Translate

Showing posts with label #Muslim. Show all posts
Showing posts with label #Muslim. Show all posts

Thursday, May 9, 2019

میسا_حراتی'' (MISAHARATI)

"سحری" جگانے والے !!
۔ ۔ ۔
سن 2 ہجری میں صوم (روزے) فرض ہونے کے بعد یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ اہل مدینہ کو سحری میں جگانے کے لیے کونسا طریقہ اختیار کیا جایے۔

تاریخ کے اوراق کی گرد کو اگر جھاڑ کر دیکھا جایے تو علم ہوتا ہے کہ ایک صحابی ''سیدنا بلال بن رباہ'' رضی اللہ عنہ وہ پہلے شخص تھے جو روزوں کی فرضیت کے بعد مدینہ کی گلیوں میں سحری کے وقت آوازیں لگا لگا روحانیت کا سماں باندھ دیتے تھے اور لوگوں کو سحری کے لیے جگایا کرتے تھے۔

''سیدنا بلال بن رباہ'' رضی اللہ عنہ کی یہ سنت مدینہ المنورہ میں زور پکڑتی گیی اور وقت گزرنے کے ساتھہ ساتھہ اور بہت سے دوسرے لوگ بھی یہ خدمت انجام دینے لگے۔

ان سحری جگانے والوں کے ساتھہ اکثر بچے بھی شوق میں شامل ہو جاتے اور رمضان کی سحری ایک خوشنما فیسٹول محسوس ہونے لگتی تھی - 

عربی میں سحری جگانے والوں کو ''میسا حراتی'' (MISAHARATI) کہتے ہیں۔

مدینہ المنوره کے بعد عرب کے دوسرے شہروں میں بھی سحری جگانے والے اس روایت کی پیروی کرنے لگے اور بھر یہ رواج پوری اسلامی دنیا میں پھیل گیا۔

''میسا حراتی'' (MISAHARATI) یہ فریضہ فی سبیل الله انجام دیا کرتے تھے۔ لیکن انکی خبمت سے مستفید ہونے والے مسلمان انہیں مایوس نہیں کرتے تھے اور آخری صوم (روزے) والے دن انہیں ہدیہ انعام یا عیدی دیتے تھے۔

اس کے علاوہ مسجدوں کے امام مسجدوں کی چھتوں یا میناروں پر لالٹین جلا کر رکھہ دیتے تھے, اور با آواز بلند لوگوں کو سحری کے وقت کی اطلاع دیتے تھے۔

جہاں آواز نہیں پہنچ پاتی تھی، لوگ روشن لالٹین دیکھ کر اندازہ لگا لیتے کہ سحری کا وقت ہو گیا ہے۔

آہ کیا خوبصورت اور روح پرور رمضان ہوا کرتے تھے۔

۔ ۔ ۔
#shefro

Tuesday, April 23, 2019

گاندھی_کیپ_اور_بی_امّاں"Gandhi Cap"

یہ 1920 کی بات ہے, ہندوستان میں تحریک خلافت اپنے عروج پر تھی۔ ۔ ۔ ۔

تحریک میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو بھی شریک تھے۔ ایک روز ہندوں کے قومی رہنما "موہن داس کرم چند گاندھی" تحریک خلافت کے عظیم رہنماوں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کے گھر روم پور آئے۔ 

مولانا محمد علی جوہر جیل میں تھے۔ گاندھی جی مولانا شوکت علی سے اور اُن کی والدہ بی اماں سے ملے۔ کچھ دیر بعد گاندجی جی نے بی اماں سے اجازت طلب کی، کہ انہوں نے مولانا شوکت علی کے ہمراہ رام پور کی جامعہ مسجد میں تحریک خلافت کے ایک اجتماع سے خطاب کرنا تھا۔ اُن کی ملاقات نواب آف مراد آباد سے بھی طے تھے۔

گاندھی کی بات سُن کر بی اماں خفا ہو کر بولیں۔ اے ہے، یہ کیا؟ تو ننگے سر مسجد جائے گااُنہوں نے فورا سائی دھاگہ اور کپڑے کا ٹکرا منگوایا۔ اور بیتٹھے بیٹھے ایک ٹوپی سی کر گاندھی کو پہنائی۔ کہا اب جا کر نواب سے بھی مل لے اور مسجد میں خطاب بھی کر۔ 

بی اماں کی سی ہوئی یہ ٹوپی گاندھی پورے دو سال تک مستقلا پہنتے رہے۔ اُن کے نام پر یہ ’’گاندھی کیپ‘‘ مشہور ہوئی۔ پھر کانگریس کا ڈریس کوڈ بن گئی۔

#shefro