Translate

Showing posts with label #Quran. Show all posts
Showing posts with label #Quran. Show all posts

Thursday, August 1, 2019

"اصحاب_کہف"

طبی و ماحولیاتی معجزہ !
 ۔ ۔ ۔
سورۃ کہف میں قرآن پاک کے کئی معجزے مذکور ہیں، اسکی 2 آیات میں 2 طبی اور ماحولیاتی معجزات بیان کئے گئے ہیں۔

قرآن کریم میں اہل کہف کا قصہ قادر مطلق ذات کی عظمت و کبریائی کا روشن ثبوت ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ قصہ ظلم و ستم اور جبر وتشدد سے دوچار مسلمانوں کے حوصلے اور ہمت بلند کرنے کے لئے بیان کیا ۔ اصحاب کہف توحید کے قائل نوجوان تھے۔ وہ اپنے عہد کے حکمراں دقیا نوس کے ظالم سے عاجز آچکے تھے۔

ظالم معاشرے میں سانس لینے تک کے رواد ار نہیں رہے تھے۔ کفار کا غلبہ بے پناہ تھا۔ یہ نوجوان ظلم و ستم، تحقیر و تذلیل اور باطل کے آگے سر جھکانے سے بچنے کیلئے گھر بار اور اہل و عیال سب کو چھوڑ کر غار میں پناہ گیر ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر خاص رحمت نازل کی تھی۔ 

رب العالمین نے سورۃ کہف کی آیت نمبر 17 اور 18میں غار کے اندر انکے قیام کی منظر کشی یہ کہہ کر کی ہے۔ 
 ’’وَتَرَی الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ تَّزٰوَرُ عَنْ کَھْفِھِمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَاِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُھُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَھُمْ فِیْ فَجْوَۃٍ مِّنْہُ ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ مَنْ یَّھْدِ اللّٰہُ فَھُوَ الْمُھْتَدِ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا ( 17) وَتَحْسَبُھُمْ اَیْقَاظًا وَّھُمْ رُقُوْد’‘ وَّنُقَلِّبُھُمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَذَاتَ الشِّمَالِ وَکَلْبُھُمْ بَاسِط’‘ ذِرَاعَیْہِ بِالْوَصِیْدِ لَوِا طَّلَعْتَ عَلَیْھِمْ لَوَلَّیْتَ مِنْھُمْ فِرَارًا وَّلَمُلِئْتَ مِنْھُمْ رُعْبًا ( 18)‘‘ 
’’تم انہیں غار میں دیکھتے تو تمہیں یوں نظر آتا کہ سورج جب نکلتا ہے تو ان کے غار کو چھوڑ کر دائیں جانب چڑھ جاتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو ان سے بچ کر بائیں جانب اتر جاتا ہے اور وہ ہیں کہ غارکے اندرایک وسیع جگہ میں پڑے ہیں۔

یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ بھٹکا دے اس کے لئے تم کوئی ولی مرشد نہیں پاسکتے۔ تم انہیں دیکھ کر یہ سمجھتے کہ وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ سو رہے تھے۔ ہم انہیں دائیں بائیں کروٹ دلواتے رہتے تھے اورانکا کتا غار کے دہانے پر ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔ اگر تم کہیں جھانک کر دیکھتے تو الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے اور تم پر انکے نظارے سے دہشت بیٹھ جاتی‘‘۔

حافظ ابن کثیر ؒ اللہ تعالیٰ کے کلام ’’وَتَحْسَبُھُمْ اَیْقَاظًا وَّھُمْ رُقُوْد’‘ ‘ ’’ تم انہیں دیکھ کر یہ سمجھتے کہ وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ سو رہے تھے‘‘ ۔ اسکی تفسیر میں بتاتے ہیں کہ بعض علماء کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف پر نیند طاری کردی تو پھر کئی سال تک ان کے کانوں پر پردہ ڈالے رکھا۔ انکی آنکھیں بند نہیں کی تھیں تاکہ کوئی موذی ان کی طرف جلدی سے نہ لپکے۔ ان کی آنکھ کا کھلا رہنا انکے لئے زیادہ بہتر تھا۔ بھیڑیئے کے بارے میں آتا ہے کہ وہ سوتا ہے تو ایک آنکھ کھلی رکھتا ہے ۔ دوسری بند کرلیتا ہے پھر ایک کھولتا ہے اور دوسری بند کرلیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کے قصے میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ: ’’وَّنُقَلِّبُھُمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَذَاتَ الشِّمَالِ‘‘ ’’ اللہ انہیں دائیں بائیں کروٹ دلواتا رہتا تھا‘‘۔ اللہ تعالیٰ سال میں دو مرتبہ انہیں کروٹ دلاتا تھا۔ ابن کثیر نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ: ’’اگر اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ نہ دلاتا تو زمین انہیں چٹ کرجاتی‘‘۔ (ابن کثیر، تفسیرالقرآن العظیم جلد 3، صفحہ2)۔ 

یہاں صحابی رسول حضرت ابن عباس ؓ کا یہ قول تدبر کا متقاضی ہے کہ اگر اصحاب کہف کو دائیں بائیں کروٹ نہ دلوائی جاتی ہوتی تو زمین انہیں چٹ کرجاتی۔ سیدنا ابن عباس ؓ نے یہ کہہ کر جدید سائنسی حقیقت بیان کی ہے۔ اطباء کہتے ہیں کہ جو مریض چلنے پھرنے کے قابل نہ ہوں یا اپنے بستر سے اٹھنے کی سکت نہ رکھتے ہو ں ایسے مریضوں کو وقتاً فوقتاً کروٹ دلواتے رہنا چاہئے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو دوسری صورت میں ان کے جسم میں زخم پیدا ہوجائیں گے ۔ انہیں بیڈ سور (bad-sore) کہا جاتا ہے۔ جسم اور ٹانگوں کے نچلے حصوں پر خون کا لوتھڑا بن جاتا ہے۔ لہذا اس تکلیف سے انہیں بچانے کیلئے وقتاً فوقتاً کروٹ دینا ضروری ہوتا ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اصحاب کہف کو سال میں 2 مرتبہ دائیں بائیں کروٹ دینے کا انتظام کر کے زمین کا حصہ بن جانے سے تحفظ فراہم کیا۔ اطباء بتاتے ہیںاور مشاہدات بھی یہی ہیں کہ جن مریضوں کو طویل مدت تک بستر پر لیٹتے ہوئے کروٹ نہیں دی جاتی ان کے جسم میں مختلف زخم پیدا ہوجاتے ہیں۔ آخر میں چل کر یہ زخم مہلک بیماری کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اصحاب کہف کے اس واقعہ میں ماحولیاتی معجزہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ 

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کا تذکرہ یہ کہہ کر کیا ہے۔ ’’وَتَرَی الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ تَّزٰوَرُ عَنْ کَھْفِھِمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَاِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُھُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَھُمْ فِیْ فَجْوَۃٍ مِّنْہُ‘‘۔ ’’تم انہیں غار میں دیکھتے تو تمہیں یوں نظر آتا کہ سورج جب نکلتا ہے تو ان کے غار کو چھوڑ کر دائیں جانب چڑھ جاتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو ان سے بچ کر بائیں جانب اتر جاتا ہے اور وہ ہیں کہ غارکے اندرایک وسیع جگہ میں پڑے ہیں‘‘۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ غار کا دروازہ بائیں جانب تھا کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بتایا ہے کہ جب سورج نکلتا تو انکے غار کو چھوڑ کر دائیں جانب چڑھ جاتا۔

حضرت ابن عباسؓ، سعید بن جبیرؒ اور قتادہؒ بتاتے ہیں کہ قرآن پاک کی اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جب سورج افق پر چڑھتا تو اس کی کرنیں اوپر جانے کی وجہ سے ہلکی ہوجاتیں اور اسکی تیزی زوال کے وقت باقی نہ رہتی۔ آگے چل کر پھر یہ بیان کیا گیا ہے کہ اور جب سورج غروب ہوتا تو غار کے شمالی جانب سے نکل کر چلا جاتا۔ اس طرح سورج کی شعاعوں سے اصحاب کہف محفوظ رہتے۔ وہ ہمیشہ سائے میں رہتے اور ٹھنڈی مناسب ہوا انکے غار میں آتی جاتی رہتی تھی۔ اگر غار کا محل وقوع اس انداز کا نہ ہوتا تو سورج کی شعاعیں اصحاب کہف کو جلا دیتیں۔

قرآن پاک کے اس مضمون سے 2 باتیں معلوم ہوتی ہیں: 
ھ1۔ طویل مدت تک بستر پر لیٹنے والے مریضوں کو زخموں اور اذیت ناک پھوڑوں سے بچانے کیلئے الٹتے پلٹتے اور دائیں بائیں کروٹ دینے کا انتظام ناگزیر ہے۔ ایسا نہ کرنے پر مریضوں کی کمر اور جسم کے مختلف حصوں میں زخم پیدا ہوسکتے ہیں۔ 
ہ2۔ انسانوں خصوصاًمریضوں کو طویل مدت تک کسی جگہ قیام کرنے کے لئے سورج کی شعاعوں سے بچنا اور ہوادار جگہ کا انتخاب لازمی ہوتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کا اختتام یہ کہہ کر کیا ہے۔ ’’ذلک من آیت اللہ ‘‘ ’’یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے‘‘۔ 

اصحاب کہف کا واقعہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی اس طرح ہے کہ رب العالمین نے ہی انہیں ایسے غار میں پناہ لینے کا الہام کیا تھا جہاں وہ برسہا برس زندہ رہ سکتے تھے۔ 

جہاں سورج سے بچاؤ کا طبعی نظام موجود تھا اور جہاں انکے جسم کو تروتازہ رکھنے والی ہوا کی آمد و رفت کا پورا اہتمام تھا۔ آگے چل کر اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ: ’’من یھد اللہ فھو المھتد‘‘ ’’جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے۔‘‘ اسکا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہی تھا جس نے ا صحاب کہف والے نوجوانوں کو توحید کی ہدایت دی تھی اور وہی تھا جس نے انہیں اپنا دین، اپنی آبرو اور اپنی جان بچانے کیلئے غار میں پناہ لینے اور مناسب ترین غار کے انتخاب کی رہنمائی کی تھی۔ 

اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کرتا ہے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ ہدایت کا کلمہ قرآن پاک میں بہت سارے مقامات پر آیا ہے۔ مثال کے طور پر سورہ محمد کی آیت نمبر 17میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
’’والذین اھتدوا زادھم ھدی واتاھم تقواھم‘‘ ’’
وہ لوگ جنہیں ہدایت ملی اللہ نے ا نہیں مزید ہدایت سے نوازا اور انہیں خدا ترسی کی نعمت سے نوازا‘‘۔ اللہ تعالیٰ سورہ مریم کی آیت نمبر 76 میں ارشاد فرماتا ہے کہ: 
’’ویزید اللہ الذین اھتدوا ھدی والباقیات الصالحات خیر عند ربک ثواباً و خیر مرداً‘‘
  ’’اور ہدایت یافتہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت میں برکت دیتا ہے اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک ثواب کے لحاظ سے اور انجام کے اعتبار سے بہت ہی بہتر ہیں‘‘۔ 

 قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا وہ کلام ہے جسے جبریل امین رب العالمین کی طرف سے آسمان سے لیکر اترے تھے ۔ اسکی عبارتیں اس کے الفاظ اور اسکی ترتیب سب کچھ جبریل امین سید الانبیاء محمد مصطفی ﷺ کے پاس لیکر پہنچے تھے۔ قرآن آخری آسمانی کتاب ہے یہ عظیم معجزہ ہے یہ قیامت تک بندگان خدا کے لئے رب العالمین کی انمول نعمت ہے دینی و دنیاوی امور اور ہر زمان و مکان میں انکی ہدایت کیلئے سب سے عظیم رہنما دستاویز یہی ہے۔ 

اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’مافرطنا فی الکتاب من شیء‘‘ ’’ہم نے قرآن کریم میں کسی بھی طرح افراط سے کام نہیں لیا۔ ‘‘ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی اور روشنی دینے والی کتاب ہے۔ یہ ذکر حکیم ہے۔ یہ صراط مستقیم بتانے والی کتاب ہے۔ اس پر عمل کرنے والے فکری، نظریاتی اور عملی اعتبار سے منحرف نہیں ہوتے۔ قرآن پاک ہر طرح کی ٹیڑھ، ہر قسم کی خامی اور ہر انداز کی غلطی سے پاک و صاف ہے۔

یہ وہ کتاب ہے جسے سن کر جنات کہہ اٹھے تھے کہ ہم نے عجیب و غریب کلام سنا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم قرآن پاک کی تلاوت کرکے سکون محسوس کرتے اور روشنی حاصل کرتے تھے صحابہ قرآن پاک کو روحانی غذا بنائے ہوئے تھے۔ وہ اس کے احکام اپنے اوپر نافذ کرتے اس کی مقرر کردہ حدوں کی پابندی کیا کرتے۔ ایسا کرنے کی وجہ سے اللہ رب العزت کے فضل و کرم کی بدولت وہ پوری دنیا کے حکمراں بن گئے تھے۔ 

صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے نہ صرف یہ کہ قرآن کریم من و عن اپنے بعد آنے والے لوگوں کے حوالے کیا انہوں نے قرآن پاک کی ا یک ، ایک آیت کو قابل عمل ہونے کے نظائر بھی آنے والی نسل کے سپرد کئے۔ اگر عصر حاضر کے مسلمان ایک بار پھر عظمت رفتہ بازیاب کرنے کے آرزو مند ہیں ،اگر ہمارے دور کے مسلمان ایک بار پھر آفات و مصائب کے دلدل سے نکل کر عروج کی بلندیاں سر کرنا چاہتے ہیں تو انہیں قرآن پاک پر عمل کرنا ہوگا۔ 

جو لوگ بھی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی طرح قرآن پاک کی صداقت اور حقانیت کو اپنے عقیدے کا اٹوٹ حصہ بنائیں گے اور قرآنی آیات پر عمل کو اپنی زندگی کی پہچان و شناخت بنائیں گے وہ کامیاب ہونگے، سرخرو ہونگے، عروج کی اس منزل پر سرفراز ہونگے جسکا انہوں نے تصور تک نہ کیا ہو گا۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں قرآن پاک سیکھنے اور سکھانے اور اس میں غور و تدبر کرنے کی ہدایت کی ہے۔

رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ’’تم میں بہتر لوگ وہ ہیں جو قرآن پاک سیکھیں اور سکھائیں‘‘ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ جس نے قرآن پاک کی ایک آیت سنی اس کے لئے دگنا اجر لکھ دیا جائیگا اور جو اسکی تلاوت کرے۔ قرآن اسکے لئے قیامت کے روز روشنی کا باعث بنے گا۔

۔ ۔ ۔
#shefro

Thursday, June 6, 2019

لفظ_مولا "صحیح معنیٰ و مفہوم !!

مولیٰ ايک مستقل لفظ ہے جس کی جمع ”موالی“ ہے، جس کے تقريباً 20 معانی ہيں، جن ميں سے چند معانی یہ ہيں : 
آقا، مالک، پرورش کرنے والا، دوست، آزاد کرنے والا، آزاد کيا ہوا غلام اور مہربان ۔

قرآن کريم ميں بھی مولیٰ کا لفظ مختلف معانی ميں استعمال ہوا ہے۔ صرف مولیٰ کا لفظ تنہا بھی استعمال ہوا اور متعدد ضميروں کے ساتھ بھی يہ لفظ استعمال ہوا ہے۔

فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌo (سورہ تحريم 66 : 4)
ترجمہ : 
سو بے شک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے ، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مدد گار ہیں ۔

اسی طرح سورة الحج، آيت 78 ميں 2 جگہ مولیٰ کا لفظ استعمال ہوا ہے، ايک جگہ ”کُم“ ضمير کے ساتھ جبکہ دوسری مرتبہ بغير ضمير کے اور دونوں جگہوں پر اللہ کی ذات مراد ہے۔ 
قرآن کريم ميں مولیٰ کا لفظ دوسرے معانی ميں بھی استعمال ہوا ہے۔ 

سورة الدخان آيت 41 میں ہے: 
”جس دن کوئی حمايتی کسی حمايتی کے ذرا بھی کام نہيں آئے گا اور ان ميں سے کسی کی کوئی مدد نہيں کی جائے گی۔ اس ميں مولیٰ” اللہ“ کے لئے نہيں بلکہ دوست کے معنیٰ ميں يعنی انسان کے لئے استعمال ہوا ہے۔ 

اسی طرح سورة الحديد، آيت15 میں ہے : 
”چنانچہ آج نہ تم سے کوئی فديہ قبول کيا جائے گا اور نہ اُن لوگوں سے جنہوں نے کفر اختيار کيا تھا، تمہارا ٹھکانا دوزخ ہے ، وہی تمہاری رکھوالی ہے اور يہ بہت برا انجام ہے ۔ 
اس ميں لفظ مولیٰ ”کُم“ ضمير کے ساتھ جگہ يا ٹھکانے کے لئے استعمال ہوا ہے۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کريم ميں يہ واضح کر ديا کہ مولیٰ کے متعدد معانی ہيں۔ 

قرآن کريم ميں لفظ مولیٰ ”نا“ ضمير کے ساتھ 2 جگہ سورة ا لبقرة آيت286 اور سورہ التوبہ آيت51 میں استعمال ہوا ہے اور دونوں جگہ پر اللہ کی ذات مراد ہے يعنی ليکن اس کا مطلب ہرگز يہ نہيں کہ مولانا ايک لفظ ہے اور وہ صرف اللہ کے ساتھ خاص ہے۔ مولیٰ ايک مستقل لفظ ہے اور اس کے ساتھ مختلف ضميريں استعمال کی جا سکتی ہيں: مولائی، مولانا، مولاکم، مولاہ وغيرہ ۔

مفسّرِین کے نزدیک ’’مولیٰ ‘‘ کے معنیٰ::::
وہ تفاسیر جن میں مولا کے معنیٰ مددگار لکھے ہیں : اِس آیتِ مبارکہ میں وارِد لفظ’’ مولیٰ ‘‘کے معنیٰ وَلی اور ناصِر ( یعنی مدد گار) لکھے ہیں ۔ 
(تفسیرطَبَری جلد 12صفحہ154)
(تفسیرقُرطُبی جلد 18 صفحہ 143)
(تفسیرِکبیرجلد 10 صفحہ 570)
(تفسیرِبَغْوی جلد 4صفحہ337)
(تفسیرِ خازِن جلد 4صفحہ286)
(تفسیرِ نَسفی صفحہ1257)

اُن چار کتابوں کے نام بھی حاضِر ہیں جن میں آیتِ مبارَکہ کے لفظ ’’مولیٰ‘‘ کے معنیٰ ’’ناصر‘‘(یعنی مددگار) کئے گئے ہیں ۔ 
(تفسیر ِجلالین صفحہ465)
(تفسیرِ رُوحُ الْمَعانی جلد 28 صفحہ481)
(تفسیرِ بیضاوی جلد 5صفحہ 356)
(تفسیر ابی سُعُود جلد 5 صفحہ 738)

النھایہ میں لفظ مولا کے مختلف معانی بیان کیئے گئے ہیں::
(1)رب (پرورش کرنیوالا
(2)مالک۔ سردار
(3)انعام کرنیوالا
(4)آزاد کرنیوالا
(5)مدد گار
(6)محبت کرنیوالا
(7)تابع (پیروی کرنے والا)
(8)پڑوسی
(9)ابن العم (چچا زاد)
(10)حلیف(دوستی کا معاہدہ کرنیوالا )
(11)عقید (معاہدہ کرنے والا )
(12)صھر (داماد، سسر)
(13)غلام
(14)آزاد شدہ غلام
(15)جس پر انعام ہوا
(16)جو کسی چیز کا مختار ہو ۔ کسی کام کا ذمہ دار ہو۔ اسے مولا اور ولی کہا جاتا ہے ۔
(17)جس کے ہاتھ پر کوئی اسلام قبول کرے وہ اس کا مولا ہے یعنی اس کا وارث ہو گا وغیرہ ۔ 
(ابن اثير، النهايه، 5 : 228)

حکیم الامت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے الفاظ ’’جس کا میں مولیٰ ہوں علی بھی اُس کے مولیٰ ہیں ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں : مولیٰ کے بَہُت (سے) معنٰی ہیں : دوست، مددگار، آزاد شُدہ غلام،(غلام کو) آزاد کرنے والا مولیٰ۔اِس (حدیثِ پاک میں مولیٰ) کے معنٰی خلیفہ یا بادشاہ نہیں یہاں (مولیٰ) بمعنی دوست (اور) محبوب ہے یا بمعنی مددگار اور واقِعی حضرتِ سیِّدُنا علیُّ الْمُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم مسلمانوں کے دوست بھی ہیں، مددگار بھی، اِس لئے آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو ’’مولیٰ علی‘‘ کہتے ہیں۔
(مراٰۃ المناجیح ج۸ص۴۲۵،)

مولىٰ کا صحیح مطلب:::
علم اللغة والنحو والأدب والانساب کے امام محمد بن زیاد ابن الاعرابی ابو عبدالله الہاشمی رح (١٥٠-٢٣١ ہجری) فرماتے ہیں :"چچازاد، آزاد کرنے والے ، آزاد ہونے والے ، کاروباری ساجھی، معاہدہ کرنے والے ، محبت کرنے والے، با اثر اور دوست سب کو ((مولىٰ)) کہتے ہیں. نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے : ((من كنت مولاه فعلي مولاه))
ترجمہ : 
جس کا میں دوست ہوں اس کا علی رضی اللہ عنہ بھی دوست ہے. یعنی جو مجھ سے محبت رکھتا ہے ، وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی محبت رکھے ، ثعلب کہتے ہیں : 
رافضیوں کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ پوری مخلوق کے مولا یعنی مالک ہیں، اس معاملہ میں رافضی لوگ کفر کے مرتکب ہوئے ہیں، یہ بات تو عقلی اعتبار سے بھی غلط ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خرید و فروخت کرتے تھے، جب تمام چیزیں ان کی ملکیت تھیں تو خرید و فروخت کیسی ؟؟؟ 
مذکورہ حدیث میں لفظ مولا، محبت اور دوستی کے باب سے ہیں ۔ 
(تاریخ دمشق، لامام ابن عساکر : ٤٢/٢٣٨، وسندہ صحیح)

لفظ مولا یا لفظ مولانا کا اطلاق جس طرح باری تعالی پر ہوا ہے ، اسی طرح اس لفظ کا استعمال قرآن واحادیث میں دیگر مختلف معانی کے لیئے بھی ہوا ہے ۔ چنانچہ درج ذیل سطورمیں اس لفظ کی صحیح تحقیق اوراس کا استعمال کس انداز اور کس کس معنی میں ہوا ہے پیش کیا جا رہا ہے ۔

’’مولا ‘‘کااطلاق اللہ تعالی پرقرآن کریم میں

(1) فانصرناأنت مولانا ۔ (البقرہ:۲۸۶)
(2) بل اللہ مولاکم ۔ (آل عمران ۱۵۰)
(3) فاعلموا أن اللہ مولاکم ۔ (انفال:۴۰)
(4) واعتصموا باللہ ھومولاکم فنعم المولی ونعم النصیر ۔ (الحج:۷۸)
(5) ذلک نأن اللہ مولی الذین اٰمنوا (محمد:۱۱)
(6) واللہ مولاکم ۔ (تحریم:۲)
(7) الاماکتب اللہ لنا ھومولانا ۔ (توبہ:۵)
(8) فان اللہ ھومولاہ وجبرئیل وصالح المؤمنین ۔ (تحریم:۴)
(9) ثم ردواالی اللہ مولھم الحق ۔ (انعام:۶۲)
(10) وردواالی اللہ مولھم الحق ۔ (یونس:۳۰)

’’مولا‘‘ کا اطلاق اللہ تعالی پر احادیث میں

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : قولوا اللہ مولانا ولا مولالکم (بخاری:۴۰۴۳) ، لوگو!تم کہوکہ اللہ ہمارامولی اورکاسازہے نہ کہ تمہارا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ولیقل .... سیدی ومولای ۔ (بخاری:۲۵۵۲)(مسلم:۲۲۴۹) کہ اسے چاہئے کہ وہ اللہ کے بارے میں میرا آقا اورمیرا مولی کہے ۔

’’مولا ‘‘ کا اطلاق اللہ تعالی کے علاوہ پرقرآن کریم میں::

لبئس المولی ۔ (حج:۱۳) 
امام مجاھد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : اس آیت میں مولی بت کے معنی میں ہے ۔ (تفسیرابن کثیر:۳؍۷۸۰،چشتی)

یوم یغنی مولی عن مولی شیئا ۔ (دخان:۴۱) 
علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں: أی لا ینفع قریب قریبا ۔ (تفسیرابن کثیر:۴؍۱۸۳)، کہ کوئی رشتہ دار کسی بھی رشتہ دار کو نفع نہیں پہنچائے گا اس جگہ رشتہ دار پر مولی کا اطلاق ہوا ہے ۔

مأوٰکم النارھی مولاکم ۔ (تحدید:۱۵) 
علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں: ھی مولاکم : ھی أولی بکم من کل منزل علی کفرکم وارتیابکم ۔ (تفسیرابن کثیر:۴؍۳۹۵) ، 
کہ مولاکم سے مراد تمہارے لئے ہرمنزل پر تمہارے کفر اور شک کی بناء پر جہنم بہتر ہے۔ اس جگہ مولی کااستعمال جہنم کے لئے ہوا ہے ۔

وکل علی مولاہ ۔ (نحل:۷۶) 
امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’ای غلیظ وثقیل علی مولاہ‘‘ ۔ (التفسیر الکبیر:۲۰؍۸۸) کہ وہ اپنے آقا پر بھاری اور بوجھ ہے ۔ اس جگہ مولی کا اطلاق مالک اور آقا پر ہوا ہے ۔

ولکل جعلنا موالی مماترک ۔ (نساء) 
اس آیت میں لفظ موالی کا اطلاق وارث پر ہوا ہے ۔ (تفسیرابن کثیر:۱؍۶۳۸)

انی خفت الموالی ۔ (مریم:۵) 
امام مجاھد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اراد بالمولی العصبۃ۔ (تفسیرابن کثیر:۳؍۱۵۰) کہ یہاں پر مولی کااطلاق ان رشتہ داروں پر ہوا ہے جن کو اصطلاح شرح میں عصبہ کہا جاتا ہے جنہیں میت کے ترکہ میں سے ذوی الفروض کو ان کا حصہ دینے کے بعد بچا ہوا مال دیا جاتا ہے ۔

فاخوانکم فی الدین وموالیکم ۔ (احزاب:۵) 
ای ’’أنا من اخوانکم فی الدین ‘‘ کہ میں تمہارا دینی بھائی ہوں ۔ اس آیت میں موالی بھائی کے میں استعمال ہوا ہے ۔

احادیث میں ’’مولانا ‘‘ کا اطلاق اللہ تعالی کے علاوہ پر::

وقال لزید: أنت أخونا ومولانا ۔ (بخاری:۲۶۹۹) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ زید تم ہمارے بھائی اور مولی ہو ۔

حافظ ابن حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: واما المولی فکثیرالتصرف فی الوجوہ المختلفۃ من ولی وناصر وغیرذلک ،ولکن لایقال السید ولا الموتی علی الاطلاق من غیراضافۃ الا فی صفۃ اللہ تعالی ۔۔۔ فکان اطلاق المولی أسھل وأقرب الی عدم الکراھۃ ۔ (فتح الباری:۶؍۹۸۶،چشتی)
ترجمہ : 
لفظ مولی کا اطلاق بہت سے معانی پر ہوتا ہے، مثلا ولی، ناصر، وغیرہ، لیکن لفظ مولی اور سید مطلقا بغیرکسی اضافت کے اللہ تعالی کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے، اور لفظ مولی کا اطلاق اللہ کے علاوہ پر کرنے میں کوئی کراہت نہیں ہے (اس لئے کہ جب سید کا اطلاق اللہ کے علاوہ پر ہو سکتا ہے جب کہ اس میں ایک ہی معنی [سردار] پائے جاتے ہیں تو مولی میں چوںکہ بہت سارے معنی پائے جاتے ہیں اس اعتبار سے اللہ کے علاوہ پر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے)

ماکنت مولاہ فعلی مولاہ ۔ (سنن ترمذی:۳۷۲۲) ، اس حدیث کامطلب یہ ہے کہ جس کا میں ذمہ دارہوں اس کا علی رضی اللہ عنہ بھی ذمہ دارہے یا جس سے میں محبت کرتا ہوں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس سے محبت کرتے ہیں ۔

علامہ جزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کہ حدیث پاک میں لفظ مولی کا تزکرہ بکثرت آیا ہے ، اور لفظ مولی ایک ایسا نام ہے جوبہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ رب ، مالک ، آقا ، احسان کرنے والا ، آزاد کرنے والا ، مدد کرنے والا ، محبت کرنے والا ، الغرض ہر وہ شخص جوکسی معاملہ کا ذمہ دار ہو اس پر مولی اور ولی کا اطلاق ہوتا ہے ۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ثلاثۃ علی کثبان المسک یوم القیامۃ،عبدادی حق اللہ وحق مولاہ ۔ (سنن ترمذی:۱۹۸۶) کہ قیامت کے دن تین لوگ مشک کے ٹیلوں پرہوگے ، وہ غلام جس نے اللہ تعالی کا حق ادا کیا اور اپنے آقا کا حق ادا کیا ۔ اس حدیث میں بھی مولی آقا اور سردار کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ولابأس بقول العبد لسیدہ :مولای،فان المولی وقع علی ستۃ عشر معنی ۔۔۔ منھاالناصروالمالک ۔ (شرح مسلم:۵؍۹۰۴،چشتی)
ترجمہ : غلام کے لئے اپنے آقا کومولا کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے اس لئے کہ لفظ مولی سولہ معنی میں استعمال ہوتا اس میں سے مالک اور ناصر بھی ہے ۔

مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ لفظ مولی کا اطلاق اللہ عزّ و جل کے علاوہ دیگرمعانی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔

’’مولٰنا‘‘ دولفظ سے مرکب ہے’’مولی‘‘ اور’’نا‘‘ عربی زبان میں مولی متعدد معنوں کے لئے آتا ہے،’’صاحب تاج العروس‘‘علامہ زبیدی رحمۃ اللہ علیہ نے مولی کے معانی تفصیل کے ساتھ لکھ کرتحریر فرمایا ہے کہ : فھذہ احد وعشرون معنی للمولی : واکثرھا قدجاء ت فی الحدیث ،فیضاف کل واحد الی مایقتضیہ الحدیث الواردفیہ ۔(تاج العروس:۱۰؍۳۹۹)
ترجمہ : یہ اکیس معنی لفظ مولی کے ہیں اوران میں اکثرمعانی حدیث میں آئے ہیں اس لئے جس حدیث میں لفظ مولی وارد ہواہے ، وہ حدیث جس معنی کی مقتضی ہوگی وہ مراد لئے جائیں گے ۔

قرآن وحدیث اور علماء امت کی تشریحات سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ لفظ’’ مولا‘‘ کا اطلاق اللہ عزّ و جل کے علاوہ دیگر معانی میں بھی درست ہے، بعض لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ لفظ مولا کا اطلاق اللہ تعالی کی ذات کے علاوہ کسی اور پر کرنا گویا اللہ تعالی کے ساتھ شرک اور اللہ تعالی کی ناقدری ہے،ان کایہ موقف قرآن وحدیث کے موقف کے خلاف ہے ، نیزان کی علمی کجی اور جہالت کی دلیل ہے ، اس لئے ان کے اس طرح کے موقف سے اتفاق کرنے سے احتیاط ضروری ہے ۔ 

۔ ۔ ۔
#shefro

Saturday, June 1, 2019

پہاڑ_اور_قرآن "🌋

پہاڑوں کا زمین کی سطح پر میخوں کی طرح گڑے ہونا!! 

قرآن اور جدید سائنس کی روشنی میں ایک حیرت انگیز تحقیق ..!!

۔ ۔ ۔
ابھی حال ہی میں ماہرین ارضیات نے دریافت کیا ہے کہ زمین پر موجود پہاڑوں کی ایک خاص اہمیت ہے اور یہ زمین کی سطح میں بالکل میخوں یعنی کیلوں کی طرح گھڑے ہوئے ہیں۔ 
جدید ماہرین ارضیات ہمیں بتاتے ہیں کہ زمین کا نصف قطر 6,378 کلو میٹر ہے۔ زمین کی سب سے باہری سطح ٹھنڈی ہے لیکن اندرونی پرتین ا نتہائی گرم اور پگھلی ہوئی حالت میں ہیں۔ جہاں زندگی کا کوئی امکان موجود نہیں اور یہ کہ زمین کی سب سے بیرونی پرت جس پر ہم آباد ہیں ،نسبتاً انتہائی باریک ہے۔

مختلف جگہوں پر اس کی موٹائی1 سے 70 کلومیٹر تک ہے چنانچہ یہ ممکن تھا کہ زمین کی یہ پرت یا تہہ (Crust) اپنے اوپر بوجھ کی وجہ سے کسی بھی وقت ڈگمگا جاتی۔ جسکی ایک وجہ''بل پڑنے کا عمل'' ہے جس کے نتیجے میں پہاڑ بنتے ہیں اور زمین کی سطح کو استحکام ملتا ہے۔ لہٰذا اسی وجہ سے اس پر پہاڑوں کو میخوں کی طرح بنا دیا گیا تاکہ زمین کاتوازن برقرار رہے اور یہ اپنی جگہ سے لڑھک نہ جائے 'قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کابار ہا مرتبہ تذکرہ فرمایا ہے۔ 
مثلاً...

(اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِھٰدًا ۔ وَّالْجِبَالَ اَوْتَادًا)
'' کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا اور پہاڑوں کو میخیں ''  ( النبا، 78: 6-7)

قرآن یہ نہیں کہتا کہ پہاڑوں کو میخوں کی طرح زمین میں اوپر سے گاڑا گیا ہے بلکہ یہ کہ پہاڑوں کو میخوں کی طرح بنایا گیا ہے۔ "اوتادا"ً کا مطلب خیمے گاڑنے والی میخیں ہی ہوتا ہے ۔آج جدید ارضیات بھی اس بات کی تائید کرتی ہے کہ پہاڑوں کی جڑیں زمین میں گہرائی تک ہوتی ہیں ۔یہ بات انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں سامنے آئی تھی کہ پہاڑ کا بیش تر حصہ زمین کے اندر ہوتا ہے اور صرف تھوڑا سا حصہ ہمیں نظر آتا ہے ،بالکل اسی طرح جیسے زمین میں گڑی ہوئی میخ کا بیش تر حصہ ہماری نظروں سے اوجھل ہوتا ہے یا جس طرح ''آئس برگ'' کی صرف چوٹی ہمیں نظر آتی ہے جبکہ نوے فیصد حصہ پانی کے اندر ہوتا ہے ۔(1)

مفسرین کرام کے مطابق جب زمین پیداکی گئی تو ابتداً لرزتی تھی ،ڈولتی تھی ،جھولتی تھی اور ادھر ادھر ہچکولے کھاتی تھی۔ایسی صورت میں انسان کا اس پر زندہ رہنا ممکن نہ تھا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی پشت پر جابجا پہاڑوں کے طویل سلسلے میخوں کی طرح بنا دیے اور انہیں اس تناسب سے جابجا مقامات پر پیدا کیا جس سے زمین پر لرزش اور جھول بند ہو گئی اور وہ اس قابل بنا دی گئی کہ انسان اس پر اطمینان سے چل پھر سکے۔ اس پر مکانات وغیرہ تعمیر کر سکے اور سکون سے پوری زندگی بسر کر سکے۔

دوسرے مقام پرارشاد باری تعالیٰ ہے :

(وَجَعَلْنَا فَی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بَھِمْ ص وَجَعَلْنَا فَیْھَا فِجَاجًا سُبُلًا  لَّعَلَّھُمْ یَھْتَدُوْنَ)
''اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈُھلک نہ جائے اور اس میں کشادہ راہیں بنا دیں 'شاید کہ لوگ اپنا راستہ معلوم کر لیں''  (الانبیاء،21:31)

پروفیسر سیاویدا (Professor Siaveda) جاپان کے نہ صرف ایک عظیم اسکالر بلکہ سائنسدان اور بحری ماہر ارضیات (Marine Geologist) ہیں۔ پروفیسر سیاویدا سے جب پہاڑوں کے متعلق سوالات کیے گئے تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا:

''براعظمی پہاڑوں اورسمندری پہاڑوں کے درمیان فرق ان کے طبع (مواد) کا ہے۔ براعظمی پہاڑ بنیادی طورپر رسوب (Sediments) سے بنے ہوئے ہیں جب کہ سمندری پہاڑ آتش فشانی چٹانوں (Volcanic Rocks) سے بنے ہوئے ہیں۔ براعظمی پہاڑ انضباطی دباؤ (Compressional Forces) کے تحت تشکیل پاتے ہیں۔ جبکہ سمندری پہاڑ توسیع دباؤ (Extensional Forcess)کے تحت تشکیل پاتے ہیں۔ لیکن دونوں اقسام کے پہاڑوں میں  مشترکہ نصب نما (Denominator) یہ ہے کہ دونوں کی جڑیں ہوتی ہیں جو کہ پہاڑوں کو سہارا دیے رہتی ہیں۔

براعظمی پہاڑوں کے معاملے میں ہلکا مواد پہاڑوں سے نیچے کی جانب زمین میں جڑ کے طورپر پوری قوت سے جماہوا ہوتاہے۔ سمندری پہاڑوں کے معاملے میں بھی ہلکا مواد پہاڑوں کے نیچے زمین میں جڑ کے طور پر قوت پکڑتا ہے لیکن سمندری پہاڑوں کے معاملے میں ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ گرم ہوتا ہے اس لیے قدرے پھیلا ہوا ہوتا ہے اور پہاڑوں کو سہارا دینے کا کام کرتاہے۔ 
جڑوں کا پہاڑوں کو سہارا دینے کا کا م ارشمیدس کا قانون (Law of Archimedes) کے مطابق ہوتا ہے۔ پروفیسر سیاویدا نے سمندروں یا زمین کے اوپر پائے جانے والے تمام پہاڑوں کی شکل اور ساخت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ میخ یا فانہ (Wedge) کی طرح کی ہوتی ہیں۔(2)

ڈاکٹر فرینک پریس امریکہ کے ایک ماہر ارضیات ہیں اور یہ امریکی صدر جمی کارٹر کے مشیر بھی رہ چکے ہیں ۔انہوں نے ایک کتاب ''زمین '' (Earth) لکھی ہے جو بیش تر یونیورسٹیوں کے ارضیات کے نصاب میں شامل ہے ۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ کہ پہاڑ مثلث نما ہوتے ہیں ،زمین کے اندر گہرائی تک ان کی جڑیں ہوتی ہیں اور یہ کہ پہاڑ زمین کو استحکام فراہم کرتے ہیں۔ (3)

جغرافیائی ماہرین کے مطابق زمین کا اندرونی مرکز سطح زمین سے تقریبا ً6,378 کلومیٹر دور ہے جو کور (Core) کہلاتا ہے۔ اسکے اندرونی اور بیرونی حصے ہیں۔ اندرونی مرکزی حصہ ٹھوس لوہے کے ایک بڑے گیند کی شکل میں ہے۔ اس میں نکل اور لوہا ہے۔ اس کی بیر ونی سطح دھاتوں کے پگھلے ہوئے مادے پر مشتمل ہے جو زمین کی سطح سے نیچے گہرائی کی جانب تقریبا 2,900 کلومیٹر  دور واقع ہے ۔  اس کے اوپر والا حصہ (حفاظتی ڈھال یا غلاف) Mantale ہے جو زمین کی اوپر والی تہہ سے تقریباً 100 کلومیٹر نیچے سے شروع ہو کر 2,900 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔

زمین کا زیادہ تر حصہ اسی پر مشتمل ہے۔ یہ حصہ چٹانوں اور دھاتوں مثلاً ایلومینیم ،میگنیشیم ،نکل وغیرہ کے سیال مادے پر مشتمل ہے۔ جبکہ زمین کا بیرونی حصہ جسے Crust کہتے ہیں، سخت اور بہت ٹھوس ہے۔ اسی حصے پر ہم رہتے ہیں ۔یہ زمین کی سطح سے لے کر کم و بیش 70 کلومیٹر گہرائی تک پھیلا ہوا ہے۔ زمین کی بیرونی تہہ کی موٹائی سمندروں کے نیچے 6 کلو میٹر ہے۔
براعظموں کی چوڑی سطحوں کے نیچے زمین کی بیرونی تہہ کی موٹائی 35 کلومیٹر تک پائی جاتی ہے جبکہ پہاڑی سلسلوں کے نیچے زمین کی بیرونی تہہ کی موٹائی تقریبا ً70 کلومیٹر تک پائی جاتی ہے یعنی جہاں پہاڑ واقع ہیں وہاں پر اس کی موٹائی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ زمین کے کور کا بیرونی حصہ تیز کھولتے ہوئے مائع پر مشتمل ہے جس کا درجہ حرارت تقریباً 7,227 سینٹی گریڈ تک رہتا ہے جو سورج کی بیرونی سطح کے درجہ حرارت سے بھی زیادہ ہے۔ 

اس سطح پر زمین کے اپنے وزن کا دباؤ سمندر پر ہوائی دباؤ سے تیس لاکھ گنا زیادہ ہے۔اس انتہائی شدید گرمی اور زمین کے اندرونی حصوں میں مسلسل حرکت کے باعث بعض اوقات کسی کمزور جگہ سے زمین پھٹ جاتی ہے اور آتش فشاں پھوٹ پڑتے ہیں۔ ان میں سے بعض اوقات 10 فٹ سے زیادہ بلند گرم سرخ لاوے کی دھار ابل پڑتی ہے اور زمین کا اندرونی حصہ نرم ہو جاتا ہے جو اپنے اوپر بوجھ کو برداشت نہیں کرتا جس کے باعث زلزلے کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ چنانچہ زلزلے کے پیدا ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے۔

زمین کی مسلسل حرکت کے باعث اس کے اندر توڑ پھوڑ کا عمل ہر وقت تیز رہتاہے۔ ماہرین کے مطابق کرۂ ارض اندرونی طور پر 15پلیٹوں(جنہیں ٹیکٹون پلیٹس کہتے ہیں) میں تقسیم ہو چکا ہے....ان میں بعض پلیٹیں بڑی اور بعض چھوٹی ہیں ....ان میں یوریشین پلیٹ دنیا کی دوسر ی سب سے بڑی پلیٹ شمار ہوتی ہے۔ یہ جاپان کے جزائر سے شروع ہو کر آئس لینڈ اورشمالی اوقیانوس کے وسط تک جاتی ہے۔ اس کی ایک سرحد چین جبکہ دوسری سائبیریا سے ملتی ہے۔یہ پلیٹ بہت متحرک ہے۔دنیا کے بڑے بڑے آتش فشاں کے سلسلے اس پلیٹ کے ساتھ واقع ہیں۔انڈین پلیٹ بحر ہند کے کنارے واقع ممالک خاص طور پر انڈیا،سری لنکا ،اورتھا ئی لینڈ سے انڈونیشیا اورملایا تک پھیلی ہوئی ہے۔  

ماہرین ارضیات کے مطابق پہاڑ ٹیکٹونز پلیٹوں کے کناروں پر پائے جاتے ہیں یہ زمین کی بیرونی سطح کو جمانے اور مستحکم بنانے میں ممدومعاون ہیں۔ اس لیے کہ یہ زمین کے اندر بہت گہرائی میں اترے ہوئے ہیں اور مضبوط جڑیں رکھتے ہیں۔ ا س کی بہترین مثال کوہ قاف (قفقاز)کی بلند ترین چوٹی ہے جو 5,642 میٹر یعنی 5.6 کلومیٹر اونچی ہے مگر اسی کوہ قاف کی جڑیں زمین کے اندر تقریباً 65 کلومیٹر تک گڑی ہوئی ہیں۔ 
دنیا میں پہاڑوں کا سب سے بڑا سلسلہ امریکہ میں ہے۔ اس کا نام اندس پہاڑ (Andes Mountains) ہے۔ اس کی لمبائی 7,200 کلومیٹر ہے ،یہ جنوبی امریکی ممالک کے سات ملکوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اوسطاً اس کی چوڑائی 300 کلومیٹر ہے جبکہ Bolivia کے مقام پر اس کی چوڑائی 600 کلومیٹر تک پائی گئی ہے۔(4)

دنیا میں بلند ی کے لحاظ کے سے سب سے بڑا پہاڑی سلسلہ ''ہمالیہ ''ہے۔ اس کی لمبائی  2414 کلومیٹر ہے۔ یہ پاکستان ،انڈیا،تبت کے شمالی علاقہ جات ،نیپال ،سکم اور بھوٹان تک پھیلا ہوا ہے۔ تیس مقامات پر اس کی اونچائی 25,000 فٹ سے کم یا زیادہ ہے۔ جبکہ سب سے زیادہ اونچائی 29,036 فٹ ریکارڈ کی گئی ہے۔ سمندری فرش پر سب سے اونچا پایا جانے والا پہاڑ Mauna Kea ہے ،یہ ہوائی میں واقع ہے۔ اس کی مجموعی اونچائی 33,474 فٹ ہے مگر اس کا صرف 13,796 فٹ حصہ سمندر سے باہر ہے۔ پہاڑ دنیا میں زمین کی خشک سطح کا پانچواں حصہ ہیں۔ یہ دنیا کی آبادی کے تقریباً 1/10 حصے کو گھر مہیا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اور دنیا میں 80% تازہ پانی انہی پہاڑوں میں سے نکلتا ہے۔  (5)

اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن میں پہاڑوں کا مقصد یہی بتایا ہے کہ وہ سطح زمین کو استحکا م فراہم کرتے ہیں ۔مثلاً

(وَاَلْقٰی فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِکُمْ وَاَنْھٰرًا وَّ سُبُلًا لَّعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ)
''اس نے زمین میںپہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں تاکہ زمین تم کو لے کرڈُھلک نہ جائے۔ اس نے دریا جاری کیے اور قدرتی راستے بنائے تاکہ تم ہدایت پاؤ '' (النحل،  15 )

(وَجَعَلْنَا فِي الْأَرْ‌ضِ رَ‌وَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِهِمْ وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ)
''اور ہم نے زمین میں پہاڑ جمادیے تاکہ وہ انھیں لے کر ڈھلک نہ جائے اور اس میں کشادہ راہیں بنا دیں ،شاید کہ لوگ اپنا راستہ معلوم کر لیں ''  (الانبیاء،31)

(خَلَقَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ‌ عَمَدٍ تَرَ‌وْنَهَا ۖ وَأَلْقَىٰ فِي الْأَرْ‌ضِ رَ‌وَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ)
''اس نے آسمانوں کو پیدا کیا بغیر ستونوں کے جو تم کو نظر آئیں ۔اس نے زمین میں پہاڑ جما دیے ،تاکہ وہ تمھیں لے کر ڈھلک نہ جائے''۔ (لقمان: 10)

گویا قرآن میں بھی پہاڑوں کا مقصد یہی بتایا گیا ہے کہ وہ سطح زمین کو استحکام فراہم کرتے ہیں ۔قرآن کی ان آیات میں یہ کہیں بھی نہیں کہا گیا کہ پہاڑ زلزلوں کو روکتے ہیں ۔عربی میں زلزلے کے لیے ''زلزال '' کا لفظ استعمال ہوتا ہے ،لیکن مندرجہ بالا تینوں آیات میں کہیں بھی زلزلے کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔ان میں جولفظ استعمال ہوا ،وہ ہے ''تمہیداً'' جس کے معنی ''ڈھلکنے''یا ''جھولنے'' کے ہوتے ہیں اورقرآن ان تینوں آیات میں یہی لفظ استعمال کرتاہے کہ زمین تمھیں لے کر ڈھلک نہ جائے،جھول نہ پڑے ۔اگر پہاڑ نہ ہوتے تو زمین حرکت کرتی ۔علاوہ ازیں رواسی ایسے سلسلہ ہائے کوہ کو کہا جاتاہے جو سیکڑوں میلوں تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ زمین ہچکولے نہ کھائے اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کو پیداکیا گیا تو ڈگمگاتی اور ہچکولے کھاتی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس پر پہاڑ رکھ دیے۔ (ترمذی ، ابواب التفسیر،سورہ الناس)جس کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر پہاڑوں کو کسی خاص ترتیب اورحکمت سے پیدا کیا اور رکھا گیا ہے۔ 

کہیں اونچے اونچے پہاڑ ہیں۔ کہیں پھیلاؤزیادہ ہے لیکن بلندی کم ہے۔کہیں دور دور تک پہا ڑوں کا نام ونشان ہی نہیں ملتا اور یہ سب کچھ زمین کے توازن (Balance)کو قائم رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔ جدید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ پہاڑوں کاوجود زلزلوں کو روکنے میں بھی بڑا ممد ثابت ہوا ہے۔گویا پہاڑوں کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان زمین پر سکون سے رہ سکتاہے۔اس کی مثال یوں سمجھیے جیسے ایک خالی کشتی پانی میں ادھر ادھر ہلتی اور ڈگمگاتی رہتی ہے۔ 
پھر جب اس میں بوجھ ڈال دیا جائے تو اس کا ہلنا جلنا بند ہو جاتا ہے۔ ہماری زمین بھی جدیدسائنس کے مطابق فضا میں تیز ی سے تیر رہی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس پر متناسب اور متوازن پہا ڑ ٹھونک کر اس کی ڈگمگاہٹ کو بند کر دیا۔ پھر انہی پہاڑوں سے اللہ تعالیٰ نے دریاؤں کو رواں کیا۔ چنانچہ دنیا کے بیشتر دریاؤں کے منابع پہاڑوں ہی میں واقع ہوئے ہیں۔پھر انہی پہاڑوں سے ندی نالے نکلتے ہیں اور پھر دریاؤں کے ساتھ ساتھ راستے بھی بنتے چلے جاتے ہیں ،ان قدرتی راستوں کی اہمیت پہاڑی علاقوںمیں تو بہت زیادہ ہوتی ہے۔اگرچہ میدانی علاقوں میں بھی کچھ کم اہم نہیں ہیں۔  (6)

ڈاکٹر الفرڈ کرونر (Dr. Alfred Kronerدنیا کے معروف ماہر علم الارضیات (Geologist) میں سے ایک ہیں۔ وہ جوہانز گیٹمبرگ یونیورسٹی مینز جرمنی (Johannes Gutenberg University Mains,Germany)کے انسٹی ٹیوٹ آف جیوسائنسز (Institute of  Geosciences)میں علم الارضیات کے پروفیسر اورعلم الارضیات کے شعبہ کے چیٔرمین ہیں۔وہ کہتے ہیں:

  ''سوچیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہاں تشریف لائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے لیے اس قسم کی معلومات کا حصول ناممکن تھا۔ مثلاً کائنات کا مشترکہ نقطہ آغاز وغیرہ۔ کیونکہ سائنس دانوں نے بھی بہت ہی پیچیدہ اورجدید ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کے ذریعہ ان معلومات کو کچھ سال پہلے ہی حاصل کیا ہے اور واقعتا ایسا ہی ہے ......چودہ سو سال پہلے جو شخص نیوکلیائی طبیعیات (Nuclear Physics) میں کچھ نہیں جانتا تھا میں سمجھتا ہوں کہ زمین اور آسمان کے مشترکہ آغاز کے بارے میں صرف اپنے ذہن سے کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ ''

پروفیسر الفرڈ کرونر نے قرآن مجیدکو پرکھنے کے لیے بطورمثال ایک آیت منتحب کی جو ان کے امتحان پر پورا اُتری اور انہوں نے کہا قرآن مجید محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کا تحریر کردہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ۔انہوں نے درج ذیل آیت منتخب کی تھی ۔

(اَوَ لَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰھُمَا ط وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآئِ کُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ ط اَفَلَا یُؤْ مِنُوْنَ)
'' کیا کافروں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ آسمان اور زمین آپس میں گڈ مڈ تھے پھر ہم نے انہیں الگ الگ کیا اور ہر جاندار چیز کو پانی سے زندگی بخشی کیا پھر بھی یہ لوگ (اللہ تعالیٰ کی خلاقی ) پر ایمان نہیں لاتے؟'' ( سورة الانبیاء  ۔ 21:30)

پروفیسر الفرڈ کرونر نے اس مثال سے ثابت کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کوئی شخص اس بارے میں قطعاً واقفیت نہیں رکھتا تھا۔

پروفیسر پالمر بھی (Professor Palmer) امریکہ کے ایک صف اول کے ماہر ارضیات ہیں ان سے مسلمانوں کے ایک گروپ نے ملاقات کے دوران جب ان کو قرآن و حدیث میں موجود سائنسی معجزات کے بارے میں بتایا تو وہ بہت حیران ہو ئے ۔دوسرے سائنس دانوں کی طرح پروفیسر پالمر پہلے تو ہچکچائے لیکن بعد میں انہوں نے اپنے خیالات کا کھل کر اظہارکیا۔ انہوں نے قاہرہ میں ایک کانفرنس میں اپنا تحقیقی مقالہ پیش کیا جو کہ قرآن مجید میں ارضیاتی علوم سے متعلق معلومات پر مشتمل ایک بے مثال مقالہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے یہ معلوم نہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ میں سائنس کے شعبہ کے رسم معمولہ کیا تھے لیکن اس وقت علم اوروسائل کی کمی کے متعلق ضرور معلومات ہیں۔میں بغیر کسی شک وشبہ کے کہہ سکتاہوں کہ قرآن مجید آسمانی علم کی روشنی ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا۔ ان کے مقالہ کے آخری ریمارکس یہ تھے:'' ہمیں مشرق وسطیٰ کی ابتدائی تاریخ اورزبانی روایات کی تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ کیا یہ تاریخی واقعات (اس زمانے میں)دریافت ہو چکے تھے۔ اگرکوئی ایسا ریکارڈ نہیں ہے تویہ بات اس عقیدہ کو مضبوط بناتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان علمی پاروں کو منتقل کیا جو آج موجودہ وقت میں دریافت ہوئے ہیں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ قرآن مجیدمیں ارضیاتی تحقیق کے حوالے سے سائنسی موضوع پر گفتگو (تحقیق )جاری رہے گی۔ بہت بہت شکریہ''(7)

سائنس کی تاریخ پتہ چلتاہے کہ پہاڑوں کے گہری جڑیں رکھنے کا نظریہ 1865ء میں برطانوی شاہی فلکیات دان سرجارج ایٔری نے پیش کیا تھا جبکہ قرآن مجید نے یہ بات ساتویں صدی عیسوی میں بتادی تھی ۔کیا کوئی بنی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اس بات کا علم رکھتا تھا یا کیا بائبل میں بھی یہ معلومات پائی جاتی ہیں کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلمنے وہاں سے ان معلومات کو لے کر قرآن میں لکھ دیاہو (نعوذبااللہ ، جیسا کہ بعض مستشترقین اس طرح کا جھوٹا دعوٰی کرتے ہیں )۔
حقیقت یہ ہے کہ جدید علم الارض نے قرآنی آیات کی صداقت کا اعتراف کرلیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ آج اگر انسانیت راہ حق کی متلاشی ہے تو وہ صرف اور صرف اسی کتاب ِہدایت  سے ہی حاصل ہوسکتی ہے ۔اس لیے کہ اگرچہ یہ کوئی سائنس کی کتا ب نہیں ہے مگر اس کے باوجود اس میں بیان کی گئیں تمام سائنسی معلومات ،موجودہ جدید سائنس کی ثابت شدہ دریافتوں کے عین مطابق ہیں ۔یہ غیر مسلم سائنسدانوں کے کڑے امتحان پر پورا اتری ہے جبکہ بائبل کے پہلے صفحے ہی میں کئی سائنسی اغلاط پائی جاتی ہیں جو اس بات کاثبوت ہے کہ موجودہ بائبل تحریف شدہ ہے جبکہ یہ بات بھی قرآن صدیوں پہلے بتا چکا ہے۔

..................................................................................
 حواشی::

(1)۔ قرآن اور بایٔبل جدید سائنس کی روشنی میں از ڈاکٹر ذاکرنائیک صفحہ 49-50
(2)۔  سائنسی انکشافات قرآن وحدیث کی روشنی میں ۔ صفحہ113-114
(3)۔ قرآن اور بایٔبل جدید سائنس کی روشنی میں از ڈاکٹر ذاکرنائیک صفحہ 48
(4)۔http://www.nineplanets.org/earth.html
http://kids.msfc.nasa.gov
بحوالہ اردو میگزین جدہ ،31دسمبر 2004
اسلام کی سچائی اور سائنس کے اعترافات صفحہ58
 بحوالہ قرآن اینڈ ماڈرن سائنس از ڈاکٹر ذاکر نائیک ،صفحہ26
(5)۔ http://www.woodlands-junior.kent.sch.uk/Homework/mountains/world.htm
(6)۔تیسیرالقرآن ،جلد دوم،النحل ،حاشیہ 15""
(7)۔اسلام کی سچائی اور سائنس کے اعترافات صفحہ58""
(8)۔ سائنسی انکشافات قرآن و حدیث کی روشنی میں ۔ صفحہ115-120""

۔ ۔ ۔
#shefro