Translate

Showing posts with label #Islam. Show all posts
Showing posts with label #Islam. Show all posts

Thursday, June 6, 2019

لفظ_مولا "صحیح معنیٰ و مفہوم !!

مولیٰ ايک مستقل لفظ ہے جس کی جمع ”موالی“ ہے، جس کے تقريباً 20 معانی ہيں، جن ميں سے چند معانی یہ ہيں : 
آقا، مالک، پرورش کرنے والا، دوست، آزاد کرنے والا، آزاد کيا ہوا غلام اور مہربان ۔

قرآن کريم ميں بھی مولیٰ کا لفظ مختلف معانی ميں استعمال ہوا ہے۔ صرف مولیٰ کا لفظ تنہا بھی استعمال ہوا اور متعدد ضميروں کے ساتھ بھی يہ لفظ استعمال ہوا ہے۔

فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌo (سورہ تحريم 66 : 4)
ترجمہ : 
سو بے شک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے ، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مدد گار ہیں ۔

اسی طرح سورة الحج، آيت 78 ميں 2 جگہ مولیٰ کا لفظ استعمال ہوا ہے، ايک جگہ ”کُم“ ضمير کے ساتھ جبکہ دوسری مرتبہ بغير ضمير کے اور دونوں جگہوں پر اللہ کی ذات مراد ہے۔ 
قرآن کريم ميں مولیٰ کا لفظ دوسرے معانی ميں بھی استعمال ہوا ہے۔ 

سورة الدخان آيت 41 میں ہے: 
”جس دن کوئی حمايتی کسی حمايتی کے ذرا بھی کام نہيں آئے گا اور ان ميں سے کسی کی کوئی مدد نہيں کی جائے گی۔ اس ميں مولیٰ” اللہ“ کے لئے نہيں بلکہ دوست کے معنیٰ ميں يعنی انسان کے لئے استعمال ہوا ہے۔ 

اسی طرح سورة الحديد، آيت15 میں ہے : 
”چنانچہ آج نہ تم سے کوئی فديہ قبول کيا جائے گا اور نہ اُن لوگوں سے جنہوں نے کفر اختيار کيا تھا، تمہارا ٹھکانا دوزخ ہے ، وہی تمہاری رکھوالی ہے اور يہ بہت برا انجام ہے ۔ 
اس ميں لفظ مولیٰ ”کُم“ ضمير کے ساتھ جگہ يا ٹھکانے کے لئے استعمال ہوا ہے۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کريم ميں يہ واضح کر ديا کہ مولیٰ کے متعدد معانی ہيں۔ 

قرآن کريم ميں لفظ مولیٰ ”نا“ ضمير کے ساتھ 2 جگہ سورة ا لبقرة آيت286 اور سورہ التوبہ آيت51 میں استعمال ہوا ہے اور دونوں جگہ پر اللہ کی ذات مراد ہے يعنی ليکن اس کا مطلب ہرگز يہ نہيں کہ مولانا ايک لفظ ہے اور وہ صرف اللہ کے ساتھ خاص ہے۔ مولیٰ ايک مستقل لفظ ہے اور اس کے ساتھ مختلف ضميريں استعمال کی جا سکتی ہيں: مولائی، مولانا، مولاکم، مولاہ وغيرہ ۔

مفسّرِین کے نزدیک ’’مولیٰ ‘‘ کے معنیٰ::::
وہ تفاسیر جن میں مولا کے معنیٰ مددگار لکھے ہیں : اِس آیتِ مبارکہ میں وارِد لفظ’’ مولیٰ ‘‘کے معنیٰ وَلی اور ناصِر ( یعنی مدد گار) لکھے ہیں ۔ 
(تفسیرطَبَری جلد 12صفحہ154)
(تفسیرقُرطُبی جلد 18 صفحہ 143)
(تفسیرِکبیرجلد 10 صفحہ 570)
(تفسیرِبَغْوی جلد 4صفحہ337)
(تفسیرِ خازِن جلد 4صفحہ286)
(تفسیرِ نَسفی صفحہ1257)

اُن چار کتابوں کے نام بھی حاضِر ہیں جن میں آیتِ مبارَکہ کے لفظ ’’مولیٰ‘‘ کے معنیٰ ’’ناصر‘‘(یعنی مددگار) کئے گئے ہیں ۔ 
(تفسیر ِجلالین صفحہ465)
(تفسیرِ رُوحُ الْمَعانی جلد 28 صفحہ481)
(تفسیرِ بیضاوی جلد 5صفحہ 356)
(تفسیر ابی سُعُود جلد 5 صفحہ 738)

النھایہ میں لفظ مولا کے مختلف معانی بیان کیئے گئے ہیں::
(1)رب (پرورش کرنیوالا
(2)مالک۔ سردار
(3)انعام کرنیوالا
(4)آزاد کرنیوالا
(5)مدد گار
(6)محبت کرنیوالا
(7)تابع (پیروی کرنے والا)
(8)پڑوسی
(9)ابن العم (چچا زاد)
(10)حلیف(دوستی کا معاہدہ کرنیوالا )
(11)عقید (معاہدہ کرنے والا )
(12)صھر (داماد، سسر)
(13)غلام
(14)آزاد شدہ غلام
(15)جس پر انعام ہوا
(16)جو کسی چیز کا مختار ہو ۔ کسی کام کا ذمہ دار ہو۔ اسے مولا اور ولی کہا جاتا ہے ۔
(17)جس کے ہاتھ پر کوئی اسلام قبول کرے وہ اس کا مولا ہے یعنی اس کا وارث ہو گا وغیرہ ۔ 
(ابن اثير، النهايه، 5 : 228)

حکیم الامت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے الفاظ ’’جس کا میں مولیٰ ہوں علی بھی اُس کے مولیٰ ہیں ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں : مولیٰ کے بَہُت (سے) معنٰی ہیں : دوست، مددگار، آزاد شُدہ غلام،(غلام کو) آزاد کرنے والا مولیٰ۔اِس (حدیثِ پاک میں مولیٰ) کے معنٰی خلیفہ یا بادشاہ نہیں یہاں (مولیٰ) بمعنی دوست (اور) محبوب ہے یا بمعنی مددگار اور واقِعی حضرتِ سیِّدُنا علیُّ الْمُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم مسلمانوں کے دوست بھی ہیں، مددگار بھی، اِس لئے آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو ’’مولیٰ علی‘‘ کہتے ہیں۔
(مراٰۃ المناجیح ج۸ص۴۲۵،)

مولىٰ کا صحیح مطلب:::
علم اللغة والنحو والأدب والانساب کے امام محمد بن زیاد ابن الاعرابی ابو عبدالله الہاشمی رح (١٥٠-٢٣١ ہجری) فرماتے ہیں :"چچازاد، آزاد کرنے والے ، آزاد ہونے والے ، کاروباری ساجھی، معاہدہ کرنے والے ، محبت کرنے والے، با اثر اور دوست سب کو ((مولىٰ)) کہتے ہیں. نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے : ((من كنت مولاه فعلي مولاه))
ترجمہ : 
جس کا میں دوست ہوں اس کا علی رضی اللہ عنہ بھی دوست ہے. یعنی جو مجھ سے محبت رکھتا ہے ، وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی محبت رکھے ، ثعلب کہتے ہیں : 
رافضیوں کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ پوری مخلوق کے مولا یعنی مالک ہیں، اس معاملہ میں رافضی لوگ کفر کے مرتکب ہوئے ہیں، یہ بات تو عقلی اعتبار سے بھی غلط ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خرید و فروخت کرتے تھے، جب تمام چیزیں ان کی ملکیت تھیں تو خرید و فروخت کیسی ؟؟؟ 
مذکورہ حدیث میں لفظ مولا، محبت اور دوستی کے باب سے ہیں ۔ 
(تاریخ دمشق، لامام ابن عساکر : ٤٢/٢٣٨، وسندہ صحیح)

لفظ مولا یا لفظ مولانا کا اطلاق جس طرح باری تعالی پر ہوا ہے ، اسی طرح اس لفظ کا استعمال قرآن واحادیث میں دیگر مختلف معانی کے لیئے بھی ہوا ہے ۔ چنانچہ درج ذیل سطورمیں اس لفظ کی صحیح تحقیق اوراس کا استعمال کس انداز اور کس کس معنی میں ہوا ہے پیش کیا جا رہا ہے ۔

’’مولا ‘‘کااطلاق اللہ تعالی پرقرآن کریم میں

(1) فانصرناأنت مولانا ۔ (البقرہ:۲۸۶)
(2) بل اللہ مولاکم ۔ (آل عمران ۱۵۰)
(3) فاعلموا أن اللہ مولاکم ۔ (انفال:۴۰)
(4) واعتصموا باللہ ھومولاکم فنعم المولی ونعم النصیر ۔ (الحج:۷۸)
(5) ذلک نأن اللہ مولی الذین اٰمنوا (محمد:۱۱)
(6) واللہ مولاکم ۔ (تحریم:۲)
(7) الاماکتب اللہ لنا ھومولانا ۔ (توبہ:۵)
(8) فان اللہ ھومولاہ وجبرئیل وصالح المؤمنین ۔ (تحریم:۴)
(9) ثم ردواالی اللہ مولھم الحق ۔ (انعام:۶۲)
(10) وردواالی اللہ مولھم الحق ۔ (یونس:۳۰)

’’مولا‘‘ کا اطلاق اللہ تعالی پر احادیث میں

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : قولوا اللہ مولانا ولا مولالکم (بخاری:۴۰۴۳) ، لوگو!تم کہوکہ اللہ ہمارامولی اورکاسازہے نہ کہ تمہارا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ولیقل .... سیدی ومولای ۔ (بخاری:۲۵۵۲)(مسلم:۲۲۴۹) کہ اسے چاہئے کہ وہ اللہ کے بارے میں میرا آقا اورمیرا مولی کہے ۔

’’مولا ‘‘ کا اطلاق اللہ تعالی کے علاوہ پرقرآن کریم میں::

لبئس المولی ۔ (حج:۱۳) 
امام مجاھد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : اس آیت میں مولی بت کے معنی میں ہے ۔ (تفسیرابن کثیر:۳؍۷۸۰،چشتی)

یوم یغنی مولی عن مولی شیئا ۔ (دخان:۴۱) 
علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں: أی لا ینفع قریب قریبا ۔ (تفسیرابن کثیر:۴؍۱۸۳)، کہ کوئی رشتہ دار کسی بھی رشتہ دار کو نفع نہیں پہنچائے گا اس جگہ رشتہ دار پر مولی کا اطلاق ہوا ہے ۔

مأوٰکم النارھی مولاکم ۔ (تحدید:۱۵) 
علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں: ھی مولاکم : ھی أولی بکم من کل منزل علی کفرکم وارتیابکم ۔ (تفسیرابن کثیر:۴؍۳۹۵) ، 
کہ مولاکم سے مراد تمہارے لئے ہرمنزل پر تمہارے کفر اور شک کی بناء پر جہنم بہتر ہے۔ اس جگہ مولی کااستعمال جہنم کے لئے ہوا ہے ۔

وکل علی مولاہ ۔ (نحل:۷۶) 
امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’ای غلیظ وثقیل علی مولاہ‘‘ ۔ (التفسیر الکبیر:۲۰؍۸۸) کہ وہ اپنے آقا پر بھاری اور بوجھ ہے ۔ اس جگہ مولی کا اطلاق مالک اور آقا پر ہوا ہے ۔

ولکل جعلنا موالی مماترک ۔ (نساء) 
اس آیت میں لفظ موالی کا اطلاق وارث پر ہوا ہے ۔ (تفسیرابن کثیر:۱؍۶۳۸)

انی خفت الموالی ۔ (مریم:۵) 
امام مجاھد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اراد بالمولی العصبۃ۔ (تفسیرابن کثیر:۳؍۱۵۰) کہ یہاں پر مولی کااطلاق ان رشتہ داروں پر ہوا ہے جن کو اصطلاح شرح میں عصبہ کہا جاتا ہے جنہیں میت کے ترکہ میں سے ذوی الفروض کو ان کا حصہ دینے کے بعد بچا ہوا مال دیا جاتا ہے ۔

فاخوانکم فی الدین وموالیکم ۔ (احزاب:۵) 
ای ’’أنا من اخوانکم فی الدین ‘‘ کہ میں تمہارا دینی بھائی ہوں ۔ اس آیت میں موالی بھائی کے میں استعمال ہوا ہے ۔

احادیث میں ’’مولانا ‘‘ کا اطلاق اللہ تعالی کے علاوہ پر::

وقال لزید: أنت أخونا ومولانا ۔ (بخاری:۲۶۹۹) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ زید تم ہمارے بھائی اور مولی ہو ۔

حافظ ابن حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: واما المولی فکثیرالتصرف فی الوجوہ المختلفۃ من ولی وناصر وغیرذلک ،ولکن لایقال السید ولا الموتی علی الاطلاق من غیراضافۃ الا فی صفۃ اللہ تعالی ۔۔۔ فکان اطلاق المولی أسھل وأقرب الی عدم الکراھۃ ۔ (فتح الباری:۶؍۹۸۶،چشتی)
ترجمہ : 
لفظ مولی کا اطلاق بہت سے معانی پر ہوتا ہے، مثلا ولی، ناصر، وغیرہ، لیکن لفظ مولی اور سید مطلقا بغیرکسی اضافت کے اللہ تعالی کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے، اور لفظ مولی کا اطلاق اللہ کے علاوہ پر کرنے میں کوئی کراہت نہیں ہے (اس لئے کہ جب سید کا اطلاق اللہ کے علاوہ پر ہو سکتا ہے جب کہ اس میں ایک ہی معنی [سردار] پائے جاتے ہیں تو مولی میں چوںکہ بہت سارے معنی پائے جاتے ہیں اس اعتبار سے اللہ کے علاوہ پر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے)

ماکنت مولاہ فعلی مولاہ ۔ (سنن ترمذی:۳۷۲۲) ، اس حدیث کامطلب یہ ہے کہ جس کا میں ذمہ دارہوں اس کا علی رضی اللہ عنہ بھی ذمہ دارہے یا جس سے میں محبت کرتا ہوں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس سے محبت کرتے ہیں ۔

علامہ جزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کہ حدیث پاک میں لفظ مولی کا تزکرہ بکثرت آیا ہے ، اور لفظ مولی ایک ایسا نام ہے جوبہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ رب ، مالک ، آقا ، احسان کرنے والا ، آزاد کرنے والا ، مدد کرنے والا ، محبت کرنے والا ، الغرض ہر وہ شخص جوکسی معاملہ کا ذمہ دار ہو اس پر مولی اور ولی کا اطلاق ہوتا ہے ۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ثلاثۃ علی کثبان المسک یوم القیامۃ،عبدادی حق اللہ وحق مولاہ ۔ (سنن ترمذی:۱۹۸۶) کہ قیامت کے دن تین لوگ مشک کے ٹیلوں پرہوگے ، وہ غلام جس نے اللہ تعالی کا حق ادا کیا اور اپنے آقا کا حق ادا کیا ۔ اس حدیث میں بھی مولی آقا اور سردار کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ولابأس بقول العبد لسیدہ :مولای،فان المولی وقع علی ستۃ عشر معنی ۔۔۔ منھاالناصروالمالک ۔ (شرح مسلم:۵؍۹۰۴،چشتی)
ترجمہ : غلام کے لئے اپنے آقا کومولا کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے اس لئے کہ لفظ مولی سولہ معنی میں استعمال ہوتا اس میں سے مالک اور ناصر بھی ہے ۔

مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ لفظ مولی کا اطلاق اللہ عزّ و جل کے علاوہ دیگرمعانی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔

’’مولٰنا‘‘ دولفظ سے مرکب ہے’’مولی‘‘ اور’’نا‘‘ عربی زبان میں مولی متعدد معنوں کے لئے آتا ہے،’’صاحب تاج العروس‘‘علامہ زبیدی رحمۃ اللہ علیہ نے مولی کے معانی تفصیل کے ساتھ لکھ کرتحریر فرمایا ہے کہ : فھذہ احد وعشرون معنی للمولی : واکثرھا قدجاء ت فی الحدیث ،فیضاف کل واحد الی مایقتضیہ الحدیث الواردفیہ ۔(تاج العروس:۱۰؍۳۹۹)
ترجمہ : یہ اکیس معنی لفظ مولی کے ہیں اوران میں اکثرمعانی حدیث میں آئے ہیں اس لئے جس حدیث میں لفظ مولی وارد ہواہے ، وہ حدیث جس معنی کی مقتضی ہوگی وہ مراد لئے جائیں گے ۔

قرآن وحدیث اور علماء امت کی تشریحات سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ لفظ’’ مولا‘‘ کا اطلاق اللہ عزّ و جل کے علاوہ دیگر معانی میں بھی درست ہے، بعض لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ لفظ مولا کا اطلاق اللہ تعالی کی ذات کے علاوہ کسی اور پر کرنا گویا اللہ تعالی کے ساتھ شرک اور اللہ تعالی کی ناقدری ہے،ان کایہ موقف قرآن وحدیث کے موقف کے خلاف ہے ، نیزان کی علمی کجی اور جہالت کی دلیل ہے ، اس لئے ان کے اس طرح کے موقف سے اتفاق کرنے سے احتیاط ضروری ہے ۔ 

۔ ۔ ۔
#shefro

Friday, May 31, 2019

یہ_بڑے_کرم_کے_ہیں_فیصلے "💎

خانہ کعبہ میں "صفائی ستھرائی کا کام" انجام دینے والے پاکستانی کو بہترین کارکردگی پیش کرنے پر "حجراسماعیل" میں نماز پڑھنے کی اجازت مل گئی!!

۔ ۔ ۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق مسجد حرام کی انتظامیہ نے صفائی ستھرائی کو یقینی بنانے میں بہترین کارکردگی پیش کرنے پر پاکستانی شہری کو انعامی رقم دینے کا فیصلہ کیا لیکن پاکستانی شخص نے انعامی رقم لینے سے انکار کر دیا۔ اُس شخص نے مسجد حرام کی انتظامیہ سے درخواست کی کہ اسے ان پیسوں کے بجائے حجر اسماعیل (حطیم،جو کعبے کے اندر ہے) میں نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر تیزی سے مقبول ہوتی تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے خانہ کعبہ کی انتظامیہ کی جانب سے حجر اسماعیل کو پاکستانی شہری کی درخواست پر خالی کروا کرخصوصی طور پر دروازے بند کئے گئے ہیں تاکہ وہ عبادت کر سکے۔

حطیم یا حجر اسماعیل کیا ہے ؟
حطیم یا حجر اسماعیل خانہ کعبہ کے شمال کی طرف ایک دیوار جس کے اوپر طواف کیا جاتا ہے۔ اس دیوار کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ خانہ کعبہ میں شامل تھی۔ حطیم شریف کی چوڑائی 30 اِنچ (90 سینٹی میٹر) ہے اور اونچائی 1.5 میٹر (4.9 فُٹ) ہے۔

حطیم سے متعلق حدیث:::
امام مسلم رحمتہ اللّہ تعالٰی نے عائشہ رضي اللّہ تعالٰی عنہا سے حدیث بیان فرمائی ہے کہ :​
"عائشہ رضي اللہ تعالٰی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حطیم کے بارے میں سوال کیا کہ کیا یہ بیت اللہ کا ہی حصہ ہے؟​
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا جی ہاں!، عائشہ رضي اللہ تعالٰی عنہا بیان کرتی ہیں میں نے پوچھا کہ اسے پھر بیت اللہ میں داخل کیوں نہیں کيا گيا؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب تھا کہ تیری قوم کے پاس خرچہ کے لیے رقم کم پڑ گئی تھی ۔​
میں نے کہا کہ بیت اللہ کا دروازہ اونچا کیوں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا تیری قوم نے اسے اونچا اس لیے کیا تا کہ وہ جسے چاہیں بیت اللہ میں داخل کریں اورجسے چاہیں داخل نہ ہونے دیں ۔​

اور اگرتیری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوتی اوران کے دل اس بات کوتسلیم سے انکارنہ کرتے تو میں اسے (حطیم ) کوبیت اللہ میں شامل کردیتا اوردروازہ زمین کے برابرکر دیتا"۔

۔ ۔ ۔
#shefro

Thursday, May 9, 2019

میسا_حراتی'' (MISAHARATI)

"سحری" جگانے والے !!
۔ ۔ ۔
سن 2 ہجری میں صوم (روزے) فرض ہونے کے بعد یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ اہل مدینہ کو سحری میں جگانے کے لیے کونسا طریقہ اختیار کیا جایے۔

تاریخ کے اوراق کی گرد کو اگر جھاڑ کر دیکھا جایے تو علم ہوتا ہے کہ ایک صحابی ''سیدنا بلال بن رباہ'' رضی اللہ عنہ وہ پہلے شخص تھے جو روزوں کی فرضیت کے بعد مدینہ کی گلیوں میں سحری کے وقت آوازیں لگا لگا روحانیت کا سماں باندھ دیتے تھے اور لوگوں کو سحری کے لیے جگایا کرتے تھے۔

''سیدنا بلال بن رباہ'' رضی اللہ عنہ کی یہ سنت مدینہ المنورہ میں زور پکڑتی گیی اور وقت گزرنے کے ساتھہ ساتھہ اور بہت سے دوسرے لوگ بھی یہ خدمت انجام دینے لگے۔

ان سحری جگانے والوں کے ساتھہ اکثر بچے بھی شوق میں شامل ہو جاتے اور رمضان کی سحری ایک خوشنما فیسٹول محسوس ہونے لگتی تھی - 

عربی میں سحری جگانے والوں کو ''میسا حراتی'' (MISAHARATI) کہتے ہیں۔

مدینہ المنوره کے بعد عرب کے دوسرے شہروں میں بھی سحری جگانے والے اس روایت کی پیروی کرنے لگے اور بھر یہ رواج پوری اسلامی دنیا میں پھیل گیا۔

''میسا حراتی'' (MISAHARATI) یہ فریضہ فی سبیل الله انجام دیا کرتے تھے۔ لیکن انکی خبمت سے مستفید ہونے والے مسلمان انہیں مایوس نہیں کرتے تھے اور آخری صوم (روزے) والے دن انہیں ہدیہ انعام یا عیدی دیتے تھے۔

اس کے علاوہ مسجدوں کے امام مسجدوں کی چھتوں یا میناروں پر لالٹین جلا کر رکھہ دیتے تھے, اور با آواز بلند لوگوں کو سحری کے وقت کی اطلاع دیتے تھے۔

جہاں آواز نہیں پہنچ پاتی تھی، لوگ روشن لالٹین دیکھ کر اندازہ لگا لیتے کہ سحری کا وقت ہو گیا ہے۔

آہ کیا خوبصورت اور روح پرور رمضان ہوا کرتے تھے۔

۔ ۔ ۔
#shefro