یہ 1920 کی بات ہے, ہندوستان میں تحریک خلافت اپنے عروج پر تھی۔ ۔ ۔ ۔
تحریک میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو بھی شریک تھے۔ ایک روز ہندوں کے قومی رہنما "موہن داس کرم چند گاندھی" تحریک خلافت کے عظیم رہنماوں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کے گھر روم پور آئے۔
مولانا محمد علی جوہر جیل میں تھے۔ گاندھی جی مولانا شوکت علی سے اور اُن کی والدہ بی اماں سے ملے۔ کچھ دیر بعد گاندجی جی نے بی اماں سے اجازت طلب کی، کہ انہوں نے مولانا شوکت علی کے ہمراہ رام پور کی جامعہ مسجد میں تحریک خلافت کے ایک اجتماع سے خطاب کرنا تھا۔ اُن کی ملاقات نواب آف مراد آباد سے بھی طے تھے۔
گاندھی کی بات سُن کر بی اماں خفا ہو کر بولیں۔ اے ہے، یہ کیا؟ تو ننگے سر مسجد جائے گااُنہوں نے فورا سائی دھاگہ اور کپڑے کا ٹکرا منگوایا۔ اور بیتٹھے بیٹھے ایک ٹوپی سی کر گاندھی کو پہنائی۔ کہا اب جا کر نواب سے بھی مل لے اور مسجد میں خطاب بھی کر۔
بی اماں کی سی ہوئی یہ ٹوپی گاندھی پورے دو سال تک مستقلا پہنتے رہے۔ اُن کے نام پر یہ ’’گاندھی کیپ‘‘ مشہور ہوئی۔ پھر کانگریس کا ڈریس کوڈ بن گئی۔
#shefro
No comments:
Post a Comment