زرتشت قدیم فارس کا مفکر اور مذہبی پیشوا تھا۔
۔ ۔
اس کا سلسلہ نسب پہلوی مصنفین نے یوں بیان کیا ہے:
زرتشت بن پوروشسپ بن پیتیرسپ بن ہردرشن بن ہردار بن اسپنتمان بن ویداشت بن نایزم (یا ہایزم) بن راجشن (یا ایرج) بن دورانسرو (یا دورشیریں) بن منوچہر بن ایرج بن فریدوں۔
اوستا میں ممدوح کا نام زرتُشتَرَہ آیا ہے۔ لیکن مختلف میں اختلاف قاعدہ ہجا نے مختلف صورتیں پیدا کر دی ہیں۔ چنانچہ لاطینی میں زوروایسٹریس بنا۔ بلکہ اسی پر بس نہیں ہوا مختلف مصنفین نے اپنے مذاق کے موافق مختلف صورتیں اختیار کر لیں۔ مثلاً زرُوادوس، زرادس، زروآٹرس، زاراٹوس، زارس وغیرہ۔ آرمینیا کا ایک مصنف زرویسٹ لکھتا ہے اور دوسرا زڈرادوٹس۔ تیسرا زراڈشٹ۔ انگریز زوراسٹر کہتے ہیں۔
مصنفین عرب اگرچہ مختلف طور پر ہجا کرتے ہیں۔ لیکن پہلوی صورت سے باہر نہیں جاتے۔ پہلوی والے عموماً زَرَتُست لکھتے ہیں۔
مروجہ فارسی والے زرتست، زردشت، زردست، زردہشت، زراتست، زرادست، زراتھست، زرادھشت اور ررہست لکھتے ہیں۔ لیکن اصلیت ان سب کی ہی زرتشترہ ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ہجا میں اختلاف ہے تو لفظ کے معنی میں بھی اسی قدر اختلاف ہوگا۔ ہر شخص نے اپنا زور طبع دکھایا ہے۔ اور ایک نئی بات اختراع کی ہے۔
• ابتدائی زندگی !
افغانستان کے مقام گنج میں پیدا ہوا۔ جوانی گوشہ نشینی ، غور و فکر اور مطالعے میں گزاری۔ سات بار بشارت ہوئی۔ تیس برس کی عمر میں اہورا مزدا (اُرموز) یعنی خدائے واحد کے وجود کا اعلان کیا لیکن وطن میں کسی نے بات نہ سنی۔ تب مشرقی ایران کا رخ کیا اور خراسان میں کشمار کے مقام پر شاہ گستاسپ کے دربار میں حاضر ہوا۔ ملکہ اور وزیر کے دونوں بیٹے اس کے پیرو ہو گئے۔
بعد ازاں شہنشاہ نے بھی اس کا مذہب قبول کر لیا۔ کہتے ہیں کہ تورانیوں کے دوسرے حملے کے دوران میں بلخ کے مقام پر ایک تورانی سپاہی کے ہاتھوں قتل ہوا۔ کوروش اعظم اور دارا اعظم نے زرتشتی مذہب کو تمام ملک میں حکماً رائج کیا۔ ایران پر مسلمانوں کے قبضے کے بعد یہ مذہب اپنی جنم بھومی سے بالکل ختم ہو گیا۔ آج کل اس کے پیرو، جنہیں پارسی کہا جاتا ہے ہندوستان، پاکستان، افریقا، امریکہ اور یورپ میں بہت قلیل تعداد میں پائے جاتے ہیں۔
• پارسی مزہب !
پارسی زرتشت کے پیروکاروں کو کہتے ہیں۔ عربوں نے ایران فتح کیا تو ان میں سے کچھ مسلمان بن گئے، کچھ نے جزیہ دینا قبول کیا اور باقی (آٹھویں، دسویں صدی عیسوی) ترک وطن کرکے ہندوستان آ گئے۔
زرتشت ثنویت کا قائل تھا۔ اس کا دعوی تھا کہ کائنات میں دو طاقتیں (یا دو خدا) کارفرما ہیں۔ ایک اہورا مزدا (یزداں) جو خالق اعلیٰ اور روح حق و صداقت ہے اور جسے نیک روحوں کی امداد و اعانت حاصل ہے۔ اور دوسری اہرمن جو بدی، جھوٹ اور تباہی کی طاقت ہے ۔ اس کی مدد بد روحیں کرتی ہیں۔ ان دونوں طاقتوں یا خداؤں کی ازل سے کشمکش چلی آرہی ہے اور ابد تک جاری رہے گی ۔
جب اہورا مزدا کا پلہ بھاری ہو جاتا ہے تو دنیا امن و سکون اور خوشحالی کا گہوارہ بن جاتی ہے اور جب اہرمن غالب آجاتا ہے تو دنیا فسق و فجور ، گناہ و عصیاں اور اس کے نتیجے میں آفات ارضی و سماوی کا شکار ہو جاتی ہے۔
پارسیوں کے اعتقاد کے مطابق بالآخر نیکی کے خدا یزداں کی فتح ہو گی اور دنیا سے برائیوں اور مصیبتوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ زرتشتی مذہب کے تین بنیادی اصول ہیں۔ گفتار نیک ، پندار نیک ، کردار نیک ۔ اہورا مزدا کے لیے آگ کو بطور علامت استعمال کیا جاتا ہے کہ کیوں کہ یہ ایک پاک و طاہر شے ہے اور دوسری چیزوں کو بھی پاک و طاہر کرتی ہے۔ پارسیوں کے معبدوں اور مکانوں میں ہر وقت آگ روشے رہتی ہے غالباً اسی لیے انہیں آتش پرست سمجھ لیا گیا ۔ عرب انھیں مجوسی کہتے تھے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے مذہبی رہنما کے پاس اوستا کا وہ قدیم نسخہ موجود ہے جو ان کے پیغمبر زردشت یا زرتشت پر نازل ہوا تھا۔ پارسی اپنے مردوں کو جلانے یا دفنانے کی بجائے ایک کھلی عمارت میں رکھ دیتے ہیں تاکہ اسے گدھ وغیرہ کھا جائیں۔ اس خاص عمارت کو دخمہ ’’منار خاموشی‘‘ کہا جاتا ہے۔ دخمہ ایسے شہروں میں تعمیر کیا جاتا ہے جہاں پارسیوں کی زیادہ تعداد آباد ہو، مثلا بمبئی، کراچی۔ اور جہاں دخمہ نہیں ہوتا وہاں ان کے قبرستان ہوتے ہیں جن میں مردوں کو بہ امر مجبوری دفن کیا جاتا ہے۔
جسمانی طہارت اور کھلی فضا میں رہائش پارسیوں کے مذہبی فرائض میں داخل ہے۔ پاکیزگی کی مقدس علامت کے طور پر، ان کے معابد اور مکانات میں، ہر وقت آگ روشن رہتی ہے۔ خواہ وہ چراغ ہی ہو۔ ہندو ’’سناتن دھرم‘‘ اور یہودیوں کی طرح، پارسی مذہب بھی غیر تبلیغی ہے۔ یہ لوگ نہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اپنے مذہب میں داخل کرتے ہیں اور نہ ان کے ہاں شادی کرتے ہیں۔
ان کڑی پابندیوں کے باعث ابھی تک دوسرے طاقتور مذاہب ’’اسلام، ہندو مت، مسیحیت‘‘ کے ثقافتی اثرات سے محفوظ ہیں۔ حصول علم ان کا جزو ایمان ہے۔ ہر پارسی معبد میں ایک اسکول ہوتا ہے۔ دنیا میں پارسیوں کی کل تعداد لاکھوں میں ہے اور اس میں بھی ان لوگوں میں شادی کے رجحان کے کم ہونے سے مزید کمی واقع ہو رہی ہے۔
روایات کا تحفظ معدوم ہوتی پارسی برادری کے لیے نہایت اہم ہے۔ آج دنیا میں ایک اندازے کے مطابق صرف کم و بیش دولاکھ پارسی باقی رہ گئے ہیں جن میں سے بیشتر بھارت میں آباد ہیں۔ کم تعداد میں ہونے کے باوجود پارسی بھارتی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ٹاٹا خاندان سمیت ملک کے اہم صنعت کار پارسی ہی ہیں۔
ہمارے صوبہ سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کی سینٹ سیویئر چرچ والی چاڑھی اترتے ہی ایک قدیم عمارت نمودار ہوتی ہے جسے شہر کی بلڈر مافیا کے علاوہ ہر ایک شہری نے بھی اسکی تباہ کرنے میں حصہ ڈالا ہے۔
سندھ کے مقبول شاعر اور قدیمی عمارتوں کو فوٹوز میں محفوظ رکھنے کے شائق ایاز گل نے بی بی سی کو بتایا کہ پارسی سکھر اور کراچی کے ماضی قریب کا حصہ رہے ہیں اوران کے یادگار اور قدیمی عمارتوں کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’گو کہ پارسی کمیونٹی اب سکھر میں رہائش پزیر نہیں مگر ان کے ورثے کو کسی ایک دو افراد کے رحم و کرم پر چھوڑنے سے بہتر ہے کہ ان کو محفوظ بنایا جائے تا کہ آنے والے کل میں کم از کم ان کا شاندار ماضی تو زندہ رہ سکے۔‘
آج سے چند سال پہلے کے اعدادوشمار کے مطابق پارسیوں کی آبادی میں پوری دنیا میں 18سال سے کم عمر افراد کا تناسب کل آبادی کا 18فیصد ہے جب کہ 18سے 60 برس تک عمروں تک پارسی افراد کا تناسب 31فیصد ہے اور باقی آبادی 60برس کی عمر سے بھی زیادہ عمررسیدہ ہے اسطرح ان میں شرح پیدائش شرح اموات کے مقابلے میں بہت کم ہے اور پھر امریکا اورکینیڈا میں اب یہ لوگ دوسرے مذاہب کے لوگوں سے شادیاں بھی رچا رہے ہیں حالانکہ ماضی میں یہ لوگ نہ دوسرے مذہب کے فرد کو شادی میں اپنی لڑکی دیتے تھے اور نہ باہر سے یعنی دوسری مذہب کے فرد سے شادی کرتے تھے۔
پارسی کمیونٹی تیزی سے معدوم ہو رہی ہے اور بعید نہیں کہ عنقریب یہ صفحہ ہستی سے ہی مٹ جائے کراچی کی تاریح جب بھی کوئی غیر جانبدار اور دیانتدار تاریخ دان لکھے گا تو وہ اس شہر کی آبادی، اس کے رفاعی اور فلاحی اداروں کے قیام اور ان کے فروغ میں پارسی اقلیت کے نمایاں کردار کو اجاگر کریگا۔
تجارت کے معاملات میں اس اقلیتی پارسی کمیونٹی نے دیانت داری کے جواعلیٰ معیار قائم کیے وہ سنہرے حروف میں لکھنے کے قابل ہیں۔
۔ ۔ ۔
#shefro