاس اتنے اور ایسے ایسے عمدہ گھوڑے ہیں، اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔

حجاج! تیرے گھوڑے اسی قسم میں داخل ہیں۔

حجاج یہ بات سن کر بھڑک اُٹھا اور اس کے غصّے کی بھٹی تیز ہوگئی اور کہنے لگا: اے انس! جو خدمت تم نے حضور اکرم ﷺ کی کی ہے اگر اس کا لحاظ نہ ہوتا،نیزامیرالمومنین عبدالملک بن مروان نے جو خط مجھے تمہاری سفارش اور رعایت کے بابت لکھا ہے، اس کی پاسداری نہ ہوتی تو نہیں معلوم کہ آج میں تمہارے ساتھ کیا کر گزرتا۔ 

حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خدا کی قسم! تو میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور نہ تجھ میں اتنی ہمت ہے کہ تو مجھے نظرِ بد سے دیکھ سکے۔ 

میں نے حضور اکرم ﷺ  سے چند کلمات سن رکھے ہیں۔ میں ہمیشہ ان ہی کلمات کی پناہ میں رہتا ہوں اور ان کلمات کی برکت سے مجھے نہ کسی سلطان کی سطوت سے خوف ہے، نہ کسی شیطان کے شر سے اندیشہ ہے۔

حجاج اس کلام کی ہیبت سے بے خود اور مبہوت ہو گیا، تھوڑی دیر بعد سر اُٹھایا اور (نہایت لجاجت سے) کہا: 
اے ابو حمزہ! وہ کلمات مجھے بھی سکھا دیجئے! فرمایا: تجھے ہرگز نہ سکھاوں گا۔
بخدا! تو اس کا اہل نہیں۔

پھر جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کے وصال کا وقت آیا، آبان جو آپ کے خادم تھے، حاضر ہوئے اور آواز دی۔ 

حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا چاہتے ہو؟ عرض کیا: وہی کلمات سیکھنا چاہتا ہوں جو حجاج نے آپ سے چاہے تھے مگر آپ نے اس کو سکھائے نہیں۔

فرمایا: ہاں! تجھے سکھاتا ہوں، تو ان کا اہل ہے۔ میں نے حضور اکرم ﷺ کی دس برس خدمت کی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال اس حالت میں ہوا کہ آپ ﷺ مجھ سے راضی تھے۔ 
اسی طرح تو نے بھی میری خدمت دس سال تک کی اور میں دُنیا سے اس حالت میں رُخصت ہوتا ہوں کہ میں تجھ سے راضی ہوں۔

صبح و شام یہ کلمات پڑھا کرو، حق سبحانہ وتعالیٰ تمام آفات سے محفوظ رکھیں گے۔

"بِسْمِ اللهِ عَلٰی نَفْسِیْ وَدِیْنِیْ، بِسْمِ اللهِ عَلٰی اَھْلِیْ وَمَالِیْ وَوَلَدِیْ، بِسْمِ اللهِ عَلٰی مَا اَعْطَانِیَ اللهُ، اَللهُ رَبِّیْ لَا اُشْرِکُ بِہ شَیْئًا، اَللهُ اَکْبَرُ، اَللهُ اَکْبَرُ، اَللهُ اَکْبَرُ وَاَعَزُّ وَاَجَلُّ وَاَعْظَمُ مِمَّا اَخَافُ وَاَحْذَرُ عَزَّ جَارُکَ وَجَلَّ ثَنَاوٴُکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ، اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ وَمِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْطَانٍ مَّرِیْدٍ، وَّمِنْ شَرِّ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ، فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللهُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، اِنَّ وَلِیَّ اللهُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْکِتٰبَ وَھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ۔
۔ ۔

(مستفاد از فتاوی یوسفی)
۔ ۔ ۔
#shefro

اپنی_اصلاح 💠

كسان كى بيوى نے جو مكهن كسان كو تيار كر كے ديا تها وه اسے ليكر فروخت كرنے كيلئے اپنے گاؤں سے شہر كى طرف روانہ ہو گيا، یہ مكهن گول پيڑوں كى شكل ميں بنا ہوا تها اور ہر پيڑے كا وزن ايک كلو تها۔

شہر ميں كسان نے اس مكهن كو حسب معمول ايک دوكاندار كے ہاتھوں فروخت كيا اور دوكاندار سے چائے كى پتى، چينى، تيل اور صابن وغيره خريد كر واپس اپنے گاؤں كى طرف روانہ ہو گيا. كسان كے جانے بعد…… دوكاندار نے مكهن كو فريزر ميں ركهنا شروع كيا…. اسے خيال گزرا كيوں نہ ايک پيڑے كا وزن كيا جائے. وزن كرنے پر پيڑا 900 گرام كا نكلا، حيرت و صدمے سے دوكاندار نے سارے پيڑے ايک ايک كر كے تول ڈالے مگر كسان كے لائے ہوئے سب پيڑوں كا وزن ايک جيسا اور 900 – 900 گرام ہى تها۔

اگلے ہفتے كسان حسب سابق مكهن ليكر جيسے ہى دوكان كے تهڑے پر چڑها، دوكاندار نے كسان كو چلاتے ہوئے كہا کہ وه دفع ہو جائے، كسى بے ايمان اور دهوكے باز شخص سے كاروبار كرنا اسكا دستور نہيں ہے.900 گرام مكهن كو پورا ایک كلو گرام كہہ كر بيچنے والے شخص كى وه شكل ديكهنا بهى گوارا نہيں كرتا. كسان نے ياسيت اور افسردگى سے دوكاندار سے كہا: “ميرے بهائى مجھ سے بد ظن نہ ہو ہم تو غريب اور بے چارے لوگ ہيں، ہمارے پاس تولنے كيلئے باٹ خريدنے كى استطاعت كہاں. آپ سے جو ايک كيلو چينى ليكر جاتا ہوں اسے ترازو كے ايک پلڑے ميں رکھ كر دوسرے پلڑے ميں اتنے وزن كا مكهن تول كر لے آتا ہوں۔

اس تحریر کو پڑھنے کہ بعد آپ کیا محسوس کرتے ہیں۔

کسی پر انگلی اٹھانے سے پہلے کیا ہم پہلے اپنے گریبان چیک نہ کرلیں۔ کہیں یہ خرابی ہمارے اندر تو نہیں ؟

کیونکہ اپنی اصلاح کرنا مشکل ترین کام ہے...
۔ ۔ ۔
#shefro

Saturday, June 1, 2019

پہاڑ_اور_قرآن "🌋

پہاڑوں کا زمین کی سطح پر میخوں کی طرح گڑے ہونا!! 

قرآن اور جدید سائنس کی روشنی میں ایک حیرت انگیز تحقیق ..!!

۔ ۔ ۔
ابھی حال ہی میں ماہرین ارضیات نے دریافت کیا ہے کہ زمین پر موجود پہاڑوں کی ایک خاص اہمیت ہے اور یہ زمین کی سطح میں بالکل میخوں یعنی کیلوں کی طرح گھڑے ہوئے ہیں۔ 
جدید ماہرین ارضیات ہمیں بتاتے ہیں کہ زمین کا نصف قطر 6,378 کلو میٹر ہے۔ زمین کی سب سے باہری سطح ٹھنڈی ہے لیکن اندرونی پرتین ا نتہائی گرم اور پگھلی ہوئی حالت میں ہیں۔ جہاں زندگی کا کوئی امکان موجود نہیں اور یہ کہ زمین کی سب سے بیرونی پرت جس پر ہم آباد ہیں ،نسبتاً انتہائی باریک ہے۔

مختلف جگہوں پر اس کی موٹائی1 سے 70 کلومیٹر تک ہے چنانچہ یہ ممکن تھا کہ زمین کی یہ پرت یا تہہ (Crust) اپنے اوپر بوجھ کی وجہ سے کسی بھی وقت ڈگمگا جاتی۔ جسکی ایک وجہ''بل پڑنے کا عمل'' ہے جس کے نتیجے میں پہاڑ بنتے ہیں اور زمین کی سطح کو استحکام ملتا ہے۔ لہٰذا اسی وجہ سے اس پر پہاڑوں کو میخوں کی طرح بنا دیا گیا تاکہ زمین کاتوازن برقرار رہے اور یہ اپنی جگہ سے لڑھک نہ جائے 'قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کابار ہا مرتبہ تذکرہ فرمایا ہے۔ 
مثلاً...

(اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِھٰدًا ۔ وَّالْجِبَالَ اَوْتَادًا)
'' کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا اور پہاڑوں کو میخیں ''  ( النبا، 78: 6-7)

قرآن یہ نہیں کہتا کہ پہاڑوں کو میخوں کی طرح زمین میں اوپر سے گاڑا گیا ہے بلکہ یہ کہ پہاڑوں کو میخوں کی طرح بنایا گیا ہے۔ "اوتادا"ً کا مطلب خیمے گاڑنے والی میخیں ہی ہوتا ہے ۔آج جدید ارضیات بھی اس بات کی تائید کرتی ہے کہ پہاڑوں کی جڑیں زمین میں گہرائی تک ہوتی ہیں ۔یہ بات انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں سامنے آئی تھی کہ پہاڑ کا بیش تر حصہ زمین کے اندر ہوتا ہے اور صرف تھوڑا سا حصہ ہمیں نظر آتا ہے ،بالکل اسی طرح جیسے زمین میں گڑی ہوئی میخ کا بیش تر حصہ ہماری نظروں سے اوجھل ہوتا ہے یا جس طرح ''آئس برگ'' کی صرف چوٹی ہمیں نظر آتی ہے جبکہ نوے فیصد حصہ پانی کے اندر ہوتا ہے ۔(1)

مفسرین کرام کے مطابق جب زمین پیداکی گئی تو ابتداً لرزتی تھی ،ڈولتی تھی ،جھولتی تھی اور ادھر ادھر ہچکولے کھاتی تھی۔ایسی صورت میں انسان کا اس پر زندہ رہنا ممکن نہ تھا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی پشت پر جابجا پہاڑوں کے طویل سلسلے میخوں کی طرح بنا دیے اور انہیں اس تناسب سے جابجا مقامات پر پیدا کیا جس سے زمین پر لرزش اور جھول بند ہو گئی اور وہ اس قابل بنا دی گئی کہ انسان اس پر اطمینان سے چل پھر سکے۔ اس پر مکانات وغیرہ تعمیر کر سکے اور سکون سے پوری زندگی بسر کر سکے۔

دوسرے مقام پرارشاد باری تعالیٰ ہے :

(وَجَعَلْنَا فَی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بَھِمْ ص وَجَعَلْنَا فَیْھَا فِجَاجًا سُبُلًا  لَّعَلَّھُمْ یَھْتَدُوْنَ)
''اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈُھلک نہ جائے اور اس میں کشادہ راہیں بنا دیں 'شاید کہ لوگ اپنا راستہ معلوم کر لیں''  (الانبیاء،21:31)

پروفیسر سیاویدا (Professor Siaveda) جاپان کے نہ صرف ایک عظیم اسکالر بلکہ سائنسدان اور بحری ماہر ارضیات (Marine Geologist) ہیں۔ پروفیسر سیاویدا سے جب پہاڑوں کے متعلق سوالات کیے گئے تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا:

''براعظمی پہاڑوں اورسمندری پہاڑوں کے درمیان فرق ان کے طبع (مواد) کا ہے۔ براعظمی پہاڑ بنیادی طورپر رسوب (Sediments) سے بنے ہوئے ہیں جب کہ سمندری پہاڑ آتش فشانی چٹانوں (Volcanic Rocks) سے بنے ہوئے ہیں۔ براعظمی پہاڑ انضباطی دباؤ (Compressional Forces) کے تحت تشکیل پاتے ہیں۔ جبکہ سمندری پہاڑ توسیع دباؤ (Extensional Forcess)کے تحت تشکیل پاتے ہیں۔ لیکن دونوں اقسام کے پہاڑوں میں  مشترکہ نصب نما (Denominator) یہ ہے کہ دونوں کی جڑیں ہوتی ہیں جو کہ پہاڑوں کو سہارا دیے رہتی ہیں۔

براعظمی پہاڑوں کے معاملے میں ہلکا مواد پہاڑوں سے نیچے کی جانب زمین میں جڑ کے طورپر پوری قوت سے جماہوا ہوتاہے۔ سمندری پہاڑوں کے معاملے میں بھی ہلکا مواد پہاڑوں کے نیچے زمین میں جڑ کے طور پر قوت پکڑتا ہے لیکن سمندری پہاڑوں کے معاملے میں ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ گرم ہوتا ہے اس لیے قدرے پھیلا ہوا ہوتا ہے اور پہاڑوں کو سہارا دینے کا کام کرتاہے۔ 
جڑوں کا پہاڑوں کو سہارا دینے کا کا م ارشمیدس کا قانون (Law of Archimedes) کے مطابق ہوتا ہے۔ پروفیسر سیاویدا نے سمندروں یا زمین کے اوپر پائے جانے والے تمام پہاڑوں کی شکل اور ساخت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ میخ یا فانہ (Wedge) کی طرح کی ہوتی ہیں۔(2)

ڈاکٹر فرینک پریس امریکہ کے ایک ماہر ارضیات ہیں اور یہ امریکی صدر جمی کارٹر کے مشیر بھی رہ چکے ہیں ۔انہوں نے ایک کتاب ''زمین '' (Earth) لکھی ہے جو بیش تر یونیورسٹیوں کے ارضیات کے نصاب میں شامل ہے ۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ کہ پہاڑ مثلث نما ہوتے ہیں ،زمین کے اندر گہرائی تک ان کی جڑیں ہوتی ہیں اور یہ کہ پہاڑ زمین کو استحکام فراہم کرتے ہیں۔ (3)

جغرافیائی ماہرین کے مطابق زمین کا اندرونی مرکز سطح زمین سے تقریبا ً6,378 کلومیٹر دور ہے جو کور (Core) کہلاتا ہے۔ اسکے اندرونی اور بیرونی حصے ہیں۔ اندرونی مرکزی حصہ ٹھوس لوہے کے ایک بڑے گیند کی شکل میں ہے۔ اس میں نکل اور لوہا ہے۔ اس کی بیر ونی سطح دھاتوں کے پگھلے ہوئے مادے پر مشتمل ہے جو زمین کی سطح سے نیچے گہرائی کی جانب تقریبا 2,900 کلومیٹر  دور واقع ہے ۔  اس کے اوپر والا حصہ (حفاظتی ڈھال یا غلاف) Mantale ہے جو زمین کی اوپر والی تہہ سے تقریباً 100 کلومیٹر نیچے سے شروع ہو کر 2,900 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔

زمین کا زیادہ تر حصہ اسی پر مشتمل ہے۔ یہ حصہ چٹانوں اور دھاتوں مثلاً ایلومینیم ،میگنیشیم ،نکل وغیرہ کے سیال مادے پر مشتمل ہے۔ جبکہ زمین کا بیرونی حصہ جسے Crust کہتے ہیں، سخت اور بہت ٹھوس ہے۔ اسی حصے پر ہم رہتے ہیں ۔یہ زمین کی سطح سے لے کر کم و بیش 70 کلومیٹر گہرائی تک پھیلا ہوا ہے۔ زمین کی بیرونی تہہ کی موٹائی سمندروں کے نیچے 6 کلو میٹر ہے۔
براعظموں کی چوڑی سطحوں کے نیچے زمین کی بیرونی تہہ کی موٹائی 35 کلومیٹر تک پائی جاتی ہے جبکہ پہاڑی سلسلوں کے نیچے زمین کی بیرونی تہہ کی موٹائی تقریبا ً70 کلومیٹر تک پائی جاتی ہے یعنی جہاں پہاڑ واقع ہیں وہاں پر اس کی موٹائی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ زمین کے کور کا بیرونی حصہ تیز کھولتے ہوئے مائع پر مشتمل ہے جس کا درجہ حرارت تقریباً 7,227 سینٹی گریڈ تک رہتا ہے جو سورج کی بیرونی سطح کے درجہ حرارت سے بھی زیادہ ہے۔ 

اس سطح پر زمین کے اپنے وزن کا دباؤ سمندر پر ہوائی دباؤ سے تیس لاکھ گنا زیادہ ہے۔اس انتہائی شدید گرمی اور زمین کے اندرونی حصوں میں مسلسل حرکت کے باعث بعض اوقات کسی کمزور جگہ سے زمین پھٹ جاتی ہے اور آتش فشاں پھوٹ پڑتے ہیں۔ ان میں سے بعض اوقات 10 فٹ سے زیادہ بلند گرم سرخ لاوے کی دھار ابل پڑتی ہے اور زمین کا اندرونی حصہ نرم ہو جاتا ہے جو اپنے اوپر بوجھ کو برداشت نہیں کرتا جس کے باعث زلزلے کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ چنانچہ زلزلے کے پیدا ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے۔

زمین کی مسلسل حرکت کے باعث اس کے اندر توڑ پھوڑ کا عمل ہر وقت تیز رہتاہے۔ ماہرین کے مطابق کرۂ ارض اندرونی طور پر 15پلیٹوں(جنہیں ٹیکٹون پلیٹس کہتے ہیں) میں تقسیم ہو چکا ہے....ان میں بعض پلیٹیں بڑی اور بعض چھوٹی ہیں ....ان میں یوریشین پلیٹ دنیا کی دوسر ی سب سے بڑی پلیٹ شمار ہوتی ہے۔ یہ جاپان کے جزائر سے شروع ہو کر آئس لینڈ اورشمالی اوقیانوس کے وسط تک جاتی ہے۔ اس کی ایک سرحد چین جبکہ دوسری سائبیریا سے ملتی ہے۔یہ پلیٹ بہت متحرک ہے۔دنیا کے بڑے بڑے آتش فشاں کے سلسلے اس پلیٹ کے ساتھ واقع ہیں۔انڈین پلیٹ بحر ہند کے کنارے واقع ممالک خاص طور پر انڈیا،سری لنکا ،اورتھا ئی لینڈ سے انڈونیشیا اورملایا تک پھیلی ہوئی ہے۔  

ماہرین ارضیات کے مطابق پہاڑ ٹیکٹونز پلیٹوں کے کناروں پر پائے جاتے ہیں یہ زمین کی بیرونی سطح کو جمانے اور مستحکم بنانے میں ممدومعاون ہیں۔ اس لیے کہ یہ زمین کے اندر بہت گہرائی میں اترے ہوئے ہیں اور مضبوط جڑیں رکھتے ہیں۔ ا س کی بہترین مثال کوہ قاف (قفقاز)کی بلند ترین چوٹی ہے جو 5,642 میٹر یعنی 5.6 کلومیٹر اونچی ہے مگر اسی کوہ قاف کی جڑیں زمین کے اندر تقریباً 65 کلومیٹر تک گڑی ہوئی ہیں۔ 
دنیا میں پہاڑوں کا سب سے بڑا سلسلہ امریکہ میں ہے۔ اس کا نام اندس پہاڑ (Andes Mountains) ہے۔ اس کی لمبائی 7,200 کلومیٹر ہے ،یہ جنوبی امریکی ممالک کے سات ملکوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اوسطاً اس کی چوڑائی 300 کلومیٹر ہے جبکہ Bolivia کے مقام پر اس کی چوڑائی 600 کلومیٹر تک پائی گئی ہے۔(4)

دنیا میں بلند ی کے لحاظ کے سے سب سے بڑا پہاڑی سلسلہ ''ہمالیہ ''ہے۔ اس کی لمبائی  2414 کلومیٹر ہے۔ یہ پاکستان ،انڈیا،تبت کے شمالی علاقہ جات ،نیپال ،سکم اور بھوٹان تک پھیلا ہوا ہے۔ تیس مقامات پر اس کی اونچائی 25,000 فٹ سے کم یا زیادہ ہے۔ جبکہ سب سے زیادہ اونچائی 29,036 فٹ ریکارڈ کی گئی ہے۔ سمندری فرش پر سب سے اونچا پایا جانے والا پہاڑ Mauna Kea ہے ،یہ ہوائی میں واقع ہے۔ اس کی مجموعی اونچائی 33,474 فٹ ہے مگر اس کا صرف 13,796 فٹ حصہ سمندر سے باہر ہے۔ پہاڑ دنیا میں زمین کی خشک سطح کا پانچواں حصہ ہیں۔ یہ دنیا کی آبادی کے تقریباً 1/10 حصے کو گھر مہیا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اور دنیا میں 80% تازہ پانی انہی پہاڑوں میں سے نکلتا ہے۔  (5)

اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن میں پہاڑوں کا مقصد یہی بتایا ہے کہ وہ سطح زمین کو استحکا م فراہم کرتے ہیں ۔مثلاً

(وَاَلْقٰی فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِکُمْ وَاَنْھٰرًا وَّ سُبُلًا لَّعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ)
''اس نے زمین میںپہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں تاکہ زمین تم کو لے کرڈُھلک نہ جائے۔ اس نے دریا جاری کیے اور قدرتی راستے بنائے تاکہ تم ہدایت پاؤ '' (النحل،  15 )

(وَجَعَلْنَا فِي الْأَرْ‌ضِ رَ‌وَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِهِمْ وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ)
''اور ہم نے زمین میں پہاڑ جمادیے تاکہ وہ انھیں لے کر ڈھلک نہ جائے اور اس میں کشادہ راہیں بنا دیں ،شاید کہ لوگ اپنا راستہ معلوم کر لیں ''  (الانبیاء،31)

(خَلَقَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ‌ عَمَدٍ تَرَ‌وْنَهَا ۖ وَأَلْقَىٰ فِي الْأَرْ‌ضِ رَ‌وَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ)
''اس نے آسمانوں کو پیدا کیا بغیر ستونوں کے جو تم کو نظر آئیں ۔اس نے زمین میں پہاڑ جما دیے ،تاکہ وہ تمھیں لے کر ڈھلک نہ جائے''۔ (لقمان: 10)

گویا قرآن میں بھی پہاڑوں کا مقصد یہی بتایا گیا ہے کہ وہ سطح زمین کو استحکام فراہم کرتے ہیں ۔قرآن کی ان آیات میں یہ کہیں بھی نہیں کہا گیا کہ پہاڑ زلزلوں کو روکتے ہیں ۔عربی میں زلزلے کے لیے ''زلزال '' کا لفظ استعمال ہوتا ہے ،لیکن مندرجہ بالا تینوں آیات میں کہیں بھی زلزلے کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔ان میں جولفظ استعمال ہوا ،وہ ہے ''تمہیداً'' جس کے معنی ''ڈھلکنے''یا ''جھولنے'' کے ہوتے ہیں اورقرآن ان تینوں آیات میں یہی لفظ استعمال کرتاہے کہ زمین تمھیں لے کر ڈھلک نہ جائے،جھول نہ پڑے ۔اگر پہاڑ نہ ہوتے تو زمین حرکت کرتی ۔علاوہ ازیں رواسی ایسے سلسلہ ہائے کوہ کو کہا جاتاہے جو سیکڑوں میلوں تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ زمین ہچکولے نہ کھائے اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کو پیداکیا گیا تو ڈگمگاتی اور ہچکولے کھاتی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس پر پہاڑ رکھ دیے۔ (ترمذی ، ابواب التفسیر،سورہ الناس)جس کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر پہاڑوں کو کسی خاص ترتیب اورحکمت سے پیدا کیا اور رکھا گیا ہے۔ 

کہیں اونچے اونچے پہاڑ ہیں۔ کہیں پھیلاؤزیادہ ہے لیکن بلندی کم ہے۔کہیں دور دور تک پہا ڑوں کا نام ونشان ہی نہیں ملتا اور یہ سب کچھ زمین کے توازن (Balance)کو قائم رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔ جدید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ پہاڑوں کاوجود زلزلوں کو روکنے میں بھی بڑا ممد ثابت ہوا ہے۔گویا پہاڑوں کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان زمین پر سکون سے رہ سکتاہے۔اس کی مثال یوں سمجھیے جیسے ایک خالی کشتی پانی میں ادھر ادھر ہلتی اور ڈگمگاتی رہتی ہے۔ 
پھر جب اس میں بوجھ ڈال دیا جائے تو اس کا ہلنا جلنا بند ہو جاتا ہے۔ ہماری زمین بھی جدیدسائنس کے مطابق فضا میں تیز ی سے تیر رہی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس پر متناسب اور متوازن پہا ڑ ٹھونک کر اس کی ڈگمگاہٹ کو بند کر دیا۔ پھر انہی پہاڑوں سے اللہ تعالیٰ نے دریاؤں کو رواں کیا۔ چنانچہ دنیا کے بیشتر دریاؤں کے منابع پہاڑوں ہی میں واقع ہوئے ہیں۔پھر انہی پہاڑوں سے ندی نالے نکلتے ہیں اور پھر دریاؤں کے ساتھ ساتھ راستے بھی بنتے چلے جاتے ہیں ،ان قدرتی راستوں کی اہمیت پہاڑی علاقوںمیں تو بہت زیادہ ہوتی ہے۔اگرچہ میدانی علاقوں میں بھی کچھ کم اہم نہیں ہیں۔  (6)

ڈاکٹر الفرڈ کرونر (Dr. Alfred Kronerدنیا کے معروف ماہر علم الارضیات (Geologist) میں سے ایک ہیں۔ وہ جوہانز گیٹمبرگ یونیورسٹی مینز جرمنی (Johannes Gutenberg University Mains,Germany)کے انسٹی ٹیوٹ آف جیوسائنسز (Institute of  Geosciences)میں علم الارضیات کے پروفیسر اورعلم الارضیات کے شعبہ کے چیٔرمین ہیں۔وہ کہتے ہیں:

  ''سوچیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہاں تشریف لائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے لیے اس قسم کی معلومات کا حصول ناممکن تھا۔ مثلاً کائنات کا مشترکہ نقطہ آغاز وغیرہ۔ کیونکہ سائنس دانوں نے بھی بہت ہی پیچیدہ اورجدید ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کے ذریعہ ان معلومات کو کچھ سال پہلے ہی حاصل کیا ہے اور واقعتا ایسا ہی ہے ......چودہ سو سال پہلے جو شخص نیوکلیائی طبیعیات (Nuclear Physics) میں کچھ نہیں جانتا تھا میں سمجھتا ہوں کہ زمین اور آسمان کے مشترکہ آغاز کے بارے میں صرف اپنے ذہن سے کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ ''

پروفیسر الفرڈ کرونر نے قرآن مجیدکو پرکھنے کے لیے بطورمثال ایک آیت منتحب کی جو ان کے امتحان پر پورا اُتری اور انہوں نے کہا قرآن مجید محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کا تحریر کردہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ۔انہوں نے درج ذیل آیت منتخب کی تھی ۔

(اَوَ لَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰھُمَا ط وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآئِ کُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ ط اَفَلَا یُؤْ مِنُوْنَ)
'' کیا کافروں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ آسمان اور زمین آپس میں گڈ مڈ تھے پھر ہم نے انہیں الگ الگ کیا اور ہر جاندار چیز کو پانی سے زندگی بخشی کیا پھر بھی یہ لوگ (اللہ تعالیٰ کی خلاقی ) پر ایمان نہیں لاتے؟'' ( سورة الانبیاء  ۔ 21:30)

پروفیسر الفرڈ کرونر نے اس مثال سے ثابت کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کوئی شخص اس بارے میں قطعاً واقفیت نہیں رکھتا تھا۔

پروفیسر پالمر بھی (Professor Palmer) امریکہ کے ایک صف اول کے ماہر ارضیات ہیں ان سے مسلمانوں کے ایک گروپ نے ملاقات کے دوران جب ان کو قرآن و حدیث میں موجود سائنسی معجزات کے بارے میں بتایا تو وہ بہت حیران ہو ئے ۔دوسرے سائنس دانوں کی طرح پروفیسر پالمر پہلے تو ہچکچائے لیکن بعد میں انہوں نے اپنے خیالات کا کھل کر اظہارکیا۔ انہوں نے قاہرہ میں ایک کانفرنس میں اپنا تحقیقی مقالہ پیش کیا جو کہ قرآن مجید میں ارضیاتی علوم سے متعلق معلومات پر مشتمل ایک بے مثال مقالہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے یہ معلوم نہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ میں سائنس کے شعبہ کے رسم معمولہ کیا تھے لیکن اس وقت علم اوروسائل کی کمی کے متعلق ضرور معلومات ہیں۔میں بغیر کسی شک وشبہ کے کہہ سکتاہوں کہ قرآن مجید آسمانی علم کی روشنی ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا۔ ان کے مقالہ کے آخری ریمارکس یہ تھے:'' ہمیں مشرق وسطیٰ کی ابتدائی تاریخ اورزبانی روایات کی تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ کیا یہ تاریخی واقعات (اس زمانے میں)دریافت ہو چکے تھے۔ اگرکوئی ایسا ریکارڈ نہیں ہے تویہ بات اس عقیدہ کو مضبوط بناتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان علمی پاروں کو منتقل کیا جو آج موجودہ وقت میں دریافت ہوئے ہیں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ قرآن مجیدمیں ارضیاتی تحقیق کے حوالے سے سائنسی موضوع پر گفتگو (تحقیق )جاری رہے گی۔ بہت بہت شکریہ''(7)

سائنس کی تاریخ پتہ چلتاہے کہ پہاڑوں کے گہری جڑیں رکھنے کا نظریہ 1865ء میں برطانوی شاہی فلکیات دان سرجارج ایٔری نے پیش کیا تھا جبکہ قرآن مجید نے یہ بات ساتویں صدی عیسوی میں بتادی تھی ۔کیا کوئی بنی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اس بات کا علم رکھتا تھا یا کیا بائبل میں بھی یہ معلومات پائی جاتی ہیں کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلمنے وہاں سے ان معلومات کو لے کر قرآن میں لکھ دیاہو (نعوذبااللہ ، جیسا کہ بعض مستشترقین اس طرح کا جھوٹا دعوٰی کرتے ہیں )۔
حقیقت یہ ہے کہ جدید علم الارض نے قرآنی آیات کی صداقت کا اعتراف کرلیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ آج اگر انسانیت راہ حق کی متلاشی ہے تو وہ صرف اور صرف اسی کتاب ِہدایت  سے ہی حاصل ہوسکتی ہے ۔اس لیے کہ اگرچہ یہ کوئی سائنس کی کتا ب نہیں ہے مگر اس کے باوجود اس میں بیان کی گئیں تمام سائنسی معلومات ،موجودہ جدید سائنس کی ثابت شدہ دریافتوں کے عین مطابق ہیں ۔یہ غیر مسلم سائنسدانوں کے کڑے امتحان پر پورا اتری ہے جبکہ بائبل کے پہلے صفحے ہی میں کئی سائنسی اغلاط پائی جاتی ہیں جو اس بات کاثبوت ہے کہ موجودہ بائبل تحریف شدہ ہے جبکہ یہ بات بھی قرآن صدیوں پہلے بتا چکا ہے۔

..................................................................................
 حواشی::

(1)۔ قرآن اور بایٔبل جدید سائنس کی روشنی میں از ڈاکٹر ذاکرنائیک صفحہ 49-50
(2)۔  سائنسی انکشافات قرآن وحدیث کی روشنی میں ۔ صفحہ113-114
(3)۔ قرآن اور بایٔبل جدید سائنس کی روشنی میں از ڈاکٹر ذاکرنائیک صفحہ 48
(4)۔http://www.nineplanets.org/earth.html
http://kids.msfc.nasa.gov
بحوالہ اردو میگزین جدہ ،31دسمبر 2004
اسلام کی سچائی اور سائنس کے اعترافات صفحہ58
 بحوالہ قرآن اینڈ ماڈرن سائنس از ڈاکٹر ذاکر نائیک ،صفحہ26
(5)۔ http://www.woodlands-junior.kent.sch.uk/Homework/mountains/world.htm
(6)۔تیسیرالقرآن ،جلد دوم،النحل ،حاشیہ 15""
(7)۔اسلام کی سچائی اور سائنس کے اعترافات صفحہ58""
(8)۔ سائنسی انکشافات قرآن و حدیث کی روشنی میں ۔ صفحہ115-120""

۔ ۔ ۔
#shefro