Translate

Showing posts with label #British_India. Show all posts
Showing posts with label #British_India. Show all posts

Wednesday, May 22, 2019

قیام_پاکستان_اور_اکھنڈ_بھارت

بس تیزی سے براس کی جانب بڑھ رہی تھی، یہ ایک قصبہ ہے جو ایک ٹیلے پر واقع ہے۔ جب ہم یہاں پہنچے تو مٹی کے بَنے ہوئے گھروں میں سے بے شمار بچے اچانک نکلے اور ہماری بس کے گرد جمع ہو گئے۔ 

اس گاؤں میں زیادہ تعداد سکھوں کی تھی چنانچہ ننھے منھے بچوں نے سَروں پر چونڈے کیئے ہوئے تھے اور وہ بہت پیارے لَگ رہے تھے۔ زائرین بسوں میں سے اور قدرے بلندی پر واقع اس چار دیواری میں داخل ہوگئے جہاں ایک روایت کے مطابق انبیاء کرام مدفون ہیں۔ یہاں کئی کئی گز لمبی دو تین قبریں ہیں سب نے وہاں تلاوت قرآن مجید کی اور دعا مانگی۔ 

ہم ڈھلان کی طرف واپس جا ہی رہے تھے کہ ایک دبلا پَتلا سا ہندو ہمارے وفد کے قائد جسٹس صدیق چوہدری کے پاس آیا اور اُن کے کان میں کچھ کہا اور پھر وہ ہندو زائین کے آگے آگے چلنے لگا، جسٹس صاحب نے ہمیں بتایا کہ کہ یہ ہندو انہیں بتا کر گیا ہے کہ سکھوں نے اس گاؤں میں بہت وسیع پیمانے پر مسلمانوں کا خون بہایا تھا۔ انہوں نے سینکڑوں مسلمان عورتوں کی عصمت دری کی تھی، بے شمار مسلمان عورتوں کو انہوں نے اپنے گھروں میں قید کرلیا تھا جو آج بھی انہیی گھروں میں بند ہیں اور ان کے بچوں کی مائیں ہیں۔ 
نیز یہ کہ سینکڑوں مسلمان لڑکیوں نے اپنی عزت بچانے کیلیئے کنوؤں میں چھلانگ لگا دی تھی اور یہ کنویں انکی لاشوں سے پٹ گئے تھے۔ ان میں سے تین کنویں اسکے علم میں ہیں اور وہ انکی نشاندہی کرنا چاہتا ہے۔ 

یہ خبر آگ کی طرح زائرین میں پھیل گئی اور وہ تیز تیز قدم اُٹھاتے اس شخص کے پیچھے چلنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد وہ ائک ہموار جگہ پر رُک گیا جہاں خود رو پھول لہرا رہے تھے ان پھولوں کے نیچے وہ کنوں تھا جو بند ہو چکا تھا اور یہاں مسلمان لڑکیا دفن تھیں۔ یہاں فاتحہ خوانی کے بعد وہ ہمیں ایک مکان پر لے گیا جسکے کنارے پر ایک اور کنواں تھا، وہ بی بند کیا جا چکا تھا۔ وہاں بھی فاتحہ خوانی کی گئی۔ تیسرا کنواں ہت سارے گھروں کے درمیان میں واقع تھا اور یہ اپنی اصلی شکل میں موجود تھا۔ اسے بند نہیں کیا گیا تھا لیکن لاشوں سے پٹ جانے کی وجہ سے چونکہ اسکا پانی پینے کے قابل نہیں رہا تھا لہذا اب اُس میں کوڑا کرکٹ ڈالا جاتا تھا۔ 

یہاں تک پہنچتے پہنچتے ضبط کے سبھی بندھن ٹوٹ چکے تھے۔ غم کی شدت سے زائرین کے کلیجے شق تھےاور آنکھیں ساون کی طرح برس رہی تھیں۔ خود مجھے یوں لگا میں 1977 کی بجائے 1947 میں سانس لے رہا ہوں۔ 
میں نے چشمِ تصور میں دیکھا کہ جوان مَردوں اور بوڑھی عورتوں کی لاشوں سے یہ میدان اُٹا پڑا ہے اور وحشی درندے شراب کے نشے میں دھت بھیانک قہقہے لگاتے ہوئے بچیوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور وہ اپنے والدین اور عزیز و اقرباء کی لاشوں کو پھلانگتی ہوئی اُس کنویں کے پاس آتی ہیں اور ایک ایک کرکے اُس میں چھلانگ لگا دیتی ہیں۔ یہ کنواں لاشوں سے بھر گیا ہے اور اس کا پانی کناروں سے بہنے لگا ہے اور پھر یہ بہتا ہوا پانی فریاد کیلیئے اُس چار دیواری کے پاس جمع ہو گیا ہے جہاں انبیاء کے مزار ہیں۔

یہاں وفد میں شامل ایک باریش بزرگ نے دعا کیلیئے ہاتھ اُٹھائے اور پھر جوں جوں ان کی ہچکیوں بھری آواز بلند ہوتی گئی زائرین کی آہ و بکا میں شدت آتی گئی اور پھر روتے روتے گلے رندھ گئے۔ بھائی تیس برس کے بعد اپنی بہنوں کی خبر لینے آئے تھے اور پل بھر کے بعد انہوں نے پھر سے جدا ہو جانا تھا۔

دعا سے فراغت کے بعد سندھ یونیورسٹی کے ایک نوجوان نے مجھ سے کہا : 
"یہاں آنے سے پہلے میں اکھنڈ بھارت کا قائل تھا اور سمجھتا تھا کہ دو قومی نظریہ غلط ہے۔ میری یہ گزارش ہے کہ آپُ واپس جائیں تو یہ تجویز پیش کریں کہ جو لوگ اپنے دلوں میں پاکستان کے حوالے سے کچھ شکوک و شبہات رکھتے ہیں انہیں یہاں لا کر یہ کنویں دکھائے جائیں۔ یہ خونچکاں منظر نئی نسل کے ان افراد کو خصوصاً دکھائے جائیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان تاریخی عوامل کے بغیر بنا تھا۔ یہ کنویں ان بد نیت دانشوروں کو بھی دکھائے جائیں جو پاکستانی قوم کیلیئے یہ کنویں دوبارہ کھودنا چاہتے ہیں۔

واپسی پر ہندو اور سکھ بچے ہماری بسوں کے گرد جمع ہو گئے اور معصوم نگاہوں سے ہمارے مغموم چہرے دیکھنے لگے۔ میں نے ان میں سے تین چار سال کے ایک پیارے سے بچے کو اٹھایا اور اس کے گالوں پر بوسہ دیتے ہوئے کہا "بیٹے تم تو معصوم ہو، یہ کنویں بھی معصوم لوگوں کی لاشوں سے اَٹے پڑے ہیں۔ اگر تاریک طوفانی راتوں میں تم ان کنوؤں سے چیخیں سنو تو اُن پر کان ضرور دھرنا۔ ہم یہ امانتیں تمہارے بڑوں کے بجائے تمہارے سپرد کر رہے ہیں کہ بچے اس دنیا میں خدا کے سفیر ہوتے ہیں۔

عطاء الحق قاسمی کی کتاب "ہنوز دلی دور است" سے اقتباس))

۔ ۔ ۔
#shefro

Thursday, May 16, 2019

کتوں_کی_دُعا "💎

شاہنامہ اسلام اور قومی ترانے کے خالق ابوالااثر حفیظ جالندھری مرحوم کی آپ بیتی سے, آپ دوستوں کیلئے ایک بہترین  انتخاب !
۔ ۔ ۔

پاک سر زمین شاد باد پاکستانی قومی ترانے اور ’’شاہ نامہ اسلام‘‘ جیسی مشہور و معروف کتاب کے خالق, ابو الاثر حفیظ جالندھری مرحوم, اپنی آپ بیتی میں بیان فرماتے ہیں کہ.. میری عمر بارہ سال تھی۔ میرا لحن داؤدی بتایا جاتا اور نعت خوانی کی محفلوں میں بلایا جاتا تھا۔ اس زمانے میں شعر و شاعری کے مرض نے بھی مجھے آ لیا تھا۔ اسلیئے اسکول سے بھاگنے اور گھر سےاکثر غیر حاضر رہنےکی عادت بھی پڑچکی تھی۔ 

میری منگنی لاھور میں میرے رشتے کی ایک خالہ کی دُختر سے ہو چکی تھی۔ میرے خالو نےجب میری آوارگی کی داستان سُنی تو سیر و تفریح کےبہانے محترم نے جالندھر سے مجھے ساتھ لیا اور محض سیر و تفریح کا سبز باغ دکھلانے شہر گجرات کے قریب قصبہ جلال پور جٹاں میں پہنچ گئے۔ اصل سبب مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ ہونے والے خُسر اور فلحال خالُو میرے متعلق اپنے دینی مرشد سے تصدیق کرنا چاہتےتھےکہ وہ بزرگ ان کی بیٹی کی شادی مجھ جیسےآوارہ سےکر دینے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں۔
یہ پُر انوار پیر و مرشد ایک کہنہ سال بزرگ تھے۔ اُن کے اِردگرد مؤدب بیٹھے ہوئے دوسرے شُرفا سے پہلے ہی دن میں نے نعت سنا کر واہ واہ سبحان اللہ کے تحسین آمیز کلمات سُنے۔

ہر روز نمازِ عشاء کے بعد میلاد کی بزم اورنعت خوانی کا اہتمام ہوتا۔ دو مہینے اسی جگہ گزرے۔

اس سال ساون سُوکھا تھا۔ بارش نہیں ہو رہی تھی لوگ بارش کے لئے میدانوں میں جاکر نمازِ استسقاء ادا کرتے تھے۔ بچّے ، بوڑھے ، جوان مرد و زن دعا کرتے لیکن گھنگھور گھٹا تو کیا کوئی معمولی بدلی بھی نمودار نہ ہوتی تھی۔ یہ ہے پس منظر اس واقعہ کا جسےمیں عجوبہ کہتا ہوں۔ جسے بیان کردینے کے لئے نہ جانےکیوں مجبور ہوگیا ہوں۔ پہلے یہ جان لیجئے کہ وہ محترم بزرگ کون تھے؟ مجھے یقین ہےان کا خاندان آج بھی جلال پور جٹاں میں موجود ہے۔ ان بزرگ کا نام نامی حضرت قاضی عبدالحکیم رحمۃ اللہ علیہ تھا اَسی پچاسی برس کی عمر تھی دُور دُور سے لوگ ان سے دینی اور دُنیوی استفادہ کی غرض سے آتے تھے۔ یہ استفادہ دینی کم دنیوی زیادہ تھا۔ آنے والے اور دو تین دن بعد چلے جانے والے گویا ایک تسلسلِ امواج تھا۔ کثرت سوداگروں اور تجارت پیشہ لوگوں کی تھی ۔

میری نعت خوانی کے سبب حضرت مجھے بسا اوقات اپنے مصلّے کے بہت قریب بٹھائےرکھتےتھے۔ ایک دن میری طرف دیکھ کر حضرت نے کہا ’’برخوردار تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی سےمجھے خوش کرتےہو ، تمہارے لئے میرے پاس بس دعائیں ہی ہیں۔ انشاء اللہ تم دیکھو گے کہ آج تو تم دوسروں کی لکھی ہوئی نعتیں سناتےہو، لیکن ایک دن تمہاری لکھی ہوئی نعتیں لوگ دوسروں کو سنایا کرینگے ۔‘‘اس وقت بھلا مجھے کیا معلوم تھا کہ سرکارِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ محّب صادق میری زندگی کا مقصود بیان کررہے ہیں۔ بہرصورت یہ تواُن کی کرامتوں میں سے ایک عام بات ہے جس عجوبے کے اظہار نے مجھ سے آج قلم اٹھوایا وہ کرامتوں کی تاریخ میں شاید بے نظیر ہی نظر آئے۔ 

ایک دن حضرت قاضی صاحب کے پاس میں اوران کے بہت سے نیاز مند بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں میرے خالو بھی تھے۔ یہ ایک بڑا کمرہ تھا اورحضرت مصلّے پر بیٹھےتھے۔ 

السّلام علیکم کہتے ہوئے کندھوں پر رومال ڈالے سات آٹھ مولوی طرز کے معتبر آدمی کمرے میں داخل ہوکر قاضی صاحب سے مخاطب ہوئے۔ قاضی صاحب نے وعلیکم السلام اوربسم اللہ کہہ کر بیٹھ جانے کاایما فرمایا۔ ہم سب ذرا پیچھے ہٹ گئےاور مولوی صاحبان تشریف فرماہوگئے۔ ان میں سے ایک صاحب نے فرمایا کہ حضرت !ہمیں ہزاروں مسلمانوں نے بھیجا ہے۔ یہ چار صاحبان گجرات سے اور یہ وزیر آباد سے آئے ہیں میں، آپ جانتے ہیں ڈاکٹر ٹیلر کے ساتھ والی مسجد کا امام ہوں۔ 

عرض یہ کرنا ہے کہ آپ اس ٹھنڈے ٹھار گوشے میں آرام سے بیٹھے رہتے ہیں۔ باہر خلق خدا مررہی ہے ، نمازی اور بے نماز سب بارانِ رحمت کے لئے دعائیں کرتے کرتے ہارگئے ہیں۔ ہر جگہ نمازِ استسقاء ادا کی جارہی ہے ۔ کیا آپ اور آپ کے ان مریدوں کے دل میں کوئی احساس نہیں ہے کہ یہ لوگ بھی اُٹھ کر نماز میں شرکت کریں اورآپ بھی اپنی پیری کی مسند پر سے اُٹھ کر باہر نہیں نکلتے ،کہ لوگوں کی چیخ و پکار دیکھیں، اللہ تعالٰی سے دعا کریں تاکہ وہ پریشان حال انسانوں پر رحم کرے اور بارش برسائے۔

میرے قریب سے ایک شخص نے چپکے سے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا ’’یہ وہابی ھے‘‘۔ میں اُن دنوں وہابی کا مفہوم نہیں سمجھتا تھا۔ صرف اتنا سنا تھا کہ یہ صوفیوں کو بُرا سمجھتے ہیں اور نعت خوانی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب سلام پیش کیا جاتا ہےتو یہ لوگ تعظیم کےلئے کھڑے نہیں ہوتے بلکہ کھڑے ہونے والوں کو بدعتی کہتے ہیں۔

مسکراتے ہوئے قاضی صاحب نےپوچھا: ’’حضرات! آپ فقیر سےکیا چاہتے ہیں‘‘۔ توان میں سے ایک زیادہ مضبوط جُثے کے مولوی صاحب نے کڑک کر فرمایا ’’اگر تعویذ گنڈا نہیں تو کچھ دُعا یہ کرو۔ سُنا ہے پیروں فقیروں کی دُعا جلد قبول ہوتی ہے۔‘‘

یہ الفاظ مجھ نادان نوجوان کو بھی طنزیہ محسوس ہوئے تاہم قاضی صاحب پھر مسکرائے اور جواب جو آپ نے دیا وہ اس طنز کے مقابلے میں عجیب و غریب تھا۔

قاضی صاحب نے فرمایا ’’آپ کُتّوں سے کیوں نہیں کہتے کہ دُعا کریں‘‘۔ یہ فرمانا تھا کہ مولوی جی غضب میں آگئے اور مجھے بھی اُن کا غضب میں آنا قدرتی معلوم ہوا۔ چنانچہ وہ جلد جلد بڑبڑاتے ہوئے اُٹھے اور کوٹھڑی سے باہر نکل گئے۔

قاضی صاحب کے اِردگرد بیٹھے ہوئے نیاز مند لوگ ابھی گم صم ہی تھے کہ مولوی صاحبان میں سے جو بہت جَیّد نظر آتے تھے ، دوبارہ کمرے میں داخل ہوئے ، اُن میں سے ایک نے کہا’’حضرت! ہم تو کُتّے کی بولی نہیں بول سکتے- آپ ہی کُتّوں سے دُعا کرنے کے لئے فرمائیے۔‘‘

مجھے اچھی طرح یاد ہے اورآج تک میرے سینے پر قاضی صاحب کا یہ ارشاد نقش ہے۔

حضرت ! پہلے ہی کیوں نہ کہہ دیا ، کل صبح تشریف لائیے کُتّوں کی دُعا ملاحظہ فرمائیے’’!‘‘مولوی صاحبان طنزاً مسکراتے ہوئے چلدئیے اور میں نےاُن کے الفاظ اپنے کانوں سے سُنےکہ ’’یہ صوفی لوگ اچھے خاصے مسخرے ہوتے ہیں۔‘‘

جب مولوی صاحبان چلے گئےتو میرے خالو سے قاضی صاحب نے فرمایا کہ ’’ذراچھوٹےمیاں کو بلائیے۔ ‘‘ چھوٹے قاضی صاحب کانام اب میں بھولتا ہوں۔ مہمانوں کی آؤ بھگت اورقیام و طعام کا سارا انتظام انہی کے سِپرد تھا ۔ انواع و اقسام کے کھانے اور دیگیں قاضی صاحب کی حویلی کی ڈیوڑھی اورصحن میں پکتی رہتی تھیں۔ ساتھ ہی ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد تھی۔ جس میں عشاء کی نماز کے بعد نعت خوانی ہوا کرتی تھی اور میں ذوق و شوق سے یہاں نعت خوانی کیا کرتا تھا۔

میرے خالو ان کے چھوٹے بھائی کو لائے تو قاضی صاحب نے ان سے کہا’’ میاں کل صبح دو تین سو کُتّے ہمارے مہمان ہوں گے آپ کو تکلیف تو ہوگی بہت سا حلوہ راتوں رات تیار کرا لیجئے۔ ڈھاک کے پتوں کے ڈیڑھ دو سو دَونے شام ہی کو منگوا کر رکھ لیجئے گا۔ ڈیوڑھی کے باہر ساری گلی میں صفائی بھی کی جائے۔ کل نماز فجر کے بعد ہم خود مہمانداری میں شامل ہوں گے۔‘‘
چھوٹے قاضی صاحب نے سر جھکایا اگر چہ ان کے چہرے پر تحیر کے آثار نمایاں تھے۔ میرے لئے تویہ باتیں تھی ہی پُراسرار ، لیکن میرے خالو مسجد میں بیٹھ کرقاضی صاحب کےدوسرے مستقل نیاز مندوں اورحاضر باشوں سے چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ کل صبح واقعی کچھ ہونے والا ہے۔

میں نے تین چار کڑاہے حویلی کے صحن میں لائے جاتےدیکھے، یہ بھی دیکھا کہ کشمش، بادام اورحلوے کے دوسرے لوازمات کے پُڑے کھل رہے ہیں۔ سُوجی کی سینیاں بھری رکھی ہیں گھی کے دو کنستر کھولے گئے۔ واقعی یہ تو حلوے کی تیاری کے سامان ہیں۔ ناریل کی تُریاں کاٹی جارہی ہیں اورسب آدمی تعجب کر رہے ہیں کہ کُتّوں کی مہمانداری وہ بھی حلوے سے ؟
صبح ہوئی نماز فجر کے بعد میں نے دیکھا کہ قاضی صاحب قبلہ دو تین آدمیوں کو ساتھ لئے ہوئے اپنی ڈیوڑھی سے نکل کر گلی میں اِدھر اُدھرگھومنے لگے چند ایک مقامات پر مزید صفائی کے لئے فرمایا۔میری ان گناہ گار آنکھوں نے یہ بھی دیکھا کہ اس گلی میں دونوں طرف یک منزلہ مکانوں کی چھتوں پر حیرت زدہ لوگ کُتّوں کی ضیافت کا کرشمہ دیکھنے کے لئے جمع ہونا شروع ہوگئے تھے ۔ اورجلال پور جٹاں میں سے مختلف عمر کے لوگ اس گلی میں داخل ہورہے تھے۔ وہ قاضی صاحب کو سلام کرکے گلی میں دیواروں کے ساتھ لگ کر کھڑے ہوجاتے اورجانے کیا بات تھی کہ یہ سب اونچی آواز سے باتیں نہیں کرتے تھے۔ کوٹھوں پر عورتیں اور بچے تھے۔

ہم دونوں قاضی صاحب کا بھتیجا محمد اکرام اورمیں مسجد کی چھت پر چڑھ گئے اور یہاں سے گلی میں ہونے والا عجیب و منظر دیکھنےلگے۔
درویش طرز کے چند آدمی حلوے سے بھری ہوئی سینیاں لاتے جارہے تھے۔ اور قاضی صاحب چمچے سے ان دَونوں کو پُر کرتے پھر دونوں ہاتھوں سے دَونا اٹھاتے اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مین گلی کے درمیان رکھتے جاتے۔ جب پوری گلی میں حلوے بھرے دَونے رکھے جاچکے تو اُنہوں نے بلند آواز سے دَونوں کو گِنا۔ مجھے یقین ہے کہ گلی میں دیواروں کی طرف پشت کئے کھڑے سینکڑوں لوگوں نے قاضی صاحب کا یہ فقرہ سُناہوگا: ’’کُل ایک سو بائیس (۱۲۲) ہیں۔‘‘
یہ کام مکمل ہوا ہی تھا کہ زور زور سے کچھ ایسی آوازیں آنے لگیں جن کو میں انسانی ہجوم کی چیخیں سمجھا ۔ مجھے اعتراف ہے کہ اُس وقت مجھے اپنے بدن میں کپکپی سی محسوس ہونے لگی، میں نے گلی میں ہر طرف دیکھا تو عورتیں اور بچے اورمرد گلی میں اور کوٹھوں سےچیخ رہے تھے۔
کیوں چیخ رہے تھے اس لئے کہ ایک کُتّا جس کو، جب سے میں یہاں وارد ہوا تھا، حویلی کے اِردگرد چلتے پھرتے اورمہمانوں کا بچا کچھا پھینکا ہوا کھانا کھاتےاکثر دیکھا تھا، بہت سے کُتّوں کو اپنے ساتھ لئے ہوئے گلی کی مشرقی سمت سے داخل ہوا۔ جو بے شمار کتّے اس کے پیچھے پیچھے گلی میں آئے تھے ان میں سے ایک بھی بھونک نہیں رہا تھابھونکنا توکیا اس قدر خلقت کو گلی میں کھڑے دیکھ کر کوئی کتّا خوفزدہ نہ تھا۔ اورنہ کوئی غرّا رہا تھا۔ کتّے دو دو تین تین آگے پیچھے بڑے اطمینان کے ساتھ گلی کے اندر داخل ہورہے تھے۔

کتّوں کی یہ پُراسرار کیفیت دیکھ کر ساری خلقت نہ صرف پریشان تھی بلکہ دہشت زدہ بھی ، پھر ایسی دہشت آج تک مجھے بھی محسوس نہیں ہوئی۔
قاضی صاحب اگر اپنے ہونٹوں پر انگشتِ شہادت رکھ کر لوگوں کو خاموش رہنے کی تلقین نہ کرتے تو میں سمجھتا ہوں کہ گلی میں موجود سارا ہجوم ڈر کر بھاگ جاتا۔
اس گلی والا وہ کُتّا جس کا میں ذکر کر چکا ہوں قاضی صاحب کے قدموں میں آکر دُم ہلانے لگا۔ قاضی صاحب نے جو الفاظ فرمائے وہ بھی مجھے حرف بہ حرف یاد ہیں۔ فرمایا ’’بھئی کالو! تم تو ہمارے قریب ہی رہتے ہو، دیکھو، انسانوں پر اللہ تعالٰی رحمت کی بارش نہیں برسا رہا، اللہ کی اور مخلوق بھی ہم انسانوں کے گناہوں کے سبب ہلاک ہو رہی ہے ۔ اپنے ساتھیوں سے کہو، سب مل بیٹھ کر یہ حلوہ کھائیں پھر اللہ سے دعا کریں کہ رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے بادلوں کو اجازت دے تاکہ وہ پیاسی زمین پر برس جائیں۔‘‘
یہ فرما کر حضرت قاضی صاحب اپنی ڈیوڑھی کے دروازے میں کھڑے ہوگئے اورمیں کیا سبھی نے ایک عجوبہ دیکھا۔

خدارا یقین کیجئے کہ ہر ایک حلوہ بھرے دَونے کے گِرد تین تین کُتّے جُھک گئےاور بڑے اطمینان سے حلوہ کھانا شروع کردیا۔ ایک بھی کُتّا کسی دوسرے دَونے یا کتّے پر نہیں جھپٹا، اورنہ کوئی چیخا چلایااورجس وقت یہ سب کُتّے حلوہ کھا رہےتھے ایک اور عجیب و غریب منظر دیکھنے میں آیا کہ وہ کتا جو اس گلی کا پرانا باسی اوران تمام کتّوں کو یہاں لایا تھا خود نہیں کھارہا تھا بلکہ گلی میں مسلسل ایک سِرے سے دوسرے سِرے تک گھومتا رہا، جیسے وہ ضیافت کھانے والے کتّوں کی نگرانی کررہا ہو یا میزبانی۔ میں نے اسکول میں اپنے ڈرل ماسٹر صاحب کو طالب علموں کو اِسی طرح نگرانی کرتے وقت گھومتے دیکھا تھا۔ کالو کا انداز معائنہ بڑا پُر شکوہ تھا جس پر مجھے اپنا ڈرل ماسٹر یاد آگیا۔ کیونکہ ہم میں سے کوئی لڑکا ماسٹر صاحب کے سامنے ہلتا تک نہیں تھا۔
تھوڑی دیر میں سب کُتّے حلوہ کھا کر فارغ ہوگئے بے شمار لوگوں نے ہجوم میں سے صرف حضرت قاضی صاحب کی آواز ایک مرتبہ پھر سنائی دی۔ وہ فرمارہے تھے،’’لو بھئی کالو! ان سے کہو کہ اللہ تعالٰی سے دُعا کریں تاکہ خدا جلد ہی انسانوں پر رحم کرے‘‘۔

یہ سنتے ہی میں نے غیر ارادی طور پر ایک طرف دیکھا تو کل والے مولوی صاحبان ایک سمت کھڑے اس قدر حیرت زدہ نظر آئےجیسے یہ لوگ زندہ نہیں یا سکتے کے عالم میں ہیں۔اب صبح ، کے نو دس بجے کا وقت تھا، ہر طرف دھوپ پھیل چکی تھی ، تپش میں تیزی آتی جارہی تھی ۔ جب قاضی صاحب نے ’’کالو’’ کو اشارہ کیا۔ حیرت انگیز محشر بپا ہوا۔ تمام کتّوں نے اپنا اپنا مُنہ آسمان کی طرف اُٹھالیا اور ایک ایسی متحد آواز میں غُرانا شروع کیا جو میں کبھی کبھی راتوں کو سُنتا تھا۔ جسے سُن کر میری دادی کہا کرتی تھیں، ’’کُتّا رو رہا ہے خدا خیر کرے‘‘۔
آسمان کی طرف تھوڑی دیر مُنہ کئے لمبی آسمان کی طرف تھوڑی دیر مُنہ کئے لمبی غراہٹوں کے بعد یہ کتّے جو مشرقی سمت سے اس کوچے میں داخل ہوئے تھے۔ اب مغرب کی طرف چلتے گئے۔

میں اور قاضی اکرام ہی نہیں جلال پور جٹاں کے سبھی مردوزن کتّوں کو گلی سے رخصت ہوتے دیکھ رہےتھے۔ اورخالی دَونے آسمان کی طرف منہ کھولے گلی میں بدستور پڑے تھے۔ (یہ دستِ دُعا تھے)۔
جونہی کُتّے گلی سے نکلے قاضی صاحب کے ہاتھ بھی دُعا کے لئے اُٹھ گئے اور ان کی سفید براق داڑھی پر چند موتی سے چمکنے لگے یقیناً یہ آنسو تھے۔
پَس منظر بیان ہو چکا اب منظر ملاظہ فرمائیے۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ میں جو آج ستّر برس اور گیارہ میہنے کابوڑھا بیمار ہواللہ عزوجل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ بادل گرجا اور مغرب سے اس تیزی کے ساتھ گھٹا اُمڈی کہ گلی ابھی پوری طرح خالی بھی نہ ہوئی تھی ، مرد ، عورتیں ، بچے بالے ابھی کوٹھوں سے پوری طرح اُترنے بھی نہ پائے تھے کہ بارش ہونے لگی۔ ہم بھی مسجد کی چھت سے نیچے اُترے۔ پہلے مسجد میں گئے اورپھر حلوہ کھانے کا شوق لئے ہوئےحویلی کی ڈیوڑھی میں چلے گئے۔ دیکھا کہ وہی معتبر مولوی صاحبان چٹائیوں پر بیٹھے ہیں اورحضرت قاضی صاحب حلوےکی طشتریاں ان لوگوں کے سامنے رکھتےجارہے ہیں۔ وہ حلوہ کھاتے بھی جارہے ہیں اورآپس میں ہنس کر باتیں بھی کررہے ہیں۔ ایک کی زبان سے میں نے یہ بھی سُنا کہ حضرت یہ نظر بندی کا معاملہ نہیں ہے تو اور کیاہے۔ جادو-نعوذباللہ۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ قاضی صاحب قبلہ ان کی اس بات پر دیر تک مسکرائے اوران بن بلائے مہمانوں کے لئے مزید حلوہ طلب فرماتے رہے۔ باہر بارش ہو رہی تھی اوراندر مولوی صاحبان خوشی سے حلوہ اڑارہے تھے ۔ قاضی صاحب کے جو الفاظ آج تک میرے سینے پر منقوش ہیں میں یہاں ثبت کئے دیتا ہوں اورمیرا ایمان ہے کہ یہی مقصود تھا۔
قاضی صاحب نے کہا تھا ’’کُتّے مل جل کر کبھی نہیں کھاتے لیکن یہ آج بھلائی کے لئے جمع ہوئے تھے۔ اللہ کے بندوں کے لئے دُعا کرنے کے لئے وہ اتنے متحد رہے کہ ایک نے بھی کسی دوسرے پر چھینا جھپٹی نہیں کی۔ ان کا ایک ہی امام تھا۔ اس نے کھایا بھی کچھ نہیں۔ اب وہ آئے گا تو میں اس کے لئے حلوہ حاضر کروں گا۔‘‘

ایک مولوی صاحب نے کہا’’حضرت ہمیں تو یہ جادوگری نظر آتی ہے۔‘‘ قاضی صاحب بولے ’’مولوی صاحب ! ہم تو آپ ہی کے فَتوؤں پر زندگی گزارتے ہیں۔ خواہ اسے جادو فرمائیں یا نظر بندی آپ نے یہ تو ضرور دیکھ لیا ہے کہ کُتّے بھی کسی نیک مقصد کے لئے جمع ہوں تو آپس میں لڑتے جھگڑتے نہیں۔ ‘‘ یہ سُن کر مولوی صاحبان جھیپتے نظر آئے۔
مجھے یاد ہے کہ مولوی صاحبان کو بھیگتے ہوئے ہی اس ڈیوڑھی سے نکل کر جاتے ہوئے میں نے دیکھا تھا۔ بخدا یہ عجوبہ اگر میں خود نہ دیکھتا تو کسی دوسرے کے بیان کرنےپر کبھی یقین نہ کرتا۔ یاد رہے کہ میں وہی حفیظ جالندھری ہوں جس کے بارے میں حضرت قاضی صاحب نے جلال پور جٹاں میں ساٹھ سال پہلے فرمایا تھاکہ حفیظ؎ تیری لکھی ہوئی نعتیں دوسرے سنایا کریں گے ۔

""" الحمدللہ ، نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم یعنی ’’شاہنامہ اسلام‘‘ ساری دنیا کے اُردوجاننے والے مسلمان خود پڑھتے اوردوسروں کو بھی سُناتے ہیں۔ 

"...ارادت ہو تو دیکھ ان خرقہ پوشوں کو"
"...ید بیضا لئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں"

☘۔ ۔ ۔
#shefro