Translate

Showing posts with label #HHH. Show all posts
Showing posts with label #HHH. Show all posts

Thursday, June 6, 2019

ء65 کی جنگ 💠

پاکستانی گلوکار اور ریڈیو پاکستان !!

۔ ۔ ۔
ہمارے گلوکاروں، شاعروں، موسیقاروں اور ریڈیو پاکستان نے 1965 کی جنگ میں قوم کو ایسے انمول اور لاجواب قومی نغمے سنائے کہ جن کی خوشبو، جذبات، ساز اور آواز کو آج بھی سن کر لہو گرما جاتا ہے۔ جذبہ حب الوطنی میں ایسے ترانے تخلیق کیے گئے جن کا آج بھی کوئی ثانی نہیں۔ 

ء1965 کی جنگ میں ریڈیو پاکستان لاہور سے "عنایت حسین بھٹی" کی منفرد اور گرج دار آواز میں ایک ترانہ گوجتا ہے.. ”اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا ” اور اسی جنگی ترانے سے پاکستان میں قومی موسیقی کے باب کا آغاز ہوتا ہے۔ 

تاریخ گواہ ہے کہ کس طرح شاعروں، فنکاروں موسیقاروں نے ریڈیو پاکستان کا رخ کیا اور مشہور و معروف گلوکار سلیم رضا بلا معاوضہ سب سے پہلے ریڈیو پاکستان پہنچے اور سب سے زیادہ قومی نغمے ریکارڈ کروائے۔ “زندہ رہے گا سیالکوٹ تو زندہ رہے گا” اسٹوڈیو سے لے کر جنگی محاذ تک اپنی آواز کا جادو جگاتے رہے۔

"ناصر کاظمی" کے قلم اور "عنایت حسین بھٹی" کی آواز نے سرگودھا کے باسیوں کو زندہ دلی کا ایسا خراج تحسیں پیش کیا جسکی آج تک کوئی مثال نہیں ملتی “زندہ دلوں کا گہوارہ سرگودھا شہر ہمارا”۔

 پاکستان اور بھارت کی جنگ جاری تھی کہ عنایت حسین بھٹی نے اپنا تمام سرمایہ پاک فوج کے دفاعی فنڈ میں جمع کروا دیا اور اپنے پاس صرف 250 روپے رکھے۔ جب ان کی اہلیہ نے ان سے پوچھا کہ اگر یہ جنگ طویل ہو گئی تو پھر کیا ہوگا ؟ جواب میں بھٹی صاحب نے فرمایا کہ اگر میرا وطن ہی نہ رہا تو پھر کیا ہو گا ؟ اس لیے میرا سب کچھ میرے وطن کا ہے، اور وطن پر سب کچھ قربان۔

ء6 ستمبر 1965 کو ایک طرف پاک فوج نے اپنا مورچہ سنبھالا تو دوسری طرف شاعروں، موسیقاروں اور گلوکاروں نے بھی اپنا محاذ "ریڈیو پاکستان لاہور" پر سنبھالا ہوا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ نغمے فضاؤں میں ہتھیار بن کر گونج رہے ہوں۔ 

صوفی تبسم کے تحریر کردہ گیت ”اے پُتر ہٹاں تے نئیں وکدے” کو میڈم نور جہاں نے اپنی درد بھری آواز میں گا کر پوری قوم کو جذبہ حب الوطنی سے سرشار کر دیا اور خود انمول بن کر آسمان کو چھونے لگیں۔

ء65  کی جنگ میں مہدی حسن بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے...
” اپنی جاں نذر کروں،اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مردِ مجاہد تجھے کیا پیش کروں”

حقیقت میں مسرور انور صاحب نے اس گیت کو لکھ کر قوم کو اپنا سلام پیش کیا ہے اور مہدی حسن صاحب نے اسے گا کر اصل میں وطن عزیر پر جان نچھاور کر کے دکھائی ہے۔

 اسی طرح "مشیر کاظمی" صاحب نے بھی ایک شاہکار نغمے کو جنم دے کر اپنے آپ کو امر کر دیا؛
 ”اے راہِ حق کے شہیدو ، وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں”

 ٹھیک اسی طرح "نسیم بیگم" نے بھی اس نغمے کو گا کر اس کا حق ادا کیا اور یہ سچ ثابت کر دیا کہ جو بھی مجاھد اس نغمے کو سنے گا یقیناً وہ جام شہادت مانگے گا۔ 

"نذیر بیگم" بھی کسی سے پیچھے نہ رہیں اور پنجابی میں”بلے بلے لاھورئیے سیالکوٹیے” کو ایسا گایا کہ جس کو صدیوں تک یاد رکھا جائے گا۔ 

ڈاکٹر رشید انور کی “جگنی پاکستان دی اے” نے "عالم لوہار" کو پورے عالم میں مشہور و معروف کر دیا۔

"حمایت علی شاعر" کے قلم سے لکھا ہوا تاریخی ملی نغمہ “جاگ اٹھا ہے سارا وطن” جس کو "مسعود رانا" اور "شوکت علی" نے گایا اور مقبولیت کے عروج پر پہنچایا۔

 دیکھا جائے تو 65 کی جنگ میں میڈم نورجہاں، مہدی حسن، نسیم بیگم، مسعود رانا، تاج ملتانی استاد امانت علی، روشن آرا بیگم، طفیل نیازی, عالم لوہار اور شوکت علی سلیم رضا،احمد رشدی، ناہید نیازی،عشرت جہاں، نگہت سیما، مالا بیگم اور اس وقت کے تمام شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں نے نایاب شاہکاروں کو جنم دے کر شہیدوں، غازیوں اور عوام کو ایسا خراج تحسین پیش کیا جس کی مثال رہتی دنیا تک نہیں ملے گی۔

ء65 کی جنگ میں ریڈیو پاکستان اور ہمارے شاعروں، فنکاروں اور گلوکاروں کے کردار کو کبھی جدا نہ کیا جا سکے گا۔ کیونکہ ریڈیو پاکستان سے گونجنے والے ملی نغموں اور جنگی ترانوں نے اس جنگ کو پاکستانیوں کے لیے "راہ حق اور وفا" کی جنگ بنا دیا تھا۔

۔ ۔ ۔
#shefro

Sunday, July 22, 2018

The Day My Son Earned His Yellow Belt


It’s been almost three months since my son started Tae Kwon Do. My wife and I were certain he’d into some form of martial arts since the day he fell in love with the Teenage Mutant Ninja Turtles, but we didn’t really understand the process.
A few weeks ago I wrote an article about how he’d gotten his first stripe on his white belt, the first belt in Tae Kwon Do. The moment he came home with the stripe I was reminded what it meant to be a proud parent. I was reminded what it meant to look at your child and truly understand how joy manifested itself in children.
Now, three months after he got his first stripe, he’s sporting a yellow belt. The second stage in his long journey to becoming a black belt in his art. My wife and I sat on the cushy mat spread all over the floor of the dojo and leaned against the wall as our little martial artist warmed his muscles.
The room was lined with other parents like us, some with children seeking an orange or green belt, and some seeking a yellow belt along with our son. There was a hushed chatter along the walls as parents pointed and smiled, a select few giving their children cold stares because they were playing instead focusing.