Translate

Showing posts with label #Pakistan. Show all posts
Showing posts with label #Pakistan. Show all posts

Wednesday, June 5, 2019

رکودک "Reko Diq" ء "$100 ارب امریکی ڈالرکےذخائر" 💯

پاکستانی بلوچستان میں ضلع چاغی کے علاقے میں ایران و افغانستان کی سرحدوں سے نزدیک ایک علاقہ ہے جہاں دنیا کے عظیم ترین سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں۔ مقامی زبان میں رکودک کا مطلب ہے ریت سے بھری چوٹی۔ یہاں کسی زمانے میں آتش فشاں پہاڑ موجود تھے جو اب خاموش ہیں۔ اس ریت سے بھرے پہاڑ اور ٹیلوں کے 70 مربع کلومیٹر علاقے میں 12 ملین ٹن تانبے اور 21 ملین اونس سونے کے ذخائر موجود ہیں۔ تانبے کے یہ ذخائر چلی کے مشہور ذخائر سے بھی زیادہ ہیں۔ حال ہی میں پاکستانی بلوچستان میں غیر ملکی قوتوں کی مداخلت کی ایک وجہ یہ علاقہ بھی بتایا جاتا ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق سونے کی ذخائر کی مالیت 100 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔ اس کان کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بیک وقت دنیا کی سب سے بڑی سونا نکالنے والی شراکت اور دنیا کی سب سے بڑی تانبا نکالنے کی شراکت دونوں کام کر رہی ہیں جس سے اس علاقے کی اہمیت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق ان عظیم ذخائر کو کوڑیوں کے بھاؤ غیر ملکی شراکتوں کو بیچا گیا ہے۔

اس میں کچھ کانکنی بھی ہو چکی ہے جو اخبارات و جرائد میں پاکستانی حکومت کی ناعاقبت اندیشی اور کمیشن کھانے کی مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ یہی اخبارات و جرائد اسے بلوچستان میں امریکی مداخلت کی وجہ بھی بتاتے ہیں۔ موجودہ کانوں کا جو ٹھیکا دیا گیا ہے اس میں بلوچستان کی حکومت کا حصہ 25 فی صد، انتوفاگاستا (Antofagasta plc ) کا حصہ 37 اعشاریہ 5 فی صد اور بیرک گولڈ (Barrick Gold) کا حصہ 37 اعشاریہ 5 فی صد ہے۔ لیکن حکومت بلوچستان کو یہ حصہ اس صورت میں ملے گا اگر وہ ان کانوں میں 25 فی صد سرمایہ کاری کرے۔ یعنی اصل میں بلوچستان کی زمین اور وسائل استعمال کرنے کے لیے بلوچستان یا حکومت پاکستان کو کوئی ادائیگی نہیں ہو رہی۔ انتوفاگاستا (Antofagasta plc ) چلی کی ایک شراکت ہے لیکن اس میں بنیادی حصص برطانوی لوگوں کے ہیں کیونکہ اس شراکت نے 1888 میں برطانیہ میں جنم لیا تھا۔ دوسری شراکت بیرک گولڈ (Barrick Gold) دنیا کی سب سے بڑی سونا نکالنے کی شراکت ہے جس کا صدر دفتر کینیڈا میں ہے مگر یہ اصلاً ایک امریکی شراکت ہے۔ اس کے دفتر امریکا، آسٹریلیا وغیرہ میں ہیں۔ اولاً کانکنی کے حقوق ایک آسٹریلوی شراکت ٹیتیان (Tethyan) کو دیے گئے تھے جس کا اپنا اندازہ تھا کہ ہر سال 500 ملین پاؤنڈ تانبا نکالا جا سکے گا۔ بعد میں اوپر دی گئی شراکتوں نے یہ حقوق لے لیے۔ واضح رہے کہ ٹیتیان (Tethyan) انہی دو شراکتوں نے مل کر بنائی تھی جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ سونے کا ذکر تک نہیں ہوا اور بعض ذرائع کے مطابق تابنے کی آڑ میں سونا بھی نکالا جاتا رہا اور ہر 28 گرام سونے کے لیے 79 ٹن کے ضائع زہریلے اجزاء بشمول آرسینک زمین میں دفن ہوتے رہے جو ادھر کے ماحول کو خراب اور زیر زمین پانی اور کاریزوں کو زہریلا کرتے رہے۔

زیادہ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسے تانبے کی کان کے نام سے مشہور کیا گیا ہے تاکہ سونا نکالنے پر پردہ پوشی کی جاسکے۔ جولائی 2009ء میں بیرک گولڈ اور انتوفاگاستا نے اس علاقہ میں مزید تلاش کے لیے تین ارب امریکی ڈالر کی مزید سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ جنوری 2011ء میں ثمر مبارک مند نے عدالت اعظمی کو بتایا کہ ملک کانوں سے خود سونا اور تانبا نکال کر دو بلین ڈالر سالانہ حاصل کر سکتا ہے۔ غیر ملکی کمپنی دھاتوں کو خستہ حالت میں ہی ملک سے باہر لے جانا چاہتی ہے۔ مبصرین کے مطابق چلی اور کینیڈا کی کمپنی پاکستانی حکمرانوں کو رشوت دے کر ذخائر کوڑیوں کے بھاؤ حاصل کر رہی ہے۔
بلوچستان کی موجودہ صورتحال کا اندازہ آپ خود ان باتوں سے لگاسکتے ہیں، کہ امریکی بحری بیڑے کی ہمارے سمندر میں موجودگی، امریکہ اور ایران کی موجودہ کشیدگی اور انڈیا کی جانب سے حالیہ بلوچستان میں دہشدگردی کی اصل وجوہات کیا ہیں۔ 
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے ملک کو نظر بد سے بچاےٗ۔ اور ہمارے حکمرانوں کو عقل سلیم عطاء کرے۔ آمین

یہ اہم معلومات میں اپنے ایک دوست کے فرمائش پر شئیر کررہا ہوں
----
#shefro





Sunday, May 26, 2019

پاکستان_اور_روس "🌎

پاکستان کا روس کے ساتھ 9 ارب ڈالرز کا دفاعی معاہدہ کرنے کا فیصلہ !!
۔ ۔ ۔

معاہدے کے تحت پاکستان روس سے جنگی طیارے، ہیلی کاپٹرز، ائیرڈیفنس میزائل سسٹم، ٹینک اور جنگی بحری جہاز خریدے گا۔ پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات میں موجود سرد مہری گزشتہ کچھ برسوں کے دوران بہت حد تک ختم ہو چکی ہے۔

پاکستان اور امریکا کے درمیان بگڑتے ہوئے تعلقات، جبکہ امریکا اور بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کے باعث روس اور پاکستان نے ایک دوسرے سے تعلقات میں واضح بہتری لائی ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران پاکستان نے امریکا پر اپنی دفاعی ضروریات کیلئے انحصار کم کیا ہے۔ پاکستان نے 10 سال کے عرصے کے دوران سب سے زیادہ ہتھیار چین سے خریدے ہیں۔

پاکستان نے 2008 سے 2018 کے درمیان چین سے 6 ارب ڈالرز سے زائد کے ہتھیار خریدے ہیں۔ جبکہ پاکستان نے روس سے بھی جدید جنگی ہیلی کاپٹرز سمیت دیگر کچھ ہتھیار خریدے ہیں۔ اب روسی خبر رساں ایجنسی کا دعویٰ ہے کہ پاکستان روس سے اربوں ڈالرز کا دفاعی معاہدہ کرنے کا خواہاں ہے۔ روس بھی پاکستان کے ساتھ دفاعی تعلقات کو مزید فروغ دینا چاہتا ہے۔ روسی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان روس سے 9 ارب ڈالرز تک کا دفاعی معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔

پاکستان روس سے 9 ارب ڈالرز کے عوض جنگی طیارے، ہیلی کاپٹرز، ائیرڈیفنس میزائل سسٹم، ٹینک اور جنگی بحری جہاز خریدنے کا خواہاں ہے۔ جبکہ روس بھی پاکستان کے ساتھ اس دفاعی معاہدے کی تکمیل کا خواہاں ہے۔

اگر واقعی پاکستان اور روس مذکورہ دفاعی معاہدے کو حتمی شکل دینے میں کامیاب ہو گئے، تو یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اور اہم ترین دفاعی معاہدہ ہو گا۔ 

تاہم پاکستان کو اس معاہدے کی تکمیل کے سلسلے میں امریکا کی شدید مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

۔ ۔ ۔
#shefro

Thursday, May 23, 2019

وادئ_تیراہ "Tirah" ✂

خیبر ایجنسی کے علاقے وادی تیراہ میں پہلا فوجی آپریشن 1897 میں ہوا تھا۔
۔ ۔

رائل برٹش آرمی کے پانچویں سکھ بٹالین کے جوانوں نے برطانوی افسروں اور ہندوستانی سپایوں کے ہمرا مردان چھاونی سے نکل کر تیراہ ویلی پر حملہ کیا۔ 
یہ آپریشن اگلے سولہ سال تک جاری رہا۔ جسمیں رائل انڈین آرمی کا بہت زیادہ جانی نقصان ہوا۔ اس جنگ میں مرنے والے ہندوستانی سپائیوں کا تو تاریخ میں کوئی خاص تذکرہ موجود نہیں تاہم انگریز آفیسرز کی بہت سی یادگارین برطانیہ اور ہندوستان میں تعمیر کی گئیں تھیں۔ 

زیر نظر تصاویر “لندن کے علاقے بون سکویر آکسفوڈ میں تعمیر کی جانے والی یادگار کی ہیں۔ 

۔Tirah Memorial in Bonn Square, Oxford
۔ ۔ ۔
#shefro


سیندک "Saindak"

بلوچستان کا "سونا" مقامی آبادی کی زندگی بدلنے میں مددگار کیوں نہیں؟
۔ ۔
پاکستان اور ایران کی سرحد پر واقع قصبے تفتان کی حدود شروع سے کچھ پہلے انگریزی اور چینی زبان پر آسمانی رنگ کا ایک بورڈ آویزاں ہے، جس پر تحریر ہے کہ ’ویلکم ٹو سیندک پراجیکٹ‘ لیکن یہ خیرمقدم ہر شہری کے لیے نہیں بلکہ کچھ لوگوں کے لیے ہے۔

اس پراسرار جگہ پر سونے اور چاندی کے ذخائر ہیں مگر یہ معدنیات کیسے نکالی جاتی ہیں، کہاں فروخت ہوتی ہیں اور کیا منافع ہوتا ہے یہ ایک راز ہے جو چند سینوں یا پھر بعض دستاویزات میں موجود ہے۔

بلوچستان کے علاقے سیندک کی سونے کی کانوں کے ملازمین بھی انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

• سیندک کیا ہے.؟
سیندک بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ہے۔ "سیائن دک" بلوچی زبان میں "سیاہ پہاڑی" کو کہا جاتا ہے۔

اس منصوبے کا آغاز 1990 میں ہوا تھا، جس میں چینی کمپنی کو کان کی کھدائی، دھات کی صفائی کے کارخانے، بجلی، پانی کی فراہمی اور رہائشی کالونی کی تعمیر کی ذمہ داری دی گئی۔

1995 میں سیندک کا آزمائشی آپریشن شروع کیا گیا اور 1500 میٹرک ٹن تانبے اور سونے کی پیداوار کی گئی جبکہ اگلے ہی سال تیکنیکی اور مالی وجوہات کی بنا پر اس منصوبے کا آپریشن معطل کردیا گیا جس کے بعد 2003 سے دوبارہ آپریشن بحال ہوا۔

یہاں کان کنی اور صفائی و پیداوار کا کام چینی کمپنی ایم آر ڈی ایل کے پاس ہے۔

• 24 گھنٹے کام جاری رہتا ہے !
سیندک میں اس وقت مغربی کان میں کھدائی مکمل ہو چکی ہے جبکہ مشرقی اور شمالی کانوں سے خام مال حاصل کیا جارہا ہے۔ یہ کام 24 گھنٹے بغیر کسی وقفے کے جاری رہتا ہے۔

10 ڈمپر 80 سے 90 ٹن خام مال کو سیمولیٹر کے پاس ذخیرہ کرتے ہیں جہاں سے یہ ریت بن کر دوسرے سیکشن میں جاتا ہے، وہاں سے مختلف رولرز سے گزار کر پانی اور کیمیکل سے اس کو پراسیس کیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ بھٹی میں پہنچتا ہے جہاں اس کے بلاک بنائے جاتے ہیں۔

سات برس تک اس منصوبے میں بطور کاسٹنگ آپریٹر کام کرنے والے احمد یار کا کہنا ہے کہ چوبیس گھنٹوں میں تین کاسٹنگ ہوتی تھیں اور ہر کاسٹنگ میں 44 سے 52 بلاکس بنتے تھے جن کا وزن پانچ سو کلوگرام سے سات سو کلوگرام ہوتا تھا۔

• سیندک سے ملازم خوش کیوں نہیں!
علی احمد خان نے 2003 سے 2008 تک سیندک میں ملازمت کی اس کے بعد ملازمت چھوڑ دی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہاں تنخواہ بہت کم تھی، چینی کمپنی بین الاقوامی کمپنی ہے لیکن ملازمین کو 80 سے لے کر 120 ڈالر ماہانہ تنخواہ دی جاتی تھی جس وجہ سے ملازم طبقہ بدحال ہے۔

احمد یار نے 2003 سے 2010 تک سمیولیٹر سیکشن میں بطور کاسٹنگ آپریٹر کام کیا۔ ان کے مطابق وہاں ملازمت کانٹریکٹ پر ہوتی ہے، جب سال پورا ہوتا ہے تو پھر اس میں توسیع کردی جاتی ہے اگر کسی ملازم کا کوئی مسئلہ اٹھے تو بغیر اس کا موقف جانے بات سنے اسے فارغ کردیا جاتا ہے۔

’یونین سازی کی اجازت نہیں اگر کوئی آواز اٹھاتا ہے تو اسے ملازمت سے فارغ کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھائی تم تو لیڈر بن گئے ہو۔‘

ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ’جو ملازم دیہاڑی دار ہیں انھیں چار ماہ کی مسلسل ملازمت کے بعد چھٹی ملتی ہے۔ ماسک اور شوز وغیرہ ہوتے ہیں جو ماسک دیے جاتے ہیں وہ گیس ماسک نہیں بلکہ ڈسٹ ماسک ہوتے ہیں جبکہ سلفر گیس کی بو شدید آتی ہے۔ حادثے میں اگر کوئی ملازم مر جائے تو کوئی انشورنس نہیں۔‘

• سیندک اور مقامی ترقی!
سیندک ممنوعہ علاقہ ہے، مرکزی سڑک سے لے کر منصوبے تک ایف سی، لیویز اور پولیس کی درجن کے قریب چوکیاں قائم ہیں۔ اس علاقے میں چار گاؤں بھی واقع ہیں جن کے رہائشی لوگوں کو خصوصی پاس جاری کیے گئے ہیں جن کی مدد سے انھیں آمدورفت کی اجازت ہے۔

ایف سی کی ہر چوکی گاؤں کے داخلی راستے پر بھی موجود ہے۔ ان گاؤں کے لوگوں کے لیے ایک ہائی سکول اور ہسپتال کی سہولت فراہم کی گئی ہے لیکن حاملہ خواتین شہر کے ہسپتال جاتی ہیں۔

سیندک کے متصل گاؤں کی سڑکیں آج بھی کچی ہیں جبکہ بچے کھلے پتھریلے میدان میں کھیلتے ہیں۔ کوئی گراؤنڈ موجود نہیں۔ کمپنی نے دو دیہات کو بجلی فراہم کی تھی جبکہ دو اس سے محروم رہے بعد میں انھیں سولر پلیٹس لگا کر دی گئیں۔

سیندک کے آس پاس تافتان، نوکنڈی اور ضلعی ہیڈکوارٹر دالبندین واقع ہیں۔ مقامی لوگوں کو پانی کی سہولت فراہم کرنے کے لیے ایک پائپ لائن بچھائی گئی ہے لیکن یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکا۔

پانی صرف چند کلومیٹر تک پہنچ پاتا ہے جبکہ بجلی کی عدم فراہمی اور موٹروں کی فنی خرابی کے باعث مقررہ مقامات پر پانی نہیں پہنچ سکا۔

حالیہ بارشوں سے قبل چاغی بلوچستان میں قحط سالی سے شدید متاثرہ علاقے میں شامل تھا، جہاں مال مویشی کی بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں جبکہ خواتین اور بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔

دالبندین کے ایک مقامی سماجی کارکن ظفر خان کا کہنا ہے کہ مقامی ترقی میں سیندک کا کوئی کردار نہیں۔ ’ہاں اس منصوبے سے فائدہ یقیناً پہنچا ہے، ایک چینی کمپنی کو اور دوسرا وفاقی حکومت کو۔ باقی چاغی کے عوام اور بلوچستان کو کچھ نہیں ملا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’بیشک انہوں نے ہمارے چوکیدار اور مالی وغیرہ رکھے ہیں، جنھیں دس ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہے جبکہ صوبائی حکومت نے کم از کم اجرت 14 ہزار مقرر کی ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔‘

پوزیشن ہولڈرز کے لیے بھی ملازمت نہیں جبکہ سیندک منصوبے کی بحالی 2003 میں ہوئی۔

تقریباً دس سال کے بعد دالبندین میں وفاقی حکومت نے ٹیکنیکل کالج قائم کرنے کا اعلان کیا اور یہ کالج 2017 میں فعال ہوا یہاں ویلڈنگ اور وائرنگ سمیت 6 ماہ کے شارٹ کورسز کرائے جاتے ہیں۔
اب تک یہاں سے دو بیچ فارغ ہوچکے ہیں لیکن اس تربیت نے بھی سیندک میں ان کے لیے روزگار کے دروازے نہیں کھولے۔

کالج کے پرنسپل عالم خان کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سامنے یہ بات رکھی ہے کہ جو ٹاپ ہولڈر ہیں انھیں تو ملازمت فراہم کی جائے انھوں نے کہا کہ وہ چینی کمپنی سے بات کریں گے۔

• بلوچستان اور وفاق کا تنازع!
پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں آغاز حقوق بلوچستان پیکیج کے تحت سیندک منصوبہ بلوچستان کو دیا گیا تھا اور قرار دیا گیا کہ اگر بلوچستان اس کا کنٹرول حاصل کر لیتا ہےتو اسے منافعے میں سے 35 فیصد حصہ ملے گا، لیکن وفاقی حکومت نے اس منصوبے پر ہونے والی سرمایہ کاری کی واپسی کا مطالبہ کر دیا جو 27 ارب روپے بتائی جاتی ہے۔

سابق وزیرِاعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ کا کہنا ہے کہ انھوں نے میاں نواز شریف کی حکومت کو کہا تھا کہ وفاق کا وعدہ ہے لیکن انھوں نے منصوبہ نہیں دیا جب معاہدے کی مدت پوری ہوئی تو انہوں نے کہا کہ آپ اس کی توسیع کریں تو میں نے انکار کر دیا۔
’پچاس فیصد چین لے جائے، 48 فیصد وفاقی حکومت لے، باقی بلوچستان کو صرف 2 فیصد رائلٹی ملے گی۔ لیکن بدقسمتی سے بلوچستان کی آنے والی حکومت نے معاہدے میں توسیع کر دی۔‘

• سیندک میٹل لمیٹڈ کا موقف!
حکومت پاکستان کی جانب سے سیندک میٹل لمیٹیڈ اس منصوبے کی نگرانی کرتی ہے۔ کمپنی کے ایک اعلیٰ اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ پروجیکٹ میں چینی کمپنی اور حکومت پاکستان کی نفع میں حصے داری پچاس، پچاس فیصد ہے، جبکہ بلوچستان حکومت کو پانچ فیصد رائلٹی دی جاتی ہے جبکہ ایم آر ڈی ایل نفع میں سے 5 فیصد کان کی بہتری کی مد میں ادا کرتی ہے۔

اہلکار کا کہنا ہے کہ 2016 کی پیدوار کے مطابق 14 ہزار 136 ٹن تانبا نکالا گیا جبکہ 11 ہزار 33 کلو گرام سے زائد سونا اور 1706 کلو گرام چاندی بھی نکلی۔

کمپنی کی مارچ 2019 کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی ملازمین کی تعداد 1659 تھی جن میں سے 125 ڈیلی ویجز پر جبکہ 1634 کانٹریکٹ ملازم ہیں جن میں 75 فیصد کا تعلق بلوچستان سے ہے ان میں بھی اکثریت ضلع چاغی کی ہے۔ ان ملازمین کی کم از کم تنخواہ 150 ڈالر ماہانہ (21 ہزار روپے) جبکہ زیادہ سے زیادہ 1500 ڈالر ماہانہ ہے۔

سیندک میٹل لمیٹڈ نے ملازمین کی حفاظت اور مقامی ترقی کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات نہیں دیے، تاہم چینی کمپنی ایم آر ڈی ایل کے صدر خوشو پنگ نے حال ہی میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ بلوچستان کی معاشی و سماجی ترقی کے لیے ہر ممکن کردار ادا کر رہے ہیں۔

• عوام اور سیاست دانوں میں بےچینی!
سیندک منصوبے سے ملنے والی آمدنی سےبلوچستان کے سیاست دان اور عوام دونوں ناخوش ہیں۔
یہ بلوچستان کے سیاسی بیانیے کا ایک بنیادی حصہ ہے۔ سینیٹ سے لے کر صوبائی اسمبلی کے اندر اور باہر اس منصوبے پر بات کی جاتی ہے۔

پاکستان کے آئین کے مطابق معدنیات پر صوبے کا حق ہے، بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن ثنا بلوچ کی درخواست پر بلوچستان اسمبلی نے کمیٹی بھی تشکیل دی ہے جو اس حوالے سے سفارشات پیش کرے گی، جبکہ بلوچستان ہائی کورٹ میں بھی ایک درخواست زیر سماعت ہے۔

۔ ۔ ۔
#shefro






Wednesday, May 22, 2019

غداران_پاکستان " 🎃

""خیبر پختون خواہ"" 
۔ ۔ ۔ 

آج اس بندہ ناچیز نے کے پی کے کے غداران کے بارے میں لکھنے کی جسارت کی ہے۔ غدار کا کسی قوم، دین یا وطن سے تعلق نہیں ہوتا اور نہ ہی اس غدار کی وجہ اس علاقے کو غدار کہنا مناسب ہوتا ہے۔ قبائلی یعنی کہ کے پی کے کے پختون بھائی میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے سب سے بڑے وفادار اور محب وطن لوگ ہیں۔

غدار پہلے پہل تو منفاقانہ طرز عمل اختیار کرتا ہےاور خود کو اپنی قوم یا وطن کا بہت بڑا خیر خواہ ثابت کرتا ہے لیکن جیسے جیسے اس کو اپنے جیسے لوگ اور غدار ملتے جاتے ہیں تو پھر وہ اپنی اصل اوقات پر اتر آتا ہے۔
ایسا ہی ایک کردار شمال مغربی سرحدی صوبہ موجودہ خیبر پختون خواہ کا ایک کردار عبدالغفار خان المعروف باچا خان ہے۔

آج اس تحری کی وجہ سے ہو سکتا ہے کچھ لوگ میری مخالفت بھی کریں لیکن میں ساتھ تصاویر بھی اپلوڈ کروں گا کہ کوئی شک باقی نہ رہے۔

باچا خان کا پورا نام عبدالغفار خان تھا۔ 6 فروری 1890 کو پیدا ہوا اور 20 جنوری 1988 کو وفات ہوئی۔ اور افغانستان کے شہر جلال آباد میں دفن ہوا۔
باچا خان کو سرحدی گاندھی بھی کہا جاتا تھا۔ جیسے کے نام سے ظاہر ہے کہ وہ گاندھی کا بہت بڑا مداح اور دوست تھا۔ 
انڈین نیشنل کانگریس سے اس کا 1947 تک یارانہ رہا اور مسلم لیگ سے مخالفت۔ باچا خان ان مسلمان راہنماؤں میں سے تھے جو ناصرف تقسیم ہند کے مخالف تھے بلکہ پاکستان کی مخالفت میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہونے کے مصداق ہندوؤں اور کانگریس سے بھی دس قدم آگے تھے۔ پہلے پہل تو باچا خان نے برطانوی فوج میں شمولیت اختیار کی پھر فوج چھوڑ کر پشتونوں کا نام نہاد راہنما بن کر خدائی خدمت گار کے نام سے ایک پارٹی بنائی۔ 1920 میں بگڑتے حالات کی وجہ سے کانگریس کے ساتھ الحاق کیا اور 1947 تک یہ الحاق قائم رہا۔

باچاخان خؤد کو پختون راہنما کہتا تھا لیکن درحقیقت وہ پختونوں کے پیچھے چھپ کر پاکستان کی مخالفت میں سرگرم عمل تھا۔ جب کانگریس نے بھی تقسیم ہند کا فارمولا قبول کر لیا تو اس نے کانگریس کی مخالفت کی اور گاندھی کو یہاں تک کہا کہ "ہمیں بھڑیوں کے آگے پھینک دیا تم لوگوں نے "یہاں بھڑیوں سے مراد قائد اعظم ،مسلم لیگ اور پاکستان تھے۔ کیوںکہ اپنی کی گئی مخالفت سب نظر کے سامنے تھی تو اپنا انجام بھی نظر آرہا تھا۔

جب کانگریس نے نقیسم ہند کا فارمولا قبول کر لیا تو اس نے پاکستان کے ساتھ رہنے سے انکار کر دیا اور بنوں میں اپنے جیسے نام نہاد اور مفاد پرست لوگوں کا ایک جمگھٹا اکٹھا کیا اور بنوں ریزولیشن کے نام سے ایک قراداد منظور کی جسمیں پاکستان یا بھارت کے ساتھ ریفرنڈم کا بائیکاٹ (بھارت کا نام سرسری ہی تھا کیوںکہ سرحدی صوبے کا بھارت کے ساتھ الحاق ناممکن ہی تھا اصل دشمنی پاکستان سے تھی) افغانستان کے ساتھ الحاق یا آزاد پشتونستان کے نام سے الگ ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا۔ لیکن انگریز نے افغانستان کے ساتھ الحاق یا آزاد پشتونستان کا مطالبہ مسترد کر دیا (انگریز پاکستان کا خیر خواہ تو تھا نہیں بس جاتے جاتے پاکستان میں شورش چھوڑ کر جانا چاہتا تھا جو مسئلہ کشمیر اور پشتونستان کی شکل میں چھوڑ گیا) لیکن جب انگریز نے ان مطالبات کو خارج از مکان کر دیا تو باچا خان اور اسکے چھوٹے بھائی ڈاکٹر خان صاحب نے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کر دیا۔۔ 

لیکن غیور اور محب وطن قبائلی مسلمانوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالا۔اور اس کو منہ کی کھانی پڑی۔1967 میں جواہر لال نہرو اور 1987 میں بھارتی شہری نہ ہونے کے باوجود اس کو "بھارت رتنا ایوارڈ" سے نوازا گیا جو بھارت کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ہے۔ پاکستان کے وجود کا انکاری،شمولیت پاکستان کا مخالف،افغانستان کے ساتھ شمولیت کا داعی اور آزاد پشتونستان کا طالب اور قائد اعظم کا مخالف ہونے کی وجہ سے اسے بھارتی عظیم ایوارڈ سے نوازا گیا جس سے آپ اسکی غداری کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔  کہنے کو تو وہ قوم پرست تھا لیکن اصل میں قوم پرستی کی آڑ میں پاکستان کا مخالف تھا۔ جب آخری وقت قریب آیا تو اس نے وصیت کی کہ مجھے افغانستان میں دفن کیا جائے، بغض پاکستان اور دشمنی میں اتنا آگے تھا کہ پاکستان میں دفن ہونا پسند نہ کیا اور 1988ء میں جب فوت ہوا تو اس کی میت کو افغانستان لے جایا گیا تب سویت یونین افغان جنگ لڑ رہا تھا لیکن تب روس نے جنگ روک دی اور جنازے کا موقع دیا۔ روس کا حوالہ کیوں دیا یہ آگے جا کر بتاؤں گا۔

اس کی اولاد میں سے عبدالولی خان نے عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے اس کی قوم پرستی کی ذہنیت کو آگے بڑھایا۔ 1986 میں پارٹی کی بنیاد رکھی۔ نیشنل عوامی پارٹی سے اختلاف کے بعد نام بدل کر عومی نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی۔ اگرآپ عومی نیشنل پارٹی کا جھنڈا دیکھیں تو وہ سرخ ہے۔ اسمیں سرخ ہونے کی بھی ایک الگ داستان ہے۔ سویت یونین کو سرخ ریچھ بھی کہا جاتا تھا جو کہ سوشلزم کی پہچان رکھتا تھا۔ یہ پارٹی کہنے کو تو قوم پرست تھی لیکن سوشلزم کا پرچار کرتی نظر آتی ہے۔ سویت یونین کا افغانستان آنے کا مقصد پاکستان کے گرم پانیوں تک رسائی تھی افغانستان تو بہانہ تھا پاکستان نشانہ تھا۔ 

افغانستان کو فتح کر کے پاکستان پر حملہ کرنے کی تیاری تھی۔ تو اپنے حامی جو کہ اسے پہلے ہی غدار کے روپ میں نظر آگئے تھے باچا خان کے سپوت عبدالولی خان کو چنا اور عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے اپنی ہم پلہ اور ہم خیال جماعت بناوا دی۔ یہ سرخیے اس وقت بھی یہ کہتے ہوتے تھے کہ بس اب جلد ہی پاکستان پر روس قبضہ کر لے گا۔ یہ درحقیقت روس کے زیر سایہ پاکستان پر حکومت کے خواب دیکھتے تھے۔ لیکن وہ الگ داستان ہے کہ دفاع وطن کی آخری لکیر آئی ایس آئی اور محترم جنرل ضیاءالحق شہید نے کیسے سویت یونین کو شکست فاش دی اور سویت یونین کے ٹکرے ٹکرے کر کے ان کے پاکستان پر روس کے قبضے اور ان کی حکومت کے خواب کو چکنا چور کر دیا۔ 

روس کے ٹکرے ہونے کے بعد افغانستان سے اپنے چیتھڑے لے کر چلے جانے سے اے این پی کی بھی موت واقع ہو گئی اور پاور میں آنے کا خواب خواب ہی رہ گیا۔ بعد میں نعرے میں تھوڑی سی تبدیلی کر کے 2008 سے 2013 میں سرحد اسمبلی میں حکومت کی اور پھر اس کے بعد تحریک انصاف کے حکومت میں آںے سے ان کی تقریبا اسمبلی میں موجودگی محدود ہی رہ گئی۔

اگر عوامی نیشنل پارٹی کے نظریے کو دیکھیں تو سوشل ازم، لبرل ازم اور قوم پرستی صاف دکھائی دیتی ہے۔ سوشل ازم سے انکی سویت یونین سے قربتوں کا اندازہ ہو جاتا ہے، لبرل ازم سے اس پارٹی کے آزاد خیال معاشرے کا قیام ان کی اولین ترجیح ہے جب کہ قوم پرستی اپنے باپ باچا خان کی طرح صرف ایک دکھاوا اور بہانہ ہے اور ویسے بھی قوم پرستی وطن کے لیے بہت بری چیز ہوتی ہے جو بہت نقصان پہنچاتی ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی کالا باغ حقائق آپ کے سامنے رکھے گئے ہیں اب ان کو سمجھنا اور رائے قائم کرنا آپکی ذمہ داری ہے۔

۔ ۔ ۔
#shefro




قیام_پاکستان_اور_اکھنڈ_بھارت

بس تیزی سے براس کی جانب بڑھ رہی تھی، یہ ایک قصبہ ہے جو ایک ٹیلے پر واقع ہے۔ جب ہم یہاں پہنچے تو مٹی کے بَنے ہوئے گھروں میں سے بے شمار بچے اچانک نکلے اور ہماری بس کے گرد جمع ہو گئے۔ 

اس گاؤں میں زیادہ تعداد سکھوں کی تھی چنانچہ ننھے منھے بچوں نے سَروں پر چونڈے کیئے ہوئے تھے اور وہ بہت پیارے لَگ رہے تھے۔ زائرین بسوں میں سے اور قدرے بلندی پر واقع اس چار دیواری میں داخل ہوگئے جہاں ایک روایت کے مطابق انبیاء کرام مدفون ہیں۔ یہاں کئی کئی گز لمبی دو تین قبریں ہیں سب نے وہاں تلاوت قرآن مجید کی اور دعا مانگی۔ 

ہم ڈھلان کی طرف واپس جا ہی رہے تھے کہ ایک دبلا پَتلا سا ہندو ہمارے وفد کے قائد جسٹس صدیق چوہدری کے پاس آیا اور اُن کے کان میں کچھ کہا اور پھر وہ ہندو زائین کے آگے آگے چلنے لگا، جسٹس صاحب نے ہمیں بتایا کہ کہ یہ ہندو انہیں بتا کر گیا ہے کہ سکھوں نے اس گاؤں میں بہت وسیع پیمانے پر مسلمانوں کا خون بہایا تھا۔ انہوں نے سینکڑوں مسلمان عورتوں کی عصمت دری کی تھی، بے شمار مسلمان عورتوں کو انہوں نے اپنے گھروں میں قید کرلیا تھا جو آج بھی انہیی گھروں میں بند ہیں اور ان کے بچوں کی مائیں ہیں۔ 
نیز یہ کہ سینکڑوں مسلمان لڑکیوں نے اپنی عزت بچانے کیلیئے کنوؤں میں چھلانگ لگا دی تھی اور یہ کنویں انکی لاشوں سے پٹ گئے تھے۔ ان میں سے تین کنویں اسکے علم میں ہیں اور وہ انکی نشاندہی کرنا چاہتا ہے۔ 

یہ خبر آگ کی طرح زائرین میں پھیل گئی اور وہ تیز تیز قدم اُٹھاتے اس شخص کے پیچھے چلنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد وہ ائک ہموار جگہ پر رُک گیا جہاں خود رو پھول لہرا رہے تھے ان پھولوں کے نیچے وہ کنوں تھا جو بند ہو چکا تھا اور یہاں مسلمان لڑکیا دفن تھیں۔ یہاں فاتحہ خوانی کے بعد وہ ہمیں ایک مکان پر لے گیا جسکے کنارے پر ایک اور کنواں تھا، وہ بی بند کیا جا چکا تھا۔ وہاں بھی فاتحہ خوانی کی گئی۔ تیسرا کنواں ہت سارے گھروں کے درمیان میں واقع تھا اور یہ اپنی اصلی شکل میں موجود تھا۔ اسے بند نہیں کیا گیا تھا لیکن لاشوں سے پٹ جانے کی وجہ سے چونکہ اسکا پانی پینے کے قابل نہیں رہا تھا لہذا اب اُس میں کوڑا کرکٹ ڈالا جاتا تھا۔ 

یہاں تک پہنچتے پہنچتے ضبط کے سبھی بندھن ٹوٹ چکے تھے۔ غم کی شدت سے زائرین کے کلیجے شق تھےاور آنکھیں ساون کی طرح برس رہی تھیں۔ خود مجھے یوں لگا میں 1977 کی بجائے 1947 میں سانس لے رہا ہوں۔ 
میں نے چشمِ تصور میں دیکھا کہ جوان مَردوں اور بوڑھی عورتوں کی لاشوں سے یہ میدان اُٹا پڑا ہے اور وحشی درندے شراب کے نشے میں دھت بھیانک قہقہے لگاتے ہوئے بچیوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور وہ اپنے والدین اور عزیز و اقرباء کی لاشوں کو پھلانگتی ہوئی اُس کنویں کے پاس آتی ہیں اور ایک ایک کرکے اُس میں چھلانگ لگا دیتی ہیں۔ یہ کنواں لاشوں سے بھر گیا ہے اور اس کا پانی کناروں سے بہنے لگا ہے اور پھر یہ بہتا ہوا پانی فریاد کیلیئے اُس چار دیواری کے پاس جمع ہو گیا ہے جہاں انبیاء کے مزار ہیں۔

یہاں وفد میں شامل ایک باریش بزرگ نے دعا کیلیئے ہاتھ اُٹھائے اور پھر جوں جوں ان کی ہچکیوں بھری آواز بلند ہوتی گئی زائرین کی آہ و بکا میں شدت آتی گئی اور پھر روتے روتے گلے رندھ گئے۔ بھائی تیس برس کے بعد اپنی بہنوں کی خبر لینے آئے تھے اور پل بھر کے بعد انہوں نے پھر سے جدا ہو جانا تھا۔

دعا سے فراغت کے بعد سندھ یونیورسٹی کے ایک نوجوان نے مجھ سے کہا : 
"یہاں آنے سے پہلے میں اکھنڈ بھارت کا قائل تھا اور سمجھتا تھا کہ دو قومی نظریہ غلط ہے۔ میری یہ گزارش ہے کہ آپُ واپس جائیں تو یہ تجویز پیش کریں کہ جو لوگ اپنے دلوں میں پاکستان کے حوالے سے کچھ شکوک و شبہات رکھتے ہیں انہیں یہاں لا کر یہ کنویں دکھائے جائیں۔ یہ خونچکاں منظر نئی نسل کے ان افراد کو خصوصاً دکھائے جائیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان تاریخی عوامل کے بغیر بنا تھا۔ یہ کنویں ان بد نیت دانشوروں کو بھی دکھائے جائیں جو پاکستانی قوم کیلیئے یہ کنویں دوبارہ کھودنا چاہتے ہیں۔

واپسی پر ہندو اور سکھ بچے ہماری بسوں کے گرد جمع ہو گئے اور معصوم نگاہوں سے ہمارے مغموم چہرے دیکھنے لگے۔ میں نے ان میں سے تین چار سال کے ایک پیارے سے بچے کو اٹھایا اور اس کے گالوں پر بوسہ دیتے ہوئے کہا "بیٹے تم تو معصوم ہو، یہ کنویں بھی معصوم لوگوں کی لاشوں سے اَٹے پڑے ہیں۔ اگر تاریک طوفانی راتوں میں تم ان کنوؤں سے چیخیں سنو تو اُن پر کان ضرور دھرنا۔ ہم یہ امانتیں تمہارے بڑوں کے بجائے تمہارے سپرد کر رہے ہیں کہ بچے اس دنیا میں خدا کے سفیر ہوتے ہیں۔

عطاء الحق قاسمی کی کتاب "ہنوز دلی دور است" سے اقتباس))

۔ ۔ ۔
#shefro

Saturday, May 18, 2019

کم_عمر_ترین_چارٹرڈ_اکاؤنٹنٹ "🚼

شہید بینظیر آباد (سکرنڈ) سے تعلق رکھنے والی "اقصٰی مجید میمن" نے کم عمر ترین چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بن کر ورلڈ ریکارڈ بنا ڈالا۔

18 سال 4 ماہ میں ACCA چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کا امتحان پاس کرنےوالی اقصٰی سے پہلے, یہ ریکارڈ بھارت کے ایک لڑکےکے پاس تھا جس کی عمر 18سال9 ماہ تھی۔

۔ ۔ ۔
#shefro

Thursday, May 16, 2019

کتے_کی_دُم 🎥

امریکا بھارت کو آبدوز_شکن ہیلی کاپٹر بیچنے پر تیار!! 😂
۔ ۔ ۔

امریکا نے بھارت کو 24 آبدوز شکن ہیلی کاپٹروں کی فروخت کی منظوری دے دی۔

بھارت نے گزشتہ سال ان ہیلی کاپٹروں کی خریدنے کی درخواست کی تھی جس کو امریکا نے فٹا فٹ منظور کر لیا ہے۔ جبکہ خبر ایجنسی کے مطابق ایم ایچ 60 آر ہیلی کاپٹروں کی مالیت تین کھرب 65 کروڑ روپے ہے۔

امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن کا تیارکردہ یہ ہیلی کاپٹر آبدوزوں کو نشانہ بنانے کے علاوہ بحری جہازوں کو ناک آؤٹ کرنے، سرچ اور ریسکیو آپریشنز میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جبکہ بھارت انھیں برطانوی ساختہ سی کنگ ہیلی کاپٹروں کی جگہ استعمال کرے گا۔

امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ مجوزہ فروخت امریکی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی میں مدد دے گی، اس سے امریکا بھارت اسٹریٹجک تعلقات کو مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہیلی کاپٹروں کی فروخت سے دفاعی شراکت دار کی سیکورٹی میں بہتری آئے گی اور بھارت ہمارا اہم دفاعی شراکت دار ہے۔

۔ ۔ ۔
#shefro

کتوں_کی_دُعا "💎

شاہنامہ اسلام اور قومی ترانے کے خالق ابوالااثر حفیظ جالندھری مرحوم کی آپ بیتی سے, آپ دوستوں کیلئے ایک بہترین  انتخاب !
۔ ۔ ۔

پاک سر زمین شاد باد پاکستانی قومی ترانے اور ’’شاہ نامہ اسلام‘‘ جیسی مشہور و معروف کتاب کے خالق, ابو الاثر حفیظ جالندھری مرحوم, اپنی آپ بیتی میں بیان فرماتے ہیں کہ.. میری عمر بارہ سال تھی۔ میرا لحن داؤدی بتایا جاتا اور نعت خوانی کی محفلوں میں بلایا جاتا تھا۔ اس زمانے میں شعر و شاعری کے مرض نے بھی مجھے آ لیا تھا۔ اسلیئے اسکول سے بھاگنے اور گھر سےاکثر غیر حاضر رہنےکی عادت بھی پڑچکی تھی۔ 

میری منگنی لاھور میں میرے رشتے کی ایک خالہ کی دُختر سے ہو چکی تھی۔ میرے خالو نےجب میری آوارگی کی داستان سُنی تو سیر و تفریح کےبہانے محترم نے جالندھر سے مجھے ساتھ لیا اور محض سیر و تفریح کا سبز باغ دکھلانے شہر گجرات کے قریب قصبہ جلال پور جٹاں میں پہنچ گئے۔ اصل سبب مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ ہونے والے خُسر اور فلحال خالُو میرے متعلق اپنے دینی مرشد سے تصدیق کرنا چاہتےتھےکہ وہ بزرگ ان کی بیٹی کی شادی مجھ جیسےآوارہ سےکر دینے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں۔
یہ پُر انوار پیر و مرشد ایک کہنہ سال بزرگ تھے۔ اُن کے اِردگرد مؤدب بیٹھے ہوئے دوسرے شُرفا سے پہلے ہی دن میں نے نعت سنا کر واہ واہ سبحان اللہ کے تحسین آمیز کلمات سُنے۔

ہر روز نمازِ عشاء کے بعد میلاد کی بزم اورنعت خوانی کا اہتمام ہوتا۔ دو مہینے اسی جگہ گزرے۔

اس سال ساون سُوکھا تھا۔ بارش نہیں ہو رہی تھی لوگ بارش کے لئے میدانوں میں جاکر نمازِ استسقاء ادا کرتے تھے۔ بچّے ، بوڑھے ، جوان مرد و زن دعا کرتے لیکن گھنگھور گھٹا تو کیا کوئی معمولی بدلی بھی نمودار نہ ہوتی تھی۔ یہ ہے پس منظر اس واقعہ کا جسےمیں عجوبہ کہتا ہوں۔ جسے بیان کردینے کے لئے نہ جانےکیوں مجبور ہوگیا ہوں۔ پہلے یہ جان لیجئے کہ وہ محترم بزرگ کون تھے؟ مجھے یقین ہےان کا خاندان آج بھی جلال پور جٹاں میں موجود ہے۔ ان بزرگ کا نام نامی حضرت قاضی عبدالحکیم رحمۃ اللہ علیہ تھا اَسی پچاسی برس کی عمر تھی دُور دُور سے لوگ ان سے دینی اور دُنیوی استفادہ کی غرض سے آتے تھے۔ یہ استفادہ دینی کم دنیوی زیادہ تھا۔ آنے والے اور دو تین دن بعد چلے جانے والے گویا ایک تسلسلِ امواج تھا۔ کثرت سوداگروں اور تجارت پیشہ لوگوں کی تھی ۔

میری نعت خوانی کے سبب حضرت مجھے بسا اوقات اپنے مصلّے کے بہت قریب بٹھائےرکھتےتھے۔ ایک دن میری طرف دیکھ کر حضرت نے کہا ’’برخوردار تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی سےمجھے خوش کرتےہو ، تمہارے لئے میرے پاس بس دعائیں ہی ہیں۔ انشاء اللہ تم دیکھو گے کہ آج تو تم دوسروں کی لکھی ہوئی نعتیں سناتےہو، لیکن ایک دن تمہاری لکھی ہوئی نعتیں لوگ دوسروں کو سنایا کرینگے ۔‘‘اس وقت بھلا مجھے کیا معلوم تھا کہ سرکارِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ محّب صادق میری زندگی کا مقصود بیان کررہے ہیں۔ بہرصورت یہ تواُن کی کرامتوں میں سے ایک عام بات ہے جس عجوبے کے اظہار نے مجھ سے آج قلم اٹھوایا وہ کرامتوں کی تاریخ میں شاید بے نظیر ہی نظر آئے۔ 

ایک دن حضرت قاضی صاحب کے پاس میں اوران کے بہت سے نیاز مند بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں میرے خالو بھی تھے۔ یہ ایک بڑا کمرہ تھا اورحضرت مصلّے پر بیٹھےتھے۔ 

السّلام علیکم کہتے ہوئے کندھوں پر رومال ڈالے سات آٹھ مولوی طرز کے معتبر آدمی کمرے میں داخل ہوکر قاضی صاحب سے مخاطب ہوئے۔ قاضی صاحب نے وعلیکم السلام اوربسم اللہ کہہ کر بیٹھ جانے کاایما فرمایا۔ ہم سب ذرا پیچھے ہٹ گئےاور مولوی صاحبان تشریف فرماہوگئے۔ ان میں سے ایک صاحب نے فرمایا کہ حضرت !ہمیں ہزاروں مسلمانوں نے بھیجا ہے۔ یہ چار صاحبان گجرات سے اور یہ وزیر آباد سے آئے ہیں میں، آپ جانتے ہیں ڈاکٹر ٹیلر کے ساتھ والی مسجد کا امام ہوں۔ 

عرض یہ کرنا ہے کہ آپ اس ٹھنڈے ٹھار گوشے میں آرام سے بیٹھے رہتے ہیں۔ باہر خلق خدا مررہی ہے ، نمازی اور بے نماز سب بارانِ رحمت کے لئے دعائیں کرتے کرتے ہارگئے ہیں۔ ہر جگہ نمازِ استسقاء ادا کی جارہی ہے ۔ کیا آپ اور آپ کے ان مریدوں کے دل میں کوئی احساس نہیں ہے کہ یہ لوگ بھی اُٹھ کر نماز میں شرکت کریں اورآپ بھی اپنی پیری کی مسند پر سے اُٹھ کر باہر نہیں نکلتے ،کہ لوگوں کی چیخ و پکار دیکھیں، اللہ تعالٰی سے دعا کریں تاکہ وہ پریشان حال انسانوں پر رحم کرے اور بارش برسائے۔

میرے قریب سے ایک شخص نے چپکے سے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا ’’یہ وہابی ھے‘‘۔ میں اُن دنوں وہابی کا مفہوم نہیں سمجھتا تھا۔ صرف اتنا سنا تھا کہ یہ صوفیوں کو بُرا سمجھتے ہیں اور نعت خوانی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب سلام پیش کیا جاتا ہےتو یہ لوگ تعظیم کےلئے کھڑے نہیں ہوتے بلکہ کھڑے ہونے والوں کو بدعتی کہتے ہیں۔

مسکراتے ہوئے قاضی صاحب نےپوچھا: ’’حضرات! آپ فقیر سےکیا چاہتے ہیں‘‘۔ توان میں سے ایک زیادہ مضبوط جُثے کے مولوی صاحب نے کڑک کر فرمایا ’’اگر تعویذ گنڈا نہیں تو کچھ دُعا یہ کرو۔ سُنا ہے پیروں فقیروں کی دُعا جلد قبول ہوتی ہے۔‘‘

یہ الفاظ مجھ نادان نوجوان کو بھی طنزیہ محسوس ہوئے تاہم قاضی صاحب پھر مسکرائے اور جواب جو آپ نے دیا وہ اس طنز کے مقابلے میں عجیب و غریب تھا۔

قاضی صاحب نے فرمایا ’’آپ کُتّوں سے کیوں نہیں کہتے کہ دُعا کریں‘‘۔ یہ فرمانا تھا کہ مولوی جی غضب میں آگئے اور مجھے بھی اُن کا غضب میں آنا قدرتی معلوم ہوا۔ چنانچہ وہ جلد جلد بڑبڑاتے ہوئے اُٹھے اور کوٹھڑی سے باہر نکل گئے۔

قاضی صاحب کے اِردگرد بیٹھے ہوئے نیاز مند لوگ ابھی گم صم ہی تھے کہ مولوی صاحبان میں سے جو بہت جَیّد نظر آتے تھے ، دوبارہ کمرے میں داخل ہوئے ، اُن میں سے ایک نے کہا’’حضرت! ہم تو کُتّے کی بولی نہیں بول سکتے- آپ ہی کُتّوں سے دُعا کرنے کے لئے فرمائیے۔‘‘

مجھے اچھی طرح یاد ہے اورآج تک میرے سینے پر قاضی صاحب کا یہ ارشاد نقش ہے۔

حضرت ! پہلے ہی کیوں نہ کہہ دیا ، کل صبح تشریف لائیے کُتّوں کی دُعا ملاحظہ فرمائیے’’!‘‘مولوی صاحبان طنزاً مسکراتے ہوئے چلدئیے اور میں نےاُن کے الفاظ اپنے کانوں سے سُنےکہ ’’یہ صوفی لوگ اچھے خاصے مسخرے ہوتے ہیں۔‘‘

جب مولوی صاحبان چلے گئےتو میرے خالو سے قاضی صاحب نے فرمایا کہ ’’ذراچھوٹےمیاں کو بلائیے۔ ‘‘ چھوٹے قاضی صاحب کانام اب میں بھولتا ہوں۔ مہمانوں کی آؤ بھگت اورقیام و طعام کا سارا انتظام انہی کے سِپرد تھا ۔ انواع و اقسام کے کھانے اور دیگیں قاضی صاحب کی حویلی کی ڈیوڑھی اورصحن میں پکتی رہتی تھیں۔ ساتھ ہی ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد تھی۔ جس میں عشاء کی نماز کے بعد نعت خوانی ہوا کرتی تھی اور میں ذوق و شوق سے یہاں نعت خوانی کیا کرتا تھا۔

میرے خالو ان کے چھوٹے بھائی کو لائے تو قاضی صاحب نے ان سے کہا’’ میاں کل صبح دو تین سو کُتّے ہمارے مہمان ہوں گے آپ کو تکلیف تو ہوگی بہت سا حلوہ راتوں رات تیار کرا لیجئے۔ ڈھاک کے پتوں کے ڈیڑھ دو سو دَونے شام ہی کو منگوا کر رکھ لیجئے گا۔ ڈیوڑھی کے باہر ساری گلی میں صفائی بھی کی جائے۔ کل نماز فجر کے بعد ہم خود مہمانداری میں شامل ہوں گے۔‘‘
چھوٹے قاضی صاحب نے سر جھکایا اگر چہ ان کے چہرے پر تحیر کے آثار نمایاں تھے۔ میرے لئے تویہ باتیں تھی ہی پُراسرار ، لیکن میرے خالو مسجد میں بیٹھ کرقاضی صاحب کےدوسرے مستقل نیاز مندوں اورحاضر باشوں سے چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ کل صبح واقعی کچھ ہونے والا ہے۔

میں نے تین چار کڑاہے حویلی کے صحن میں لائے جاتےدیکھے، یہ بھی دیکھا کہ کشمش، بادام اورحلوے کے دوسرے لوازمات کے پُڑے کھل رہے ہیں۔ سُوجی کی سینیاں بھری رکھی ہیں گھی کے دو کنستر کھولے گئے۔ واقعی یہ تو حلوے کی تیاری کے سامان ہیں۔ ناریل کی تُریاں کاٹی جارہی ہیں اورسب آدمی تعجب کر رہے ہیں کہ کُتّوں کی مہمانداری وہ بھی حلوے سے ؟
صبح ہوئی نماز فجر کے بعد میں نے دیکھا کہ قاضی صاحب قبلہ دو تین آدمیوں کو ساتھ لئے ہوئے اپنی ڈیوڑھی سے نکل کر گلی میں اِدھر اُدھرگھومنے لگے چند ایک مقامات پر مزید صفائی کے لئے فرمایا۔میری ان گناہ گار آنکھوں نے یہ بھی دیکھا کہ اس گلی میں دونوں طرف یک منزلہ مکانوں کی چھتوں پر حیرت زدہ لوگ کُتّوں کی ضیافت کا کرشمہ دیکھنے کے لئے جمع ہونا شروع ہوگئے تھے ۔ اورجلال پور جٹاں میں سے مختلف عمر کے لوگ اس گلی میں داخل ہورہے تھے۔ وہ قاضی صاحب کو سلام کرکے گلی میں دیواروں کے ساتھ لگ کر کھڑے ہوجاتے اورجانے کیا بات تھی کہ یہ سب اونچی آواز سے باتیں نہیں کرتے تھے۔ کوٹھوں پر عورتیں اور بچے تھے۔

ہم دونوں قاضی صاحب کا بھتیجا محمد اکرام اورمیں مسجد کی چھت پر چڑھ گئے اور یہاں سے گلی میں ہونے والا عجیب و منظر دیکھنےلگے۔
درویش طرز کے چند آدمی حلوے سے بھری ہوئی سینیاں لاتے جارہے تھے۔ اور قاضی صاحب چمچے سے ان دَونوں کو پُر کرتے پھر دونوں ہاتھوں سے دَونا اٹھاتے اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مین گلی کے درمیان رکھتے جاتے۔ جب پوری گلی میں حلوے بھرے دَونے رکھے جاچکے تو اُنہوں نے بلند آواز سے دَونوں کو گِنا۔ مجھے یقین ہے کہ گلی میں دیواروں کی طرف پشت کئے کھڑے سینکڑوں لوگوں نے قاضی صاحب کا یہ فقرہ سُناہوگا: ’’کُل ایک سو بائیس (۱۲۲) ہیں۔‘‘
یہ کام مکمل ہوا ہی تھا کہ زور زور سے کچھ ایسی آوازیں آنے لگیں جن کو میں انسانی ہجوم کی چیخیں سمجھا ۔ مجھے اعتراف ہے کہ اُس وقت مجھے اپنے بدن میں کپکپی سی محسوس ہونے لگی، میں نے گلی میں ہر طرف دیکھا تو عورتیں اور بچے اورمرد گلی میں اور کوٹھوں سےچیخ رہے تھے۔
کیوں چیخ رہے تھے اس لئے کہ ایک کُتّا جس کو، جب سے میں یہاں وارد ہوا تھا، حویلی کے اِردگرد چلتے پھرتے اورمہمانوں کا بچا کچھا پھینکا ہوا کھانا کھاتےاکثر دیکھا تھا، بہت سے کُتّوں کو اپنے ساتھ لئے ہوئے گلی کی مشرقی سمت سے داخل ہوا۔ جو بے شمار کتّے اس کے پیچھے پیچھے گلی میں آئے تھے ان میں سے ایک بھی بھونک نہیں رہا تھابھونکنا توکیا اس قدر خلقت کو گلی میں کھڑے دیکھ کر کوئی کتّا خوفزدہ نہ تھا۔ اورنہ کوئی غرّا رہا تھا۔ کتّے دو دو تین تین آگے پیچھے بڑے اطمینان کے ساتھ گلی کے اندر داخل ہورہے تھے۔

کتّوں کی یہ پُراسرار کیفیت دیکھ کر ساری خلقت نہ صرف پریشان تھی بلکہ دہشت زدہ بھی ، پھر ایسی دہشت آج تک مجھے بھی محسوس نہیں ہوئی۔
قاضی صاحب اگر اپنے ہونٹوں پر انگشتِ شہادت رکھ کر لوگوں کو خاموش رہنے کی تلقین نہ کرتے تو میں سمجھتا ہوں کہ گلی میں موجود سارا ہجوم ڈر کر بھاگ جاتا۔
اس گلی والا وہ کُتّا جس کا میں ذکر کر چکا ہوں قاضی صاحب کے قدموں میں آکر دُم ہلانے لگا۔ قاضی صاحب نے جو الفاظ فرمائے وہ بھی مجھے حرف بہ حرف یاد ہیں۔ فرمایا ’’بھئی کالو! تم تو ہمارے قریب ہی رہتے ہو، دیکھو، انسانوں پر اللہ تعالٰی رحمت کی بارش نہیں برسا رہا، اللہ کی اور مخلوق بھی ہم انسانوں کے گناہوں کے سبب ہلاک ہو رہی ہے ۔ اپنے ساتھیوں سے کہو، سب مل بیٹھ کر یہ حلوہ کھائیں پھر اللہ سے دعا کریں کہ رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے بادلوں کو اجازت دے تاکہ وہ پیاسی زمین پر برس جائیں۔‘‘
یہ فرما کر حضرت قاضی صاحب اپنی ڈیوڑھی کے دروازے میں کھڑے ہوگئے اورمیں کیا سبھی نے ایک عجوبہ دیکھا۔

خدارا یقین کیجئے کہ ہر ایک حلوہ بھرے دَونے کے گِرد تین تین کُتّے جُھک گئےاور بڑے اطمینان سے حلوہ کھانا شروع کردیا۔ ایک بھی کُتّا کسی دوسرے دَونے یا کتّے پر نہیں جھپٹا، اورنہ کوئی چیخا چلایااورجس وقت یہ سب کُتّے حلوہ کھا رہےتھے ایک اور عجیب و غریب منظر دیکھنے میں آیا کہ وہ کتا جو اس گلی کا پرانا باسی اوران تمام کتّوں کو یہاں لایا تھا خود نہیں کھارہا تھا بلکہ گلی میں مسلسل ایک سِرے سے دوسرے سِرے تک گھومتا رہا، جیسے وہ ضیافت کھانے والے کتّوں کی نگرانی کررہا ہو یا میزبانی۔ میں نے اسکول میں اپنے ڈرل ماسٹر صاحب کو طالب علموں کو اِسی طرح نگرانی کرتے وقت گھومتے دیکھا تھا۔ کالو کا انداز معائنہ بڑا پُر شکوہ تھا جس پر مجھے اپنا ڈرل ماسٹر یاد آگیا۔ کیونکہ ہم میں سے کوئی لڑکا ماسٹر صاحب کے سامنے ہلتا تک نہیں تھا۔
تھوڑی دیر میں سب کُتّے حلوہ کھا کر فارغ ہوگئے بے شمار لوگوں نے ہجوم میں سے صرف حضرت قاضی صاحب کی آواز ایک مرتبہ پھر سنائی دی۔ وہ فرمارہے تھے،’’لو بھئی کالو! ان سے کہو کہ اللہ تعالٰی سے دُعا کریں تاکہ خدا جلد ہی انسانوں پر رحم کرے‘‘۔

یہ سنتے ہی میں نے غیر ارادی طور پر ایک طرف دیکھا تو کل والے مولوی صاحبان ایک سمت کھڑے اس قدر حیرت زدہ نظر آئےجیسے یہ لوگ زندہ نہیں یا سکتے کے عالم میں ہیں۔اب صبح ، کے نو دس بجے کا وقت تھا، ہر طرف دھوپ پھیل چکی تھی ، تپش میں تیزی آتی جارہی تھی ۔ جب قاضی صاحب نے ’’کالو’’ کو اشارہ کیا۔ حیرت انگیز محشر بپا ہوا۔ تمام کتّوں نے اپنا اپنا مُنہ آسمان کی طرف اُٹھالیا اور ایک ایسی متحد آواز میں غُرانا شروع کیا جو میں کبھی کبھی راتوں کو سُنتا تھا۔ جسے سُن کر میری دادی کہا کرتی تھیں، ’’کُتّا رو رہا ہے خدا خیر کرے‘‘۔
آسمان کی طرف تھوڑی دیر مُنہ کئے لمبی آسمان کی طرف تھوڑی دیر مُنہ کئے لمبی غراہٹوں کے بعد یہ کتّے جو مشرقی سمت سے اس کوچے میں داخل ہوئے تھے۔ اب مغرب کی طرف چلتے گئے۔

میں اور قاضی اکرام ہی نہیں جلال پور جٹاں کے سبھی مردوزن کتّوں کو گلی سے رخصت ہوتے دیکھ رہےتھے۔ اورخالی دَونے آسمان کی طرف منہ کھولے گلی میں بدستور پڑے تھے۔ (یہ دستِ دُعا تھے)۔
جونہی کُتّے گلی سے نکلے قاضی صاحب کے ہاتھ بھی دُعا کے لئے اُٹھ گئے اور ان کی سفید براق داڑھی پر چند موتی سے چمکنے لگے یقیناً یہ آنسو تھے۔
پَس منظر بیان ہو چکا اب منظر ملاظہ فرمائیے۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ میں جو آج ستّر برس اور گیارہ میہنے کابوڑھا بیمار ہواللہ عزوجل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ بادل گرجا اور مغرب سے اس تیزی کے ساتھ گھٹا اُمڈی کہ گلی ابھی پوری طرح خالی بھی نہ ہوئی تھی ، مرد ، عورتیں ، بچے بالے ابھی کوٹھوں سے پوری طرح اُترنے بھی نہ پائے تھے کہ بارش ہونے لگی۔ ہم بھی مسجد کی چھت سے نیچے اُترے۔ پہلے مسجد میں گئے اورپھر حلوہ کھانے کا شوق لئے ہوئےحویلی کی ڈیوڑھی میں چلے گئے۔ دیکھا کہ وہی معتبر مولوی صاحبان چٹائیوں پر بیٹھے ہیں اورحضرت قاضی صاحب حلوےکی طشتریاں ان لوگوں کے سامنے رکھتےجارہے ہیں۔ وہ حلوہ کھاتے بھی جارہے ہیں اورآپس میں ہنس کر باتیں بھی کررہے ہیں۔ ایک کی زبان سے میں نے یہ بھی سُنا کہ حضرت یہ نظر بندی کا معاملہ نہیں ہے تو اور کیاہے۔ جادو-نعوذباللہ۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ قاضی صاحب قبلہ ان کی اس بات پر دیر تک مسکرائے اوران بن بلائے مہمانوں کے لئے مزید حلوہ طلب فرماتے رہے۔ باہر بارش ہو رہی تھی اوراندر مولوی صاحبان خوشی سے حلوہ اڑارہے تھے ۔ قاضی صاحب کے جو الفاظ آج تک میرے سینے پر منقوش ہیں میں یہاں ثبت کئے دیتا ہوں اورمیرا ایمان ہے کہ یہی مقصود تھا۔
قاضی صاحب نے کہا تھا ’’کُتّے مل جل کر کبھی نہیں کھاتے لیکن یہ آج بھلائی کے لئے جمع ہوئے تھے۔ اللہ کے بندوں کے لئے دُعا کرنے کے لئے وہ اتنے متحد رہے کہ ایک نے بھی کسی دوسرے پر چھینا جھپٹی نہیں کی۔ ان کا ایک ہی امام تھا۔ اس نے کھایا بھی کچھ نہیں۔ اب وہ آئے گا تو میں اس کے لئے حلوہ حاضر کروں گا۔‘‘

ایک مولوی صاحب نے کہا’’حضرت ہمیں تو یہ جادوگری نظر آتی ہے۔‘‘ قاضی صاحب بولے ’’مولوی صاحب ! ہم تو آپ ہی کے فَتوؤں پر زندگی گزارتے ہیں۔ خواہ اسے جادو فرمائیں یا نظر بندی آپ نے یہ تو ضرور دیکھ لیا ہے کہ کُتّے بھی کسی نیک مقصد کے لئے جمع ہوں تو آپس میں لڑتے جھگڑتے نہیں۔ ‘‘ یہ سُن کر مولوی صاحبان جھیپتے نظر آئے۔
مجھے یاد ہے کہ مولوی صاحبان کو بھیگتے ہوئے ہی اس ڈیوڑھی سے نکل کر جاتے ہوئے میں نے دیکھا تھا۔ بخدا یہ عجوبہ اگر میں خود نہ دیکھتا تو کسی دوسرے کے بیان کرنےپر کبھی یقین نہ کرتا۔ یاد رہے کہ میں وہی حفیظ جالندھری ہوں جس کے بارے میں حضرت قاضی صاحب نے جلال پور جٹاں میں ساٹھ سال پہلے فرمایا تھاکہ حفیظ؎ تیری لکھی ہوئی نعتیں دوسرے سنایا کریں گے ۔

""" الحمدللہ ، نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم یعنی ’’شاہنامہ اسلام‘‘ ساری دنیا کے اُردوجاننے والے مسلمان خود پڑھتے اوردوسروں کو بھی سُناتے ہیں۔ 

"...ارادت ہو تو دیکھ ان خرقہ پوشوں کو"
"...ید بیضا لئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں"

☘۔ ۔ ۔
#shefro

Sunday, May 12, 2019

خاموش جنگ 🎳

ہم پاکستانی جو جنگ کی صورت میں بھارت کو عبرتناک انجام سے دوچار کرنے کی بات کرتے ہیں. لیکن بھارت پاکستان کے ساتھ کس طرح ایک نظر نہ آنے والی جنگ عرصہ ہوا جنگ چھیڑ چکا ہے اور اس جنگ میں بھارت کو مسلسل کامیابی مل رہی ہے۔

جبکہ پاکستان کی عوام اور اس کے حکمران گھوڑے بیچ کر سو رہے ہیں۔ اور اس غلط فہمی میں چپ سادھ رکھی ہے کہ کونسا بھارت نے پاکستان کے خلاف میدان جنگ اپنی فوج اتار دی ہے۔ ہم یہ بات سمجھنے کیلیے تیار ہی نہیں کہ اب جنگیں میدانِ جنگ میں نہیں لڑی جاتیں. بلکہ اسکے کئی دور رس طریقے وجود میں آچکے ہیں. جن میں آبی وسائل کو ختم کرنا, قحط سالی مسلط کرنا, میڈیا کی خرید و فروخت, غداروں کو سپورٹ کرنا, مایوسیاں پھیلانا, شامل ہیں۔

توقع کے عین مطابق عالمی بینک نے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر پر پاکستان کی شکایات اور شواہد کو ناکافی قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ یہ پاکستان کی بھارت سے سفارتی محاذ پر ایک بڑی شکست ہے۔ کشن گنگا ڈیم کی تعمیر 2009 میں شروع ہوئی جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور ن لیگ مضبوط اپوزیشن تھی۔2011 کے بعد دو سال تک یہ کیس عالمی عدالت میں چلتا رہا لیکن بالآخر عالمی ثالثی عدالت نے نہ صرف پاکستان کے اعتراضات مسترد کر دیے بلکہ بھارت کو پانی کا رخ موڑنے کی اجازت دے دی۔ 

کیونکہ جب عالمی عدالت کی طرف سے ہمکو منھ مانگا وقت ملا تھا کہ ہم تمام تر شواہد عدالت میں پیش کردینگے تو وہ وقت گزر جانے کے باوجود ہم شواہد عدالت میں پیش نہیں کر سکے اور مطلوبہ وقت سے کہیں زیادہ گزر جانے کے بعد ہی عالمی عدالت نے فیصلہ بھارت کے حق میں کیا تھا۔

یاد رہے کہ یہ وہ دور تھا جب بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دیا جارہا تھا اور خارجہ امور کا قلمدان بھی وزیراعظم میاں نواز شریف کے پاس تھا۔ بھارت نوازی کی داستان صرف یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ دریائے سندھ پر تحقیق سے پتہ چلا کہ انڈیا نے ڈیم بنا کر دریائے سندھ کا سارا پانی روک لیا، سو جہاں کبھی کشتیاں چلتی تھیں وہاں زمین پر چارپائیاں پڑی ہیں۔

بنائے جانے والے متنازعہ پن بجلی کے منصوبے نیموباز گو کے خلاف بھی سابق وزیر اعظم صاحب کے احکامات کے مطابق عالمی عدالت میں جانے سے روک دیا گیا کہ “خوامخواہ اس کیس پر وقت ضائع ہو گا”۔

بھارت نے یہ منصوبہ مکمل کر لیا ،اور یہی نہیں اس دوران “چٹک” کا منصوبہ بھی پایہ تکمیل کو پہنچ گیا اور ہم صرف بھارت سے پینگیں بڑھانے کے خواب دیکھتے رہے۔

گزشتہ ایک دہائی میں زراعت اور آبی وسائل کی زبوں حالی کو دیکھ کر خون کھول اٹھتا ہے۔

مسلم لیگ ن کی ذمہ داریوں کا یہاں سے اندازہ کر لیں کہ اس دور میں بھارت صرف دریائے سندھ پر چودہ چھوٹے ڈیم اور دو بڑے ڈیم مکمل کر چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منگلا ڈیم اکتوبر 2017 سے خالی پڑا ہے جبکہ تربیلا ڈیم بھی اس وقت بارش کا محتاج ہے۔

یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی، پانی کے حوالہ سے ہمارا مستقبل بہت دردناک ہے۔

دو سال قبل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بیان دیا کہ وہ پاکستان کو پانی کی بوند بوند کے لیے محتاج کر دے گا اور وہ اس پر عمل کر رہا ہے۔ بھارت دریائے چناب پر سلال ڈیم اور بگلیہار ڈیم سمیت چھوٹے بڑے 11 ڈیم مکمل کر چکا ہے ۔ 

دریائے جہلم پر وولر بیراج اور ربڑ ڈیم سمیت 52ڈیم بنا رہا ہے دریائے چناب پر مزید 24 ڈیموں کی تعمیر جاری ہے اسی طرح آگے چل کر مزید 190 ڈیم فزیبلٹی رپورٹس ، لوک سبھا اور کابینہ کمیٹی کے پراسس میں ہیں۔

یہ سب کچھ ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کی آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے، لیکن کسی کو اس سے غرض نہیں،کوئی ووٹرز کو عزت دینے کا مطالبہ کر رہا ہے، کوئی مذہب پر سیاست کر رہا ہے، تو کوئی بھٹو کو زندہ رکھنے کی تگ و دو میں ہے اور ان کے بیچ عوام زندہ باد اور مردہ باد کی حد تک ہی پھنسی ہوئی ہے۔

اگر یہ مسئلہ کسی پارٹی کے منشور میں شامل نہیں ہے تو اس کے ذمہ دار ہم ہیں۔ عوام کے ووٹ دینے کے معیار نالیاں پکی کرنا، قیمے والا نان یا نام نہاد نمائشی سکیمیں ہیں، دراصل عوام ذہنی غلام بن چکے ہیں جن کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ان کے سیاسی خداؤں کے تابع ہیں۔
 اگر مجھ جیسے کم علم کو یہ حقائق ملکی مستقبل کے لیے فکر مند کر سکتے ہیں تو ہمارے نام نہاد دانشور اور میڈیا ہاؤسز کیوں ان موضوعات پر بات نہیں کرتے؟

بھارت یہ سب اپنے کسانوں کے لیے نہیں کر رہا، بلکہ اس کا مقصد پاکستان کو بنجر کرکے اسکی بائیس کروڑ عوام کو بھوکا اور پیاسا مارنا ہے، بھارت کو علم ہے کے پاکستان کی فوج سے جنگ چھیڑنا اپنی بھی تباہی کے مترادف ہے، کیونکہ پاکستان کی یہ پالیسی ہے کہ اگر بھارت سے جنگ ہونے کی صورت میں اگر پاکستان کی سلامتی کو ذرا سا بھی خطرہ ہوا پاکستان ایٹم بم استعمال کرے گا، لہذا انتہائی چالاکی کے ساتھ بھارت پاکستان کو تباہ کر رہا ہے، اور اس نظر نہ آنے والی جنگ میں بھارت کو نہ تو پاکستان کی فوج کا سامنا کرنا پڑے گا اور نہ ہی پاکستان کی بائیس کروڑ عوام کا.....۔!

پاکستان کی عوام یہ مت سمجھے کہ کیا ہوا اگر بھارت  ہمارا پانی روک بھی لے  تو ہمیں پینے کے لیے پانی تو ملتا رہے گا، شاید عوام یہ سمجھ رہی ہے کہ ان کے گھر میں کیا گئی بورنگ پانی پینے کے لئے اور زراعت کے لئے ٹیوب ویل غیرہ ان کے لئے کافی ہیں، مگر میں آپ کو بتا دوں کے اگر آپ کے دریاؤں کا پانی روک لیا گیا، تو آپ کے گھر میں کیا گیا بورنگ اور ٹیوب ویل بھی آپ کو پانی دینا بند کر دے گا، کیونکہ زیر زمین پانی کی سطح انتہائی نیچے چلی جائے گی۔ زمین اناج اگانا بند کر دے گی۔

اور پھر پاکستان میں جو قحط سالی جنم لے گی وہ انتہائی خوفناک صورتِ حال اختیار کرجائے گی، اور اس تباہی کا تصور آپ کر سکتے ہیں ؟ بالاآخر پاکستان کو یا تو پیاسا مرنا ہوگا یا پھر ایٹمی جنگ میں مرنا ہو گا، دونوں صورتوں میں پاکستان اور اس کی عوام کو انتہائی دردناک دن دیکھنا پڑیں گے، اور یہ اس صورت میں ہوگا کہ ہم ابھی بھی چپ رہیں اور مجرمانہ لاپرواہی کا مظاہرہ کریں۔

اگر آپ سمجھ رہے ہو کہ اس صورتحال میں پاکستان کی فوج کچھ کرسکتی ہے تو یہ آپ کی بیوقوفی ہے، کیونکہ فوج صرف لڑنے کے لئے ہوتی ہے، زیادہ سے زیادہ فوج بھارت سے لڑسکتی ہے بھارت کے بنائے گئے ڈیموں کو اپنے میزائلوں سے نشانہ بنا سکتی ہے، مگر یہ مستقل حل نہیں، کیونکہ جواب میں ہمیں بھی میزائلوں کا سامنا کرنا پڑے گا، اور یہ رستہ دونوں ملکوں کی تباہی کا ہے ، ہماری حکومتوں کو ہمیں مجبور کرنا ہوگا کہ سفارتی سطح پر بھارت کو یہ ڈیم بنانے اور پاکستان کا پانی روکنے سے باز رکھا جائے۔

پاکستان میں آنے والی نئی حکومت سے سب سے پہلا مطالبہ یہی ہونا چاہیے کہ ہمیں سڑکوں، پلوں، میٹرو بسوں اور اورنج ٹرینوں کی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں ڈیموں کی ضرورت ہے، جتنا پیسہ ان کاموں پر خرچ کیا جاتا ہے اس کا ایک چوتھائی حصہ بھی اگر ڈیموں پر خرچ کیا جائے تو پاکستان میں زراعت کو فروغ ملے گا پانی کی کمی دور ہوگی بجلی وافر مقدار میں پیدا ہوگی اور سستی بھی ملے گی، ہماری صنعتیں ترقی کریں گی کیونکہ ہماری آدھی سے زیادہ صنعتیں بند پڑی ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ بجلی کی قلت ہے، صنعتیں چلیں گی تو برآمدات میں اضافہ ہوگا پاکستان ترقی کرے گا، صرف ڈیم بنانے کی وجہ سے پاکستان کو کتنا فائدہ ہوگا یہ سب اس آرٹیکل میں بتایا گیا ہے، خدا کے لئے اپنی نسلوں کے لئے آواز اٹھائیں۔

یاد رہے بھارت پاکستان کو اس فائدے سے دور رکھنے کے لئے پاکستان کی حکومتوں کو اور ملک میں بسنے والے کئی غداروں کو بھاری معاوضہ دیتا آیا ہے، تاکہ حکومتیں ایک تو پاکستان کے لئے ڈیم نہ بنائیں اور دوسرا سفارتی سطح پر بھارت کو غیر قانونی ڈیم بنانے سے نہ روکیں۔ اور تیسرا یہ کہ پاکستانی خزانے کو فضول کاموں میں جھونکا جائے، پاکستان کے خزانے کو تباہ کرنے کے لئے بھی بھارتی حکومت پاکستانی حکمرانوں کو بھاری معاوضہ دیتی آئی ہے۔

یہ وقت اگر گزر گیا تو وآپس پھر کبھی نہیں آئیگا. اگر پانی کا قحط پڑا. تو اسکے زمہ دار ہم سب ہونگے. لیٰذا پانی کے ذخائر کء تعداد بڑھانے کیلیے, نئے ڈیمز بنانے کیلیے, اور موجودہ آبی ذخائر کو احتیاط سے استعمال کرنے کیلیے ہر سطح پر معاشرتی شعور پیدا و بیدار کیا جائے. 

کیونکہ یہ تو قوم بہت اچھل کود کررہی تھی. کہ ہم ڈیمز کیلیے چندہ کے نام پر بہت کچھ دینے کو تیار ہیں. آئے دن نت نئی خبریں میڈیا کی زینت بن رہی تھیں. لیکن کچھ دن پہلے ہی بتایا گیا ہے. کہ ڈیم کیلیے ابتک صرف دس ارب روپے ہی جمع ہوسکے ہیں. اور اس رقم میں بہت بڑی تعداد بیرونِ ملک پاکستانیوں کی رقومات کی ہے. جبکہ ڈیم کیلیے حکومت نے اشتہارات کی مد میں 9 ارب روپے پھونک دیے ہیں

یاد رکھئیے...... پانی کو ترسا ہوا شخص جو بھی کوئی ہو. اسکی شکل پر نہ تو پٹواری لکھا یوا آئیگا, نہ ہی یوتھیا, نہ ہی جماعتی, نہ ہی جیالا.....!

البتہ جن کے غم میں یہ قوم یہ سب کچھ بنی ہوئی ہے. یاد رکھئیے ان میں سے کوئی پیاسا نہیں مریگا. کیونکہ ہمارے ہاں سیاست امیروں کا مشغلہ ,اور ارب پتیوں کا کھیل ہے. کیونکہ ان میں سے آج بھی کئی لوگوں کیلیے پینے کا پانی سالوں سے لندن اور پیرس کی کمپنیوں کا آتا ہے. جس میں پیاس بجھانے کی غرض سے پھلوں کا رس بھی ملایا جاتا ہے۔

۔ ۔ ۔
#shefro

کتامارمہم 🐷

پاکستان نے اپنی سرحدوں پر مزید "ائیرڈیفنس میزائل" اور "ڈرون" تعینات کر دیئے !!
۔ ۔ ۔

پاکستان نے چینی ساختہ ریڈار اور ڈرون پاک بھارت سرحد پر تعینات کر کے ملکی دفاع کو مزید مضبوط بنا دیا۔

 پاکستان نے پاک بھارت سرحد پر اپنی فضائی اور زمینی حدود کی حفاظت کے لیے نیا ائیر ڈیفنس سسٹم تعینات کر دیا ہے۔ نیا ائیر ڈیفنس سسٹم چینی ساختہ ہے جس میں کم رینج والے زمین سے ہوا میں مار کرنے والے میزائل، نگرانی کرنے والے ریڈار اور ڈرون شامل ہیں۔ 

گزشتہ دنوں سرحد پر چل رہی پاک بھارت کشیدگی اور بھارتی جہازوں کی پاکستانی سرحد میں دراندازی کے بعد پاکستان نے اپنے دفاع کو مزید مضبوط بنانے کے لیے سرحدوں پرزمین سے ہوا میں مار کرنے والے ایل وائی80 میزائل اور آئی بی آئی ایس150 ریڈار کے پانچ یونٹ نصب کر دیے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق یہ انتظامات بھارت کی جانب سے دوبارہ کیے جانے والے کسی بھی جارحانہ اقدام کو روکنے کے لیے کیے گئے ہیں۔

ان میزائلوں اور ریڈار کے علاوہ پاکستان نے چینی ساختہ رین بو سی ایچ 4 اور رین بو سی ایچ 5 ڈرون بھی سرحد پر تعینات کیے ہیں تا کہ بھارت کے کسی بھی جہاز کی آمد کا پیشگی پتا لگایا جا سکے۔ یاد رہے کہ گزشتہ ماہ بھارت کے جہازوں نے پاکستان کی سرحد میں غیرقانونی طور پر گھس کے بالاکوٹ کے علاقے میں پے لوڈ کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ بھارت نے طالبان کے کیمپ کو نشانہ بنایا ہے لیکن بھارت اس حوالے سے کوئی ثبوت نہیں دے سکا تھا۔

بھارت نے یہ حملہ 14فروری کو پلوامہ میں 44 بھارتی فوجیوں کی خودکش حملے میں ہلاکت کے جواب میں کیا تھا کیونکہ بھارت کے مطابق حملہ آور پاکستان سے آیا تھا۔ لیکن پاکستان نے بھارتی جارحیت کا جواب دیتے ہوئے دو بھارتی جہاز مار گرائے اور اور ایک پائلٹ کو بھی گرفتار کر لیا تھا۔ 

اب پاکستان نے اپنی سرحدوں پر دفاع کے جدید انتظامات کر کے پاکستان کو مزید نا قابلِ تسخیر بنا دیا ہے۔

۔ ۔ ۔
#shefro

Thursday, May 9, 2019

آپ_جانا_چاہیں_گے "🎳

‏یہ وہ جگہ ہے جہاں کسی بھی وقت "سنسناتی گولی" آپکا سر چیرتی گزر سکتی ہے, اور آپکو اپنے مرنے کا احساس تک نہیں ہو گا۔

اور یہ جگہ ہے "پاک بھارت" بارڈر.....!!

خاص طور پر اس وقت جب آپکو پتا ہو کہ آپکو گولی لگنے کے بعد, آپکی لاش کو "علاقہ کلیئر" ہونے تک نہیں اٹھایا جائے گا۔ تاکہ مزید کوئی سپاہی گولی کا نشانہ نہ بن جائے۔ 

تو پھر کیا خیال ہے دوستو..! کون کون "شیر دل" جانا چاھتا ھے یہاں"؟؟ 😘😘

۔ ۔ ۔
#shefro

Wednesday, May 8, 2019

#دنیا_کی_نایاب_ترین_فوج "⛺

"امریکا نے پاکستان کا ملڑی ٹریننگ پروگرام معطل کر دیا۔ امریکا نے پاکستان کو یو ایس نیول وار کالج اور سائبر سیکورٹیز کے پروگرام سے بھی فارغ کر دیا۔

امریکا نے پاکستانی آرمی کے افسروں کی ٹریننگ اور ایجوکیشن پروگرامز بھی ختم کر دیئے۔ رواں سال ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان سے دفاعی تعاون ختم کرنے کی دھمکی دی تھی۔ 

پروگرام ختم کرنے سے پاک آمریکا تعلقات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ (امریکی حکام) جبکہ امریکی وزیر دفاع نے ٹرمپ کے اقدامات کی مخالفت کی"۔ (رائڑز)

امریکا ایسے اقدامات پہ کیوں مجبور ہوا کیونکہ پاکستان نے خاموشی سے بہت بڑے کام کیے, اور باجوہ ڈاکٹرائن کامیاب ہو کر چھا گئی۔ امریکا کو زور سے لات مار کر پاکستان ⁦🇵🇰⁩ کی کامیاب ترین جنگی ڈاکٹرائن نے بھگا دیا۔ اب پاکستان اس خطے سے امریکا کو نکال کر اس کا برا حشر کرنے والا ہے۔

پاکستان نے کسی قسم کا دباؤ قبول نہ کیا اور الیکشن کی سیلیکشن میں امریکا کو آنکھیں دکھا دیں۔ اور پاکستان میں موجود اس کے چیلوں کے ساتھ جو حشر ہو رہا ہے وہ پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ اور اب پاکستان کو جو چاہیے تھا لے چکا ہے۔ پوری دنیا کی فوجیں پاکستان کے ساتھ جنگی مشقوں میں حصہ لینا چاہتی ہیں۔ کیونکہ اسی پاکستان نے دنیا کے سب سے طاقتور اتحاد نیٹو کو شکست دی۔ اس اتحاد میں شامل 52 ملکوں نے پاکستان کو توڑنے کے لئے اپنے خفیہ ایجنسیوں سمیت افغانستان میں فوجیں اتار دی اور پھر آئی ایس آئی نے اس اتحاد، سپیشلی امریکا کا وہ حشر کیا جس کو پوری دنیا نے دیکھا۔

پاکستان کی فوج پچھلے 20 سال سے حالت جنگ میں ہونے کی وجہ سے دنیا کی "نایاب ترین فوج" بن چکی ہے۔ اس کے بھپرے شیر اپنے سپہ سالار کے ایک حکم کے منتظر رہتے ہیں۔ اور یہ وہ دنیا کی واحد فوج ہے کہ جو گوریلا جنگ کی فاتح بنی۔ اس گوریلہ وار کے نتیجے میں امریکہ چین کے اربوں ڈالر کا مقروض ہو گیا اور اس کی کھربوں ڈالروں کی ٹیکنالوجی افغانستان میں کوڑیوں کے بھاؤ بک رہی ہے۔

......
اب پتہ چلا کہ
 امریکا کی چھت کے نیچے خاموشی سے میزائل ٹیکنالوجی میں لگا کر آج دنیا کا جدید ترین ایم آر آئی وی سسٹم بنا ڈالا جو صرف 3 دنیا کی سپر پاورز کے پاس ہے۔ نہیں تو ویسے آمریکا عالمی پابندیاں لگا کر معیشت کو کمزور کرتا۔
الحمدللہ اب پاکستان بھی اس میں شامل ہے جو بیک وقت 12 ایٹم وار ہیڈز کو ایک ہی مزائیل میں مختلف جگہوں کو ایک ہی وقت میں ہٹ کر سکتے ہیں۔

امریکا کو 15 سال بعد پتہ چلا میرے ساتھ پاکستان کی آئی ایس آئی نے ہاتھ کر دیا۔ اور اب پاکستان امریکا کی ٹیکنالوجی سپیشلی ریڈار سسٹم کو خیر آباد کہہ چکا ہے۔

۔ ۔ ۔
#shefro

Tuesday, May 7, 2019

عظیم_فوج_کی_عظیم_داستان "🎳

پاکستان اور انڈیا کے درمیان اتنے دنوں سے چلنے والی کشیدگی میں پاکستان آرمی نے قدم قدم پے وہ کامیابیاں سمیٹی ہیں کہ نہ صرف انڈین آرمی بلکہ دنیا کی ساری افواج پاکستانی فوج کی جدید ترین ٹکنالوجی اور خفیہ ایجنسیوں کی شاطرانہ مہارت کی معترف ہو گئی ہیں۔ 

تو چلیں شروع کرتے ہیں کہ جب انڈیا نے پاکستانی فضائی حدود کو کراس کرنے کی ناپاک جسارت کی, ڈی جی آی ایس پی آر کی بات پے زرا غور کریں۔ انڈین ایئر فورس نے تین جگہوں سے فضائی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کی، اب زرا غور کریں کہ کوشش کی یعنی ابھی انڈین آرمی کی جیٹ انڈین حدود میں ہی تھے تو پاکستانی رڈارز نے انہیں ڈیٹیکٹ کر لیا اور دو جگہوں سے انہیں اپنی حدود میں داخل ہونے ہی نہیں دیا جبکہ ایک جگہ جہاں سے دراندازی کی انڈین جیٹس نے وہ بھی پاکستان ایئر فورس کی شاطرانہ چال کا ایک حصہ تھی۔ یعنی جیسے ہی انڈین جیٹ پاکستانی حدود میں داخل ہونگے تو مار گرا دیئے جایئنگے۔ لیکن ڈرپوک دشمن پر اس قدر خوف طاری ہو گیا کہ حواس باختہ ہو کے اس نے اپنا پے لوڈ گرا کے واپس بھاگ نکلنے میں ہی عافیت جانی۔

لیکن اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ طیارے مار گرائے کیوں نہیں تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ڈرپوک دشمن کے تمام طیارے ہٹ پے تھے لیکن چونکہ وہ پاکستانی حدود میں بمشکل چند کلو میٹر ہی اندر آئے تھے اگرچہ پاکستانی شکاری جیٹ چاہتے تھے کہ وہ مزید اندر آئیں تاکہ ہٹ ہونے کے بعد تمام طیاروں کا ملبہ پاکستان میں گرے اور اسی میں پاکستان کی کامیابی بھی تھی لیکن اب چونکہ وہ صرف چند کلو میٹر کے بعد ہی واپس بھاگے تو پاکستانی ایئر فورس کی پروجیکشن سے یہ نتیجہ نکلا کہ اب اگر ٹارگٹ ہٹ ہو بھی گئے تو انکا ملبہ انڈین حدود میں گرے گا اور تمام تر الزام پاکستان پے آجاتا کہ پاکستان نے جنگ میں پہل کی ہے۔ 

اس تمام انگیجمنٹ میں انڈین طیارے پاکستانی جیٹ کے میزائل ٹارگٹ پے لاک ہو گئے تھے لیکن ٹارگٹ فائیر کرنے کا آرڈر نہیں تھا ابھی، اور یہ ایک سٹینڈر پروسیجر ہے کہ جب ٹارگٹ لاک ہوتا ہے تو ہٹ ہونے سے چند سیکنڈ پہلے دشمن کو پتہ چل جاتا ہے کہ گیم ہاتھ سے نکل گئی ہے۔ اسی وجہ سے انڈین طیاروں نے اپنا پے لوڈ پھینک دیا تو یہ تھی پہلی کامیابی جو پاکستانی جانبازوں نے اپنے نام کی۔ یعنی دشمن کو باور کروا دیا کہ ہم نہ صرف مستعد و چوکس ہیں بلکہ جدید ترین ٹیکنالوجی سے بھی لیس ہیں اور انڈین آرمی کو اس ناکام آپریشن پر شدید دھچکہ لگا۔ اب آئیں دوسرے دن کی کاروائی پر جب پاکستانی جانبازوں نے دشمن کو دن میں تارے دکھانے کا فیصلہ کیا۔ 

اب پھر زرا ڈی جی آئی ایس پی آر کی بات پر غور کریں۔ ہم نے 6 ہائ ویلیو ٹارگٹ کو لاک کیا لیکن دشمن کو کسی بھی قسم کا جانی نقصان پہنچائے بغیر باور کروایا کہ آگ سے نہ کھیلو۔ لیکن بات شروع کرتے ہیں کہ اتنی زیادہ ہائی الرٹنس کے باوجود جبکہ انڈین آرمی کو پتہ بھی تھا کہ پاکستان ہمیں ضرور سرپرائز کرے گا کیونکہ ڈی جی آئ ایس پی آر نے وعدہ کیا تھا کہ ہم ضرور بدلہ لینگے۔ تو سنیں کہ پہلا سرپرائز یہ تھا کہ اتنی زیادہ ہائی الرٹنس کے باوجود دن کی واضح ویزیبلٹی یعنی روشنی میں پاکستانی طیارے انڈیا میں داخل کیسے ہو گئے۔ 

تو جناب یہی تو سرپرائز تھا کہ پاکستان نے انڈیا کا تمام رڈار سسٹم جام کر دیا اور بغیر کسی ریٹیلیئشن کے 6 ہائی ویلیو ٹارگٹ تک جا پہنچے دشمن کو تو اس وقت خبر ہوئی جب 6 کے 6 ہائی ویلیو ٹارگٹس کو ہٹ کیلیئے لاک کیا تب دشمن کے ہوش اڑے کہ موت تو سر پے منڈلا رہی ہے۔ یعنی جیسا کہ اوپر بتایا ہے کہ یہ ایک سٹینڈر پروسیجر ہے کہ جب ٹارگٹ ہٹ ہونے کیلئے میزائل پے لاک ہوتا ہے تو دشمن کو اس وقت پتہ چل جاتا ہے کہ اب وقت ہاتھ سے نکل گیا اور اگلے ہی لمحے ٹارگٹ ہٹ ہو جاتا ہے۔ تو یوں انڈین آرمی کو اس آخری انٹیمیشن جو کہ ٹارگٹ لاک ہونے پے دیتا ہے اس سے پتہ چلا کہ ہمارا تو سارا رڈار و سٹیلتھ ٹیکنالوجی سسٹم ہی جیم کیا ہوا پاکستان نے، اس وقت انڈین ائیر فورس نے اپنے طیاروں کو ریٹیلیشن کا آرڈر دیا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی، لیکن چونکہ پاکستان آرمی کا فیصلہ تھا کہ ان 6 ہائی ویلیو ٹارگٹس کو ہٹ نہیں کرنا بلکہ دشمن پے صرف یہ واضح کرنا تھا کہ اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیئے تو نیست و نابود کر دیئے جاو گے لہزا میزائل ہائی ویلیو ٹارگٹس کے نزدیک کھلی جگہ پر داغ دیئے گئے۔ 

تو جناب یہ تھا پہلا سرپرائز جس نے انڈین آرمی کو باولا کر دیا لیکن اس سے بھی بڑا سرپرائز پتہ ہے کیا تھا؟ 
تو سنیں ان 6 ہائی ویلیو ٹاگٹس میں سے ایک ٹارگٹ اس وقت انڈین چیف آف آرمی سٹاف رون بپت جس دفتر میں بیٹھا ہوا تھا اسے بھی ٹارگٹ لاک کر دیا گیا تھا، لیکن ہٹ نہیں کیا گیا، اب جبکہ طیاروں کی واپسی کا مرحلہ تھا تو سٹریٹجی یہ تھی کہ ایک طیارہ دوسرے طیاروں کی بنسبت پیچھے رہے گا واپسی کے وقت جو انڈین طیاروں کو آبزرو کرے گا کہ دشمن واقعی پیچھا کر کے پاکستانی سرحد کی طرف بڑھ رہا ہے اور پاکستان ہر صورت انڈین طیاروں کو اپنی حدود میں گرانا چاہتا تھا۔ اب چونکہ انڈیا کا سارا رڈار سسٹم پاکستان نے جام کیا ہو تھا لھزا جو طیارے پاکستانی طیاروں کا پیچھا کر رہے تھے وہ طیارے کے اندر لگے اپنے اندرونی رڈار سسٹم سے اندازے کے طور پر ہی مدد لے رہے تھے۔

باقی طیارے تو پاکستانی حدود کے نزدیک آکر واپس مڑنے لگے لیکن ابھینند مس کیلکولیشن کی وجہ سے پاکستانی حد میں داخل ہو گیا اور آگے تھنڈر پہلے سے شکار کی تاک لگائے پھر رہے تھے یوں چند سیکنڈ کے اندر ہی انڈین مگ طیارہ زمین بوس کر دیا گیا اور ابھینند کو زندہ پکڑ لیا گیا اور واپسی کے وقت جس پاکستانی طیارے کو پیچھے رہنے کی ہدایات تھیں اس نے جب دیکھا کہ دشمن کے طیارے پاکستانی حدود میں داخل ہوئے بغیر ہی واپس ہو لیئے تو اس نے انڈین حدود میں ہی ایک شکار دپوچ لیا اور اسے مقبوضہ کشمیر میں زمین بوس کر دیا اور یوں پاکستانی شاہین ایک انتہائی مشکل اور ناکابل عمل آپریشن سر انجام دے کر بحفاظت اپنی سر زمین پر لینڈ کر گئے۔ اب اتنے بڑے سرپرائزز کے بعد انڈین آرمی اور مودی کو جان کے لالے پڑ گئے، اور پوری دنیا میں بھارت کی ناک کاٹ دی پاکستانی فوج نے، لہزا اب انڈین آرمی اور مودی کسی بھی طرح اپنی اس ناکامی کا بدلہ لینے پے تل گئے اور چونکہ انڈین کو یہ بات روز روشن کی طرح باور ہو گئی کہ وہ پاکستان آرمی کا کسی بھی طرح مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ 

تو اگلی رات انڈیا نے آخری آپشن یعنی ایٹم بم استعمال کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس ساری کاروائی میں شاید آپ پاکستان کی خفیہ ایجنسی کی کارکردگی کو نوٹ نہیں کر پائے۔ تو جناب 6 ہائی ویلیو ٹارگٹس کی انفارمیشن اور انڈین چیف آف آرمی سٹاف کہاں بیٹھا ہے یہ سب آئی ایس آئی ہی تو بتا رہی تھی اور جب انڈیا نے ایٹم استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تو بھی انڈیا کے میزائل ٹاگٹ پے فٹ کرنے سے پہلے پہلے آئی ایس آئی ہی نے آگاہ کیا کہ انڈیا اس وقت کیا کر رہا ہے۔؟

یعنی آپ اندازہ لگائیں کہ ہماری آئی ایس آئی نے کہاں تک پنجے گاڑ رکھے ہیں جس پے ہمیں فخر ہے، تو جیسے ہی پاکستان کو ایٹمی حملے کی خبر ملی تو پاکستان نے اسی وقت ایک بڑے ملک کو آگاہ کیا کہ انڈیا کو بتا دو کہ ہم تیار ہیں اور ادھر سے اگر ایک آئے گا تو پاکستان ہر ایک کے بدلے تین ایٹم مارے گا یعنی ایک تین کی ریشو رکھی جائے گی۔

اب جیسے ہی اس بڑے ملک نے انڈیا کو پاکستان کے فیصلے سے آگاہ کیا تو انڈیا کی حیرانگی کی انتہا نہ رہی کہ یہ انفارمیشن پاکستان کو کیسے مل گئی، اور یہ بھی انڈیا کیلئے کسی سرپرائز سے کم نہیں تھا۔ اب انڈیا نے اس بڑے ملک سے گڑگڑاتے ہوئے درخواست کی کہ آخر ہمیں بھی فیس سیونگ کیلیے کچھ تو دو لہزا اس بڑے ملک نے پاکستان سے کہا کہ انڈیا اپنی اتنی ناکامیوں کو چھپانے کیلئے اس وقت انتہائی پاگل پن کا شکار ہے آپ کو کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔

لہزا امن امن کی بات کرنے والے کپتان اور ہمیشہ دھیمے مزاج میں نظر آنے والے جنرل باجوہ نے فیصلہ کیا کہ انڈیا کو چاروں شانے چت تو ویسے بھی کر دیا ہے تو اب انڈین پائلٹ کو جزبہ خیر سگالی کے طور پر رہا کر دیا جائے۔ 

اب عام عوام میں غم و غصہ ہے کہ اتنے جلدی پائلٹ چھوڑنے کی کیا ضرورت آن پڑی تو جناب یاد رکھیں کہ عمران خان نے یہ اعلان کر کے اخلاقی محاذ پر بھی پاکستان کو فتح سے ہمکنار کر دیا۔ 

اب سنیں کہ وہ کیسے جس دن عمران خان نے پائلٹ رہا کرنے کا اعلان کیا اسی شام سعودی وزیر خارجہ نے پاکستان آنا تھا اب اگر کسی بھی انٹر نیشنل شخصیت کے پاکستان آنے کے بعد پائلٹ رہا کرنے کا اعلان ہوتا تو سب سے پہلے پاکستانی عوام پاک آرمی اور حکومت کے خلاف ہو جاتی اور انٹرنیشنل لیول پر بھی پاکستان کو اخلاقی سبکی کا سامنا کرنا پڑتا۔

کہ پاکستان نے شاید کسی امدادی پیکج یا مالی مدد حاصل کر کے اپنی عزت و انا کی قیمت وصول کی اور پائلٹ چھوڑنے پے راضی ہوا اور یوں پاکستان نے بروقت بہترین سٹریٹیجی بہترین لیڈرشپ اور بہترین جنگی و سیاسی بصیرت سے کام لیتے ہوئے ان تمام پس پردہ قوتوں کو اور آج کی جدید دنیا پے بھی واضح کر دیا, کہ پاکستان واقعی خدا کے رازوں میں سے ایک راز ہے اور یہ ملک واقعی ناقابل تسخیر ہے۔

اور انڈیا جو کارگل کا بدلہ لینے کیلیئے اتنے عرصے سے پاکستان کو سبق سکھانے کے تانے بن رہا تھا اسے دھول چٹا کے اسکی اوقات یاد دلا دی۔

پاک آرمی نے دنیا کی تمام آرمڈ فورسز پے اپنی برتری کا جھنڈا لہرا دیا۔ 

اپنی فوج اور اپنے ملک سے والہانہ محبت کیجئے آپ دنیا کے خوش نصیب ترین لوگ ہیں کہ آپ پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں۔

۔ ۔ ۔
#shefro