Translate

Showing posts with label #Pashtunistan. Show all posts
Showing posts with label #Pashtunistan. Show all posts

Wednesday, May 22, 2019

غداران_پاکستان " 🎃

""خیبر پختون خواہ"" 
۔ ۔ ۔ 

آج اس بندہ ناچیز نے کے پی کے کے غداران کے بارے میں لکھنے کی جسارت کی ہے۔ غدار کا کسی قوم، دین یا وطن سے تعلق نہیں ہوتا اور نہ ہی اس غدار کی وجہ اس علاقے کو غدار کہنا مناسب ہوتا ہے۔ قبائلی یعنی کہ کے پی کے کے پختون بھائی میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے سب سے بڑے وفادار اور محب وطن لوگ ہیں۔

غدار پہلے پہل تو منفاقانہ طرز عمل اختیار کرتا ہےاور خود کو اپنی قوم یا وطن کا بہت بڑا خیر خواہ ثابت کرتا ہے لیکن جیسے جیسے اس کو اپنے جیسے لوگ اور غدار ملتے جاتے ہیں تو پھر وہ اپنی اصل اوقات پر اتر آتا ہے۔
ایسا ہی ایک کردار شمال مغربی سرحدی صوبہ موجودہ خیبر پختون خواہ کا ایک کردار عبدالغفار خان المعروف باچا خان ہے۔

آج اس تحری کی وجہ سے ہو سکتا ہے کچھ لوگ میری مخالفت بھی کریں لیکن میں ساتھ تصاویر بھی اپلوڈ کروں گا کہ کوئی شک باقی نہ رہے۔

باچا خان کا پورا نام عبدالغفار خان تھا۔ 6 فروری 1890 کو پیدا ہوا اور 20 جنوری 1988 کو وفات ہوئی۔ اور افغانستان کے شہر جلال آباد میں دفن ہوا۔
باچا خان کو سرحدی گاندھی بھی کہا جاتا تھا۔ جیسے کے نام سے ظاہر ہے کہ وہ گاندھی کا بہت بڑا مداح اور دوست تھا۔ 
انڈین نیشنل کانگریس سے اس کا 1947 تک یارانہ رہا اور مسلم لیگ سے مخالفت۔ باچا خان ان مسلمان راہنماؤں میں سے تھے جو ناصرف تقسیم ہند کے مخالف تھے بلکہ پاکستان کی مخالفت میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہونے کے مصداق ہندوؤں اور کانگریس سے بھی دس قدم آگے تھے۔ پہلے پہل تو باچا خان نے برطانوی فوج میں شمولیت اختیار کی پھر فوج چھوڑ کر پشتونوں کا نام نہاد راہنما بن کر خدائی خدمت گار کے نام سے ایک پارٹی بنائی۔ 1920 میں بگڑتے حالات کی وجہ سے کانگریس کے ساتھ الحاق کیا اور 1947 تک یہ الحاق قائم رہا۔

باچاخان خؤد کو پختون راہنما کہتا تھا لیکن درحقیقت وہ پختونوں کے پیچھے چھپ کر پاکستان کی مخالفت میں سرگرم عمل تھا۔ جب کانگریس نے بھی تقسیم ہند کا فارمولا قبول کر لیا تو اس نے کانگریس کی مخالفت کی اور گاندھی کو یہاں تک کہا کہ "ہمیں بھڑیوں کے آگے پھینک دیا تم لوگوں نے "یہاں بھڑیوں سے مراد قائد اعظم ،مسلم لیگ اور پاکستان تھے۔ کیوںکہ اپنی کی گئی مخالفت سب نظر کے سامنے تھی تو اپنا انجام بھی نظر آرہا تھا۔

جب کانگریس نے نقیسم ہند کا فارمولا قبول کر لیا تو اس نے پاکستان کے ساتھ رہنے سے انکار کر دیا اور بنوں میں اپنے جیسے نام نہاد اور مفاد پرست لوگوں کا ایک جمگھٹا اکٹھا کیا اور بنوں ریزولیشن کے نام سے ایک قراداد منظور کی جسمیں پاکستان یا بھارت کے ساتھ ریفرنڈم کا بائیکاٹ (بھارت کا نام سرسری ہی تھا کیوںکہ سرحدی صوبے کا بھارت کے ساتھ الحاق ناممکن ہی تھا اصل دشمنی پاکستان سے تھی) افغانستان کے ساتھ الحاق یا آزاد پشتونستان کے نام سے الگ ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا۔ لیکن انگریز نے افغانستان کے ساتھ الحاق یا آزاد پشتونستان کا مطالبہ مسترد کر دیا (انگریز پاکستان کا خیر خواہ تو تھا نہیں بس جاتے جاتے پاکستان میں شورش چھوڑ کر جانا چاہتا تھا جو مسئلہ کشمیر اور پشتونستان کی شکل میں چھوڑ گیا) لیکن جب انگریز نے ان مطالبات کو خارج از مکان کر دیا تو باچا خان اور اسکے چھوٹے بھائی ڈاکٹر خان صاحب نے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کر دیا۔۔ 

لیکن غیور اور محب وطن قبائلی مسلمانوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالا۔اور اس کو منہ کی کھانی پڑی۔1967 میں جواہر لال نہرو اور 1987 میں بھارتی شہری نہ ہونے کے باوجود اس کو "بھارت رتنا ایوارڈ" سے نوازا گیا جو بھارت کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ہے۔ پاکستان کے وجود کا انکاری،شمولیت پاکستان کا مخالف،افغانستان کے ساتھ شمولیت کا داعی اور آزاد پشتونستان کا طالب اور قائد اعظم کا مخالف ہونے کی وجہ سے اسے بھارتی عظیم ایوارڈ سے نوازا گیا جس سے آپ اسکی غداری کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔  کہنے کو تو وہ قوم پرست تھا لیکن اصل میں قوم پرستی کی آڑ میں پاکستان کا مخالف تھا۔ جب آخری وقت قریب آیا تو اس نے وصیت کی کہ مجھے افغانستان میں دفن کیا جائے، بغض پاکستان اور دشمنی میں اتنا آگے تھا کہ پاکستان میں دفن ہونا پسند نہ کیا اور 1988ء میں جب فوت ہوا تو اس کی میت کو افغانستان لے جایا گیا تب سویت یونین افغان جنگ لڑ رہا تھا لیکن تب روس نے جنگ روک دی اور جنازے کا موقع دیا۔ روس کا حوالہ کیوں دیا یہ آگے جا کر بتاؤں گا۔

اس کی اولاد میں سے عبدالولی خان نے عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے اس کی قوم پرستی کی ذہنیت کو آگے بڑھایا۔ 1986 میں پارٹی کی بنیاد رکھی۔ نیشنل عوامی پارٹی سے اختلاف کے بعد نام بدل کر عومی نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی۔ اگرآپ عومی نیشنل پارٹی کا جھنڈا دیکھیں تو وہ سرخ ہے۔ اسمیں سرخ ہونے کی بھی ایک الگ داستان ہے۔ سویت یونین کو سرخ ریچھ بھی کہا جاتا تھا جو کہ سوشلزم کی پہچان رکھتا تھا۔ یہ پارٹی کہنے کو تو قوم پرست تھی لیکن سوشلزم کا پرچار کرتی نظر آتی ہے۔ سویت یونین کا افغانستان آنے کا مقصد پاکستان کے گرم پانیوں تک رسائی تھی افغانستان تو بہانہ تھا پاکستان نشانہ تھا۔ 

افغانستان کو فتح کر کے پاکستان پر حملہ کرنے کی تیاری تھی۔ تو اپنے حامی جو کہ اسے پہلے ہی غدار کے روپ میں نظر آگئے تھے باچا خان کے سپوت عبدالولی خان کو چنا اور عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے اپنی ہم پلہ اور ہم خیال جماعت بناوا دی۔ یہ سرخیے اس وقت بھی یہ کہتے ہوتے تھے کہ بس اب جلد ہی پاکستان پر روس قبضہ کر لے گا۔ یہ درحقیقت روس کے زیر سایہ پاکستان پر حکومت کے خواب دیکھتے تھے۔ لیکن وہ الگ داستان ہے کہ دفاع وطن کی آخری لکیر آئی ایس آئی اور محترم جنرل ضیاءالحق شہید نے کیسے سویت یونین کو شکست فاش دی اور سویت یونین کے ٹکرے ٹکرے کر کے ان کے پاکستان پر روس کے قبضے اور ان کی حکومت کے خواب کو چکنا چور کر دیا۔ 

روس کے ٹکرے ہونے کے بعد افغانستان سے اپنے چیتھڑے لے کر چلے جانے سے اے این پی کی بھی موت واقع ہو گئی اور پاور میں آنے کا خواب خواب ہی رہ گیا۔ بعد میں نعرے میں تھوڑی سی تبدیلی کر کے 2008 سے 2013 میں سرحد اسمبلی میں حکومت کی اور پھر اس کے بعد تحریک انصاف کے حکومت میں آںے سے ان کی تقریبا اسمبلی میں موجودگی محدود ہی رہ گئی۔

اگر عوامی نیشنل پارٹی کے نظریے کو دیکھیں تو سوشل ازم، لبرل ازم اور قوم پرستی صاف دکھائی دیتی ہے۔ سوشل ازم سے انکی سویت یونین سے قربتوں کا اندازہ ہو جاتا ہے، لبرل ازم سے اس پارٹی کے آزاد خیال معاشرے کا قیام ان کی اولین ترجیح ہے جب کہ قوم پرستی اپنے باپ باچا خان کی طرح صرف ایک دکھاوا اور بہانہ ہے اور ویسے بھی قوم پرستی وطن کے لیے بہت بری چیز ہوتی ہے جو بہت نقصان پہنچاتی ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی کالا باغ حقائق آپ کے سامنے رکھے گئے ہیں اب ان کو سمجھنا اور رائے قائم کرنا آپکی ذمہ داری ہے۔

۔ ۔ ۔
#shefro