Translate

Showing posts with label #Gabriel. Show all posts
Showing posts with label #Gabriel. Show all posts

Saturday, June 1, 2019

پہاڑ_اور_قرآن "🌋

پہاڑوں کا زمین کی سطح پر میخوں کی طرح گڑے ہونا!! 

قرآن اور جدید سائنس کی روشنی میں ایک حیرت انگیز تحقیق ..!!

۔ ۔ ۔
ابھی حال ہی میں ماہرین ارضیات نے دریافت کیا ہے کہ زمین پر موجود پہاڑوں کی ایک خاص اہمیت ہے اور یہ زمین کی سطح میں بالکل میخوں یعنی کیلوں کی طرح گھڑے ہوئے ہیں۔ 
جدید ماہرین ارضیات ہمیں بتاتے ہیں کہ زمین کا نصف قطر 6,378 کلو میٹر ہے۔ زمین کی سب سے باہری سطح ٹھنڈی ہے لیکن اندرونی پرتین ا نتہائی گرم اور پگھلی ہوئی حالت میں ہیں۔ جہاں زندگی کا کوئی امکان موجود نہیں اور یہ کہ زمین کی سب سے بیرونی پرت جس پر ہم آباد ہیں ،نسبتاً انتہائی باریک ہے۔

مختلف جگہوں پر اس کی موٹائی1 سے 70 کلومیٹر تک ہے چنانچہ یہ ممکن تھا کہ زمین کی یہ پرت یا تہہ (Crust) اپنے اوپر بوجھ کی وجہ سے کسی بھی وقت ڈگمگا جاتی۔ جسکی ایک وجہ''بل پڑنے کا عمل'' ہے جس کے نتیجے میں پہاڑ بنتے ہیں اور زمین کی سطح کو استحکام ملتا ہے۔ لہٰذا اسی وجہ سے اس پر پہاڑوں کو میخوں کی طرح بنا دیا گیا تاکہ زمین کاتوازن برقرار رہے اور یہ اپنی جگہ سے لڑھک نہ جائے 'قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کابار ہا مرتبہ تذکرہ فرمایا ہے۔ 
مثلاً...

(اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِھٰدًا ۔ وَّالْجِبَالَ اَوْتَادًا)
'' کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا اور پہاڑوں کو میخیں ''  ( النبا، 78: 6-7)

قرآن یہ نہیں کہتا کہ پہاڑوں کو میخوں کی طرح زمین میں اوپر سے گاڑا گیا ہے بلکہ یہ کہ پہاڑوں کو میخوں کی طرح بنایا گیا ہے۔ "اوتادا"ً کا مطلب خیمے گاڑنے والی میخیں ہی ہوتا ہے ۔آج جدید ارضیات بھی اس بات کی تائید کرتی ہے کہ پہاڑوں کی جڑیں زمین میں گہرائی تک ہوتی ہیں ۔یہ بات انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں سامنے آئی تھی کہ پہاڑ کا بیش تر حصہ زمین کے اندر ہوتا ہے اور صرف تھوڑا سا حصہ ہمیں نظر آتا ہے ،بالکل اسی طرح جیسے زمین میں گڑی ہوئی میخ کا بیش تر حصہ ہماری نظروں سے اوجھل ہوتا ہے یا جس طرح ''آئس برگ'' کی صرف چوٹی ہمیں نظر آتی ہے جبکہ نوے فیصد حصہ پانی کے اندر ہوتا ہے ۔(1)

مفسرین کرام کے مطابق جب زمین پیداکی گئی تو ابتداً لرزتی تھی ،ڈولتی تھی ،جھولتی تھی اور ادھر ادھر ہچکولے کھاتی تھی۔ایسی صورت میں انسان کا اس پر زندہ رہنا ممکن نہ تھا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی پشت پر جابجا پہاڑوں کے طویل سلسلے میخوں کی طرح بنا دیے اور انہیں اس تناسب سے جابجا مقامات پر پیدا کیا جس سے زمین پر لرزش اور جھول بند ہو گئی اور وہ اس قابل بنا دی گئی کہ انسان اس پر اطمینان سے چل پھر سکے۔ اس پر مکانات وغیرہ تعمیر کر سکے اور سکون سے پوری زندگی بسر کر سکے۔

دوسرے مقام پرارشاد باری تعالیٰ ہے :

(وَجَعَلْنَا فَی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بَھِمْ ص وَجَعَلْنَا فَیْھَا فِجَاجًا سُبُلًا  لَّعَلَّھُمْ یَھْتَدُوْنَ)
''اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈُھلک نہ جائے اور اس میں کشادہ راہیں بنا دیں 'شاید کہ لوگ اپنا راستہ معلوم کر لیں''  (الانبیاء،21:31)

پروفیسر سیاویدا (Professor Siaveda) جاپان کے نہ صرف ایک عظیم اسکالر بلکہ سائنسدان اور بحری ماہر ارضیات (Marine Geologist) ہیں۔ پروفیسر سیاویدا سے جب پہاڑوں کے متعلق سوالات کیے گئے تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا:

''براعظمی پہاڑوں اورسمندری پہاڑوں کے درمیان فرق ان کے طبع (مواد) کا ہے۔ براعظمی پہاڑ بنیادی طورپر رسوب (Sediments) سے بنے ہوئے ہیں جب کہ سمندری پہاڑ آتش فشانی چٹانوں (Volcanic Rocks) سے بنے ہوئے ہیں۔ براعظمی پہاڑ انضباطی دباؤ (Compressional Forces) کے تحت تشکیل پاتے ہیں۔ جبکہ سمندری پہاڑ توسیع دباؤ (Extensional Forcess)کے تحت تشکیل پاتے ہیں۔ لیکن دونوں اقسام کے پہاڑوں میں  مشترکہ نصب نما (Denominator) یہ ہے کہ دونوں کی جڑیں ہوتی ہیں جو کہ پہاڑوں کو سہارا دیے رہتی ہیں۔

براعظمی پہاڑوں کے معاملے میں ہلکا مواد پہاڑوں سے نیچے کی جانب زمین میں جڑ کے طورپر پوری قوت سے جماہوا ہوتاہے۔ سمندری پہاڑوں کے معاملے میں بھی ہلکا مواد پہاڑوں کے نیچے زمین میں جڑ کے طور پر قوت پکڑتا ہے لیکن سمندری پہاڑوں کے معاملے میں ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ گرم ہوتا ہے اس لیے قدرے پھیلا ہوا ہوتا ہے اور پہاڑوں کو سہارا دینے کا کام کرتاہے۔ 
جڑوں کا پہاڑوں کو سہارا دینے کا کا م ارشمیدس کا قانون (Law of Archimedes) کے مطابق ہوتا ہے۔ پروفیسر سیاویدا نے سمندروں یا زمین کے اوپر پائے جانے والے تمام پہاڑوں کی شکل اور ساخت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ میخ یا فانہ (Wedge) کی طرح کی ہوتی ہیں۔(2)

ڈاکٹر فرینک پریس امریکہ کے ایک ماہر ارضیات ہیں اور یہ امریکی صدر جمی کارٹر کے مشیر بھی رہ چکے ہیں ۔انہوں نے ایک کتاب ''زمین '' (Earth) لکھی ہے جو بیش تر یونیورسٹیوں کے ارضیات کے نصاب میں شامل ہے ۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ کہ پہاڑ مثلث نما ہوتے ہیں ،زمین کے اندر گہرائی تک ان کی جڑیں ہوتی ہیں اور یہ کہ پہاڑ زمین کو استحکام فراہم کرتے ہیں۔ (3)

جغرافیائی ماہرین کے مطابق زمین کا اندرونی مرکز سطح زمین سے تقریبا ً6,378 کلومیٹر دور ہے جو کور (Core) کہلاتا ہے۔ اسکے اندرونی اور بیرونی حصے ہیں۔ اندرونی مرکزی حصہ ٹھوس لوہے کے ایک بڑے گیند کی شکل میں ہے۔ اس میں نکل اور لوہا ہے۔ اس کی بیر ونی سطح دھاتوں کے پگھلے ہوئے مادے پر مشتمل ہے جو زمین کی سطح سے نیچے گہرائی کی جانب تقریبا 2,900 کلومیٹر  دور واقع ہے ۔  اس کے اوپر والا حصہ (حفاظتی ڈھال یا غلاف) Mantale ہے جو زمین کی اوپر والی تہہ سے تقریباً 100 کلومیٹر نیچے سے شروع ہو کر 2,900 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔

زمین کا زیادہ تر حصہ اسی پر مشتمل ہے۔ یہ حصہ چٹانوں اور دھاتوں مثلاً ایلومینیم ،میگنیشیم ،نکل وغیرہ کے سیال مادے پر مشتمل ہے۔ جبکہ زمین کا بیرونی حصہ جسے Crust کہتے ہیں، سخت اور بہت ٹھوس ہے۔ اسی حصے پر ہم رہتے ہیں ۔یہ زمین کی سطح سے لے کر کم و بیش 70 کلومیٹر گہرائی تک پھیلا ہوا ہے۔ زمین کی بیرونی تہہ کی موٹائی سمندروں کے نیچے 6 کلو میٹر ہے۔
براعظموں کی چوڑی سطحوں کے نیچے زمین کی بیرونی تہہ کی موٹائی 35 کلومیٹر تک پائی جاتی ہے جبکہ پہاڑی سلسلوں کے نیچے زمین کی بیرونی تہہ کی موٹائی تقریبا ً70 کلومیٹر تک پائی جاتی ہے یعنی جہاں پہاڑ واقع ہیں وہاں پر اس کی موٹائی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ زمین کے کور کا بیرونی حصہ تیز کھولتے ہوئے مائع پر مشتمل ہے جس کا درجہ حرارت تقریباً 7,227 سینٹی گریڈ تک رہتا ہے جو سورج کی بیرونی سطح کے درجہ حرارت سے بھی زیادہ ہے۔ 

اس سطح پر زمین کے اپنے وزن کا دباؤ سمندر پر ہوائی دباؤ سے تیس لاکھ گنا زیادہ ہے۔اس انتہائی شدید گرمی اور زمین کے اندرونی حصوں میں مسلسل حرکت کے باعث بعض اوقات کسی کمزور جگہ سے زمین پھٹ جاتی ہے اور آتش فشاں پھوٹ پڑتے ہیں۔ ان میں سے بعض اوقات 10 فٹ سے زیادہ بلند گرم سرخ لاوے کی دھار ابل پڑتی ہے اور زمین کا اندرونی حصہ نرم ہو جاتا ہے جو اپنے اوپر بوجھ کو برداشت نہیں کرتا جس کے باعث زلزلے کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ چنانچہ زلزلے کے پیدا ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے۔

زمین کی مسلسل حرکت کے باعث اس کے اندر توڑ پھوڑ کا عمل ہر وقت تیز رہتاہے۔ ماہرین کے مطابق کرۂ ارض اندرونی طور پر 15پلیٹوں(جنہیں ٹیکٹون پلیٹس کہتے ہیں) میں تقسیم ہو چکا ہے....ان میں بعض پلیٹیں بڑی اور بعض چھوٹی ہیں ....ان میں یوریشین پلیٹ دنیا کی دوسر ی سب سے بڑی پلیٹ شمار ہوتی ہے۔ یہ جاپان کے جزائر سے شروع ہو کر آئس لینڈ اورشمالی اوقیانوس کے وسط تک جاتی ہے۔ اس کی ایک سرحد چین جبکہ دوسری سائبیریا سے ملتی ہے۔یہ پلیٹ بہت متحرک ہے۔دنیا کے بڑے بڑے آتش فشاں کے سلسلے اس پلیٹ کے ساتھ واقع ہیں۔انڈین پلیٹ بحر ہند کے کنارے واقع ممالک خاص طور پر انڈیا،سری لنکا ،اورتھا ئی لینڈ سے انڈونیشیا اورملایا تک پھیلی ہوئی ہے۔  

ماہرین ارضیات کے مطابق پہاڑ ٹیکٹونز پلیٹوں کے کناروں پر پائے جاتے ہیں یہ زمین کی بیرونی سطح کو جمانے اور مستحکم بنانے میں ممدومعاون ہیں۔ اس لیے کہ یہ زمین کے اندر بہت گہرائی میں اترے ہوئے ہیں اور مضبوط جڑیں رکھتے ہیں۔ ا س کی بہترین مثال کوہ قاف (قفقاز)کی بلند ترین چوٹی ہے جو 5,642 میٹر یعنی 5.6 کلومیٹر اونچی ہے مگر اسی کوہ قاف کی جڑیں زمین کے اندر تقریباً 65 کلومیٹر تک گڑی ہوئی ہیں۔ 
دنیا میں پہاڑوں کا سب سے بڑا سلسلہ امریکہ میں ہے۔ اس کا نام اندس پہاڑ (Andes Mountains) ہے۔ اس کی لمبائی 7,200 کلومیٹر ہے ،یہ جنوبی امریکی ممالک کے سات ملکوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اوسطاً اس کی چوڑائی 300 کلومیٹر ہے جبکہ Bolivia کے مقام پر اس کی چوڑائی 600 کلومیٹر تک پائی گئی ہے۔(4)

دنیا میں بلند ی کے لحاظ کے سے سب سے بڑا پہاڑی سلسلہ ''ہمالیہ ''ہے۔ اس کی لمبائی  2414 کلومیٹر ہے۔ یہ پاکستان ،انڈیا،تبت کے شمالی علاقہ جات ،نیپال ،سکم اور بھوٹان تک پھیلا ہوا ہے۔ تیس مقامات پر اس کی اونچائی 25,000 فٹ سے کم یا زیادہ ہے۔ جبکہ سب سے زیادہ اونچائی 29,036 فٹ ریکارڈ کی گئی ہے۔ سمندری فرش پر سب سے اونچا پایا جانے والا پہاڑ Mauna Kea ہے ،یہ ہوائی میں واقع ہے۔ اس کی مجموعی اونچائی 33,474 فٹ ہے مگر اس کا صرف 13,796 فٹ حصہ سمندر سے باہر ہے۔ پہاڑ دنیا میں زمین کی خشک سطح کا پانچواں حصہ ہیں۔ یہ دنیا کی آبادی کے تقریباً 1/10 حصے کو گھر مہیا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اور دنیا میں 80% تازہ پانی انہی پہاڑوں میں سے نکلتا ہے۔  (5)

اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن میں پہاڑوں کا مقصد یہی بتایا ہے کہ وہ سطح زمین کو استحکا م فراہم کرتے ہیں ۔مثلاً

(وَاَلْقٰی فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِکُمْ وَاَنْھٰرًا وَّ سُبُلًا لَّعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ)
''اس نے زمین میںپہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں تاکہ زمین تم کو لے کرڈُھلک نہ جائے۔ اس نے دریا جاری کیے اور قدرتی راستے بنائے تاکہ تم ہدایت پاؤ '' (النحل،  15 )

(وَجَعَلْنَا فِي الْأَرْ‌ضِ رَ‌وَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِهِمْ وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ)
''اور ہم نے زمین میں پہاڑ جمادیے تاکہ وہ انھیں لے کر ڈھلک نہ جائے اور اس میں کشادہ راہیں بنا دیں ،شاید کہ لوگ اپنا راستہ معلوم کر لیں ''  (الانبیاء،31)

(خَلَقَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ‌ عَمَدٍ تَرَ‌وْنَهَا ۖ وَأَلْقَىٰ فِي الْأَرْ‌ضِ رَ‌وَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ)
''اس نے آسمانوں کو پیدا کیا بغیر ستونوں کے جو تم کو نظر آئیں ۔اس نے زمین میں پہاڑ جما دیے ،تاکہ وہ تمھیں لے کر ڈھلک نہ جائے''۔ (لقمان: 10)

گویا قرآن میں بھی پہاڑوں کا مقصد یہی بتایا گیا ہے کہ وہ سطح زمین کو استحکام فراہم کرتے ہیں ۔قرآن کی ان آیات میں یہ کہیں بھی نہیں کہا گیا کہ پہاڑ زلزلوں کو روکتے ہیں ۔عربی میں زلزلے کے لیے ''زلزال '' کا لفظ استعمال ہوتا ہے ،لیکن مندرجہ بالا تینوں آیات میں کہیں بھی زلزلے کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔ان میں جولفظ استعمال ہوا ،وہ ہے ''تمہیداً'' جس کے معنی ''ڈھلکنے''یا ''جھولنے'' کے ہوتے ہیں اورقرآن ان تینوں آیات میں یہی لفظ استعمال کرتاہے کہ زمین تمھیں لے کر ڈھلک نہ جائے،جھول نہ پڑے ۔اگر پہاڑ نہ ہوتے تو زمین حرکت کرتی ۔علاوہ ازیں رواسی ایسے سلسلہ ہائے کوہ کو کہا جاتاہے جو سیکڑوں میلوں تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ زمین ہچکولے نہ کھائے اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کو پیداکیا گیا تو ڈگمگاتی اور ہچکولے کھاتی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس پر پہاڑ رکھ دیے۔ (ترمذی ، ابواب التفسیر،سورہ الناس)جس کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر پہاڑوں کو کسی خاص ترتیب اورحکمت سے پیدا کیا اور رکھا گیا ہے۔ 

کہیں اونچے اونچے پہاڑ ہیں۔ کہیں پھیلاؤزیادہ ہے لیکن بلندی کم ہے۔کہیں دور دور تک پہا ڑوں کا نام ونشان ہی نہیں ملتا اور یہ سب کچھ زمین کے توازن (Balance)کو قائم رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔ جدید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ پہاڑوں کاوجود زلزلوں کو روکنے میں بھی بڑا ممد ثابت ہوا ہے۔گویا پہاڑوں کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان زمین پر سکون سے رہ سکتاہے۔اس کی مثال یوں سمجھیے جیسے ایک خالی کشتی پانی میں ادھر ادھر ہلتی اور ڈگمگاتی رہتی ہے۔ 
پھر جب اس میں بوجھ ڈال دیا جائے تو اس کا ہلنا جلنا بند ہو جاتا ہے۔ ہماری زمین بھی جدیدسائنس کے مطابق فضا میں تیز ی سے تیر رہی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس پر متناسب اور متوازن پہا ڑ ٹھونک کر اس کی ڈگمگاہٹ کو بند کر دیا۔ پھر انہی پہاڑوں سے اللہ تعالیٰ نے دریاؤں کو رواں کیا۔ چنانچہ دنیا کے بیشتر دریاؤں کے منابع پہاڑوں ہی میں واقع ہوئے ہیں۔پھر انہی پہاڑوں سے ندی نالے نکلتے ہیں اور پھر دریاؤں کے ساتھ ساتھ راستے بھی بنتے چلے جاتے ہیں ،ان قدرتی راستوں کی اہمیت پہاڑی علاقوںمیں تو بہت زیادہ ہوتی ہے۔اگرچہ میدانی علاقوں میں بھی کچھ کم اہم نہیں ہیں۔  (6)

ڈاکٹر الفرڈ کرونر (Dr. Alfred Kronerدنیا کے معروف ماہر علم الارضیات (Geologist) میں سے ایک ہیں۔ وہ جوہانز گیٹمبرگ یونیورسٹی مینز جرمنی (Johannes Gutenberg University Mains,Germany)کے انسٹی ٹیوٹ آف جیوسائنسز (Institute of  Geosciences)میں علم الارضیات کے پروفیسر اورعلم الارضیات کے شعبہ کے چیٔرمین ہیں۔وہ کہتے ہیں:

  ''سوچیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہاں تشریف لائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے لیے اس قسم کی معلومات کا حصول ناممکن تھا۔ مثلاً کائنات کا مشترکہ نقطہ آغاز وغیرہ۔ کیونکہ سائنس دانوں نے بھی بہت ہی پیچیدہ اورجدید ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کے ذریعہ ان معلومات کو کچھ سال پہلے ہی حاصل کیا ہے اور واقعتا ایسا ہی ہے ......چودہ سو سال پہلے جو شخص نیوکلیائی طبیعیات (Nuclear Physics) میں کچھ نہیں جانتا تھا میں سمجھتا ہوں کہ زمین اور آسمان کے مشترکہ آغاز کے بارے میں صرف اپنے ذہن سے کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ ''

پروفیسر الفرڈ کرونر نے قرآن مجیدکو پرکھنے کے لیے بطورمثال ایک آیت منتحب کی جو ان کے امتحان پر پورا اُتری اور انہوں نے کہا قرآن مجید محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کا تحریر کردہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ۔انہوں نے درج ذیل آیت منتخب کی تھی ۔

(اَوَ لَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰھُمَا ط وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآئِ کُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ ط اَفَلَا یُؤْ مِنُوْنَ)
'' کیا کافروں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ آسمان اور زمین آپس میں گڈ مڈ تھے پھر ہم نے انہیں الگ الگ کیا اور ہر جاندار چیز کو پانی سے زندگی بخشی کیا پھر بھی یہ لوگ (اللہ تعالیٰ کی خلاقی ) پر ایمان نہیں لاتے؟'' ( سورة الانبیاء  ۔ 21:30)

پروفیسر الفرڈ کرونر نے اس مثال سے ثابت کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کوئی شخص اس بارے میں قطعاً واقفیت نہیں رکھتا تھا۔

پروفیسر پالمر بھی (Professor Palmer) امریکہ کے ایک صف اول کے ماہر ارضیات ہیں ان سے مسلمانوں کے ایک گروپ نے ملاقات کے دوران جب ان کو قرآن و حدیث میں موجود سائنسی معجزات کے بارے میں بتایا تو وہ بہت حیران ہو ئے ۔دوسرے سائنس دانوں کی طرح پروفیسر پالمر پہلے تو ہچکچائے لیکن بعد میں انہوں نے اپنے خیالات کا کھل کر اظہارکیا۔ انہوں نے قاہرہ میں ایک کانفرنس میں اپنا تحقیقی مقالہ پیش کیا جو کہ قرآن مجید میں ارضیاتی علوم سے متعلق معلومات پر مشتمل ایک بے مثال مقالہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے یہ معلوم نہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ میں سائنس کے شعبہ کے رسم معمولہ کیا تھے لیکن اس وقت علم اوروسائل کی کمی کے متعلق ضرور معلومات ہیں۔میں بغیر کسی شک وشبہ کے کہہ سکتاہوں کہ قرآن مجید آسمانی علم کی روشنی ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا۔ ان کے مقالہ کے آخری ریمارکس یہ تھے:'' ہمیں مشرق وسطیٰ کی ابتدائی تاریخ اورزبانی روایات کی تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ کیا یہ تاریخی واقعات (اس زمانے میں)دریافت ہو چکے تھے۔ اگرکوئی ایسا ریکارڈ نہیں ہے تویہ بات اس عقیدہ کو مضبوط بناتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان علمی پاروں کو منتقل کیا جو آج موجودہ وقت میں دریافت ہوئے ہیں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ قرآن مجیدمیں ارضیاتی تحقیق کے حوالے سے سائنسی موضوع پر گفتگو (تحقیق )جاری رہے گی۔ بہت بہت شکریہ''(7)

سائنس کی تاریخ پتہ چلتاہے کہ پہاڑوں کے گہری جڑیں رکھنے کا نظریہ 1865ء میں برطانوی شاہی فلکیات دان سرجارج ایٔری نے پیش کیا تھا جبکہ قرآن مجید نے یہ بات ساتویں صدی عیسوی میں بتادی تھی ۔کیا کوئی بنی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اس بات کا علم رکھتا تھا یا کیا بائبل میں بھی یہ معلومات پائی جاتی ہیں کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلمنے وہاں سے ان معلومات کو لے کر قرآن میں لکھ دیاہو (نعوذبااللہ ، جیسا کہ بعض مستشترقین اس طرح کا جھوٹا دعوٰی کرتے ہیں )۔
حقیقت یہ ہے کہ جدید علم الارض نے قرآنی آیات کی صداقت کا اعتراف کرلیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ آج اگر انسانیت راہ حق کی متلاشی ہے تو وہ صرف اور صرف اسی کتاب ِہدایت  سے ہی حاصل ہوسکتی ہے ۔اس لیے کہ اگرچہ یہ کوئی سائنس کی کتا ب نہیں ہے مگر اس کے باوجود اس میں بیان کی گئیں تمام سائنسی معلومات ،موجودہ جدید سائنس کی ثابت شدہ دریافتوں کے عین مطابق ہیں ۔یہ غیر مسلم سائنسدانوں کے کڑے امتحان پر پورا اتری ہے جبکہ بائبل کے پہلے صفحے ہی میں کئی سائنسی اغلاط پائی جاتی ہیں جو اس بات کاثبوت ہے کہ موجودہ بائبل تحریف شدہ ہے جبکہ یہ بات بھی قرآن صدیوں پہلے بتا چکا ہے۔

..................................................................................
 حواشی::

(1)۔ قرآن اور بایٔبل جدید سائنس کی روشنی میں از ڈاکٹر ذاکرنائیک صفحہ 49-50
(2)۔  سائنسی انکشافات قرآن وحدیث کی روشنی میں ۔ صفحہ113-114
(3)۔ قرآن اور بایٔبل جدید سائنس کی روشنی میں از ڈاکٹر ذاکرنائیک صفحہ 48
(4)۔http://www.nineplanets.org/earth.html
http://kids.msfc.nasa.gov
بحوالہ اردو میگزین جدہ ،31دسمبر 2004
اسلام کی سچائی اور سائنس کے اعترافات صفحہ58
 بحوالہ قرآن اینڈ ماڈرن سائنس از ڈاکٹر ذاکر نائیک ،صفحہ26
(5)۔ http://www.woodlands-junior.kent.sch.uk/Homework/mountains/world.htm
(6)۔تیسیرالقرآن ،جلد دوم،النحل ،حاشیہ 15""
(7)۔اسلام کی سچائی اور سائنس کے اعترافات صفحہ58""
(8)۔ سائنسی انکشافات قرآن و حدیث کی روشنی میں ۔ صفحہ115-120""

۔ ۔ ۔
#shefro