Translate

Showing posts with label #Ottoman_Turkish. Show all posts
Showing posts with label #Ottoman_Turkish. Show all posts

Thursday, August 1, 2019

"تلوار_کی_دھار" 🎿

عثمانی سلطان سلیم الاول ظاہری زیب و زینت کو زیادہ خاطر میں نہ لاتا اور مملکت کے وزراء اور رؤساء بھی اس کی پیروی کرتے۔

یہاں تک کہ سلطان کا دیوان زیب و زینت اور خوبصورت لباس سے خالی ہوتا چلا گیا اور اس کی جگہ ان کا لباس عام اور ردی قسم کا ہوتا جس کی انھیں سلطان کے لباس کی تقلید میں پہننا پڑتا تھا۔

صدر اعظم نے دیوان میں یورپی مملکت کے سفیر کی آمد سے فائدہ اٹھایا اور سلطان کی خدمت میں عرض کی: میرے آقا سلطان ہمارا دشمن ناقص العقل ہے، اس لئے وہ ہر چیز کو سطحیت سے دیکھتا اور ظاہری زیب و زینت کو ضرورت سے زائد اہمیت دیتا ہے اور سلطان معظم اگر مناسب سمجھیں تو… سلطان بات کاٹ کر بولا:
"ٹھیک ہے ایسا ہی کرتے ہیں ، تم بھی اپنے لئے زرق برق نئے لباس زیب تن کرنے کیلئے سوچو"

وزراء اس سلطانی حکم کو پا کر بے حد خوش ہوئے اور اپنے پاس موجود اس موقع کی مناسبت سے قیمتی ترین لباس تلاش کرنے لگے جو سلطان کی قیمتی و خوبصورت قبا کے قریب تر ہوں۔ سلطان نے سفیر کی آمد سے قبل تخت کے پاس بے نیام تلوار رکھوانے کا حکم دیا۔

اس دن وزراء اور معززین مملکت شاہی دربار میں سلطان کے منتظر تھے اور انھیں توقع تھی کہ سلطان عام معمول سے ہٹ کر قیمتی لباس زیب تن کر کے آئیں گے۔
سلطان وہی پرانا لباس زیب تن کئے دربار میں داخل ہوئے وزراء بھونچکے رہ گئے اور اپنے دل میں شرمندگی محسوس کرنے لگے، کہ ان کے لباس ان کے سلطان کے لباس سے زیادہ خوبصورت اور بیش قیمت تھے، شرمندگی سے سر جھکا کر بیٹھ گئے اور اس کی وجہ جاننے کا انتظار کرنے لگے۔

سفیر دربار میں داخل ہوا اور سلطان کے سامنے جھک کر لرزتا کانپتا کھڑا ہو گیا، تھوڑی سی بات چیت کے بعد سفیر تیزی سے باہر نکل گیا۔ تب سلطان نے اپنے وزراء میں سے ایک سے کہا کہ وہ جا کر سفیر سے سلطان کے لباس کے بارے میں سوال کرے، سفیر کا جواب انتہائی حیران کن تھا …

"میں نے سلطان معظم کو نہیں دیکھا تخت کی پائنتی کے ساتھ کھڑی بے نیام تلوار نے میری نظر اچک لی اور میں اس کے علاوہ اور کسی جانب دیکھ ہی نہ پایا" سلطان کے سامنے جب یہ بات دہرائی گئی تو سلطان نے تخت کے ساتھ پڑی بے نیام تلوار کی جانب اشارہ کر کے کہا:::؛

"جب تک ہماری تلوار کی دھار تیز ہے دشمن کی آنکھیں ہمارا لباس نہیں دیکھیں گی اور نہ ہی اس جانب متوجہ ہوں گی، اللہ ہمیں وہ دن نہ دکھائے جب ہماری تلواریں کند ہو چکی ہوں اور ہم لباس اور ظاہری زیب وزینت میں مشغول ہوں…"

ماخذ..
التاريخ السري للامبراطورية العثمانية - مصطفي أرمغان)))))

۔ ۔ ۔
#shefro

"سلطنت_عثمانیہ_کی_عظیم_بحری_فوج "🚤

عثمانی بحریہ ::

سلطنت عثمانیہ کی بحریہ چودھویں صدی عیسوی کے اوائل میں تشکیل دی گئی۔ اس کی سربراہی قیودان پاشا (گرینڈ ایڈمرل) کرتا تھا۔ اس عہدے کو 1867ء میں ختم کر دیا گیا۔ 

ۃ1308ء میں بحیرہ مرمرہ میں جزیرہ امرالی کی فتح عثمانیوں کی پہلی بحری فتح تھی۔ 1321ء میں اس کے جہاز پہلی بار جنوب مشرقی یورپ کے علاقے تھریس میں لنگر انداز ہوئے اور بعد ازاں براعظم یورپ میں فتوحات میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ عثمانی بحریہ دنیا کی پہلی بحریہ تھی جس نے بحری جہازوں پر توپیں نصب کیں۔ 

ۃ1499ء میں لڑی گئی جنگ زونکیو تاریخ کی پہلی بحری جنگ تھی جس کے دوران بحری جہازوں پر لگی توپیں استعمال کی گئیں۔ عثمانی بحریہ نے ہی شمالی افریقہ میں فتوحات کا آغاز کیا اور 1517ء میں الجزائر اور مصر کو سلطنت میں شامل کیا۔ 

ۃ1538ء میں جنگ پریویزا اور 1560ء میں جنگ جربا بحیرۂ روم میں عثمانی بحریہ کی طاقت اور وسعت کا ثبوت ہیں۔ علاوہ ازیں عثمانی بحری جہازوں نے 1538ء سے 1566ء کے درمیان بحر ہند میں گوا کے قریب پرتگیزی جہازوں کا مقابلہ بھی کیا۔ 1553ء میں عثمانی امیر البحر صالح رئیس نے مراکش اور آبنائے جبل الطارق سے آگے کے شمالی افریقہ کے علاقے فتح کیے اور عثمانی سلطنت کی سرحدیں بحر اوقیانوس تک پہنچا دیں۔ 

ۃ1566ء میں آچے (موجودہ انڈونیشیا کا ایک صوبہ) کے سلطان نے پرتگیزیوں کے خلاف عثمانیوں کی مدد طلب کی اور خضر رئیس کی قیادت میں ایک بحری بیڑا سماٹرا بھیجا گیا۔ 

یہ بیڑا 1569ء میں آچے میں لنگر انداز ہوا اور اس طرح یہ سلطنت کا مشرقی ترین علاقہ قرار پایا جو عثمانیوں کی زیر سیادت تھا۔ اگست 1625ء میں مغربی انگلستان کے علاقوں سسیکس، پلائی ماؤتھ، ڈیوون، ہارٹ لینڈ پوائنٹ اور کورن وال پر چھاپے مارے۔ 1627ء میں عثمانی بحریہ کے جہازوں نے جزائر شیٹ لینڈ، جزائرفارو، ڈنمارک، ناروے اور آئس لینڈ تک اور 1627ء سے 1631ء کے دوران آئرستان اور سویڈن تک بھی چھاپے مارنے میں کامیاب ہوئے۔ 

ۃ1827ء میں جنگ ناوارینو میں برطانیہ، فرانس اور روس کے مشترکہ بحری بیڑے کے ہاتھوں شکست اور الجزائر اور یونان کے کھو جانے کے بعد عثمانی بحریہ کا زوال شروع ہو گیا اور اس طرح سلطنت سمندر پار مقبوضات پر گرفت کمزور پڑتی چلی گئی۔ 

سلطان عبد العزیز اول (دور حکومت: 1861ء تا 1876ئ) نے مضبوط بحریہ کی تشکیل کے لیے از سر نو کوششیں کیں اور کثیر سرمایہ خرچ کرنے کے بعد برطانیہ اور فرانس کے بعد دنیا کا تیسرا سب سے بڑا بحری بیڑا تشکیل دیا لیکن زوال پذیر معیشت ان بحری جہازوں کے بیڑے کو زیادہ عرصے برقرار نہ رکھ سکی۔ سلطنتِ عثمانیہ کی بحریہ اٹھارہویں صدی میں جمود کا شکار ہو گئی تھی۔ اس صدی میں جہاں اس بحریہ نے بہت سی کامیابیاں حاصل کیں وہیں اسے بہت سی شکستیں بھی ہوئیں۔ 

انیسویں صدی میں عثمانی بحریہ کا زوال شروع ہوا۔ تاہم یہ سرگرم رہی۔ جنگ عظیم اول میں عثمانی بحریہ نے اکتوبر 1914ء میں بحیرہ اسود میں روسی ساحل پر اچانک حملہ کیا۔ اس کے بعد نومبر میں روس اور اس کے اتحادیوں برطانیہ اور فرانس نے باقاعدہ جنگ شروع کردی۔ جنگ عظیم اول میں عثمانی بحریہ خاصی سرگرم رہی۔جدید ترکی کے قیام کے بعد بحریہ کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا۔ 

عثمانی بحریہ کا امیر قپودان پاشا (کپتان پاشا) کہلاتا تھا۔ ان میں معروف نام خیر الدین باربروسا، پیری رئیس، حسن پاشا، پیالے پاشا، طرغت پاشا اور سیدی علی عثمانی ہیں۔ 

بحری فتوحات کے علاوہ ان کے علمی کارنامے بھی نمایاں ہیں۔ عثمانی ترکوں کی بحری طاقت میں اضافے کے ساتھ ساتھ امیر البحر کی اہمیت بھی دو چند ہو گئی اور باربروسا کے زمانے میں کپتان پاشا دیوان کا باقاعدہ رکن بن گیا۔ 

عہدے کے اعتبار سے وہ امیر العساکر کے مساوی اور شیخ الاسلام کے ماتحت سمجھا جاتا تھا۔

۔ ۔ ۔
#shefro