Translate

Thursday, August 1, 2019

"تلوار_کی_دھار" 🎿

عثمانی سلطان سلیم الاول ظاہری زیب و زینت کو زیادہ خاطر میں نہ لاتا اور مملکت کے وزراء اور رؤساء بھی اس کی پیروی کرتے۔

یہاں تک کہ سلطان کا دیوان زیب و زینت اور خوبصورت لباس سے خالی ہوتا چلا گیا اور اس کی جگہ ان کا لباس عام اور ردی قسم کا ہوتا جس کی انھیں سلطان کے لباس کی تقلید میں پہننا پڑتا تھا۔

صدر اعظم نے دیوان میں یورپی مملکت کے سفیر کی آمد سے فائدہ اٹھایا اور سلطان کی خدمت میں عرض کی: میرے آقا سلطان ہمارا دشمن ناقص العقل ہے، اس لئے وہ ہر چیز کو سطحیت سے دیکھتا اور ظاہری زیب و زینت کو ضرورت سے زائد اہمیت دیتا ہے اور سلطان معظم اگر مناسب سمجھیں تو… سلطان بات کاٹ کر بولا:
"ٹھیک ہے ایسا ہی کرتے ہیں ، تم بھی اپنے لئے زرق برق نئے لباس زیب تن کرنے کیلئے سوچو"

وزراء اس سلطانی حکم کو پا کر بے حد خوش ہوئے اور اپنے پاس موجود اس موقع کی مناسبت سے قیمتی ترین لباس تلاش کرنے لگے جو سلطان کی قیمتی و خوبصورت قبا کے قریب تر ہوں۔ سلطان نے سفیر کی آمد سے قبل تخت کے پاس بے نیام تلوار رکھوانے کا حکم دیا۔

اس دن وزراء اور معززین مملکت شاہی دربار میں سلطان کے منتظر تھے اور انھیں توقع تھی کہ سلطان عام معمول سے ہٹ کر قیمتی لباس زیب تن کر کے آئیں گے۔
سلطان وہی پرانا لباس زیب تن کئے دربار میں داخل ہوئے وزراء بھونچکے رہ گئے اور اپنے دل میں شرمندگی محسوس کرنے لگے، کہ ان کے لباس ان کے سلطان کے لباس سے زیادہ خوبصورت اور بیش قیمت تھے، شرمندگی سے سر جھکا کر بیٹھ گئے اور اس کی وجہ جاننے کا انتظار کرنے لگے۔

سفیر دربار میں داخل ہوا اور سلطان کے سامنے جھک کر لرزتا کانپتا کھڑا ہو گیا، تھوڑی سی بات چیت کے بعد سفیر تیزی سے باہر نکل گیا۔ تب سلطان نے اپنے وزراء میں سے ایک سے کہا کہ وہ جا کر سفیر سے سلطان کے لباس کے بارے میں سوال کرے، سفیر کا جواب انتہائی حیران کن تھا …

"میں نے سلطان معظم کو نہیں دیکھا تخت کی پائنتی کے ساتھ کھڑی بے نیام تلوار نے میری نظر اچک لی اور میں اس کے علاوہ اور کسی جانب دیکھ ہی نہ پایا" سلطان کے سامنے جب یہ بات دہرائی گئی تو سلطان نے تخت کے ساتھ پڑی بے نیام تلوار کی جانب اشارہ کر کے کہا:::؛

"جب تک ہماری تلوار کی دھار تیز ہے دشمن کی آنکھیں ہمارا لباس نہیں دیکھیں گی اور نہ ہی اس جانب متوجہ ہوں گی، اللہ ہمیں وہ دن نہ دکھائے جب ہماری تلواریں کند ہو چکی ہوں اور ہم لباس اور ظاہری زیب وزینت میں مشغول ہوں…"

ماخذ..
التاريخ السري للامبراطورية العثمانية - مصطفي أرمغان)))))

۔ ۔ ۔
#shefro

"ابو_لہب"🔥

قرآن مجید کی حیرت انگیز پیشین گوئی !
۔ ۔ ۔

  ابو لہب کا اصل نام "عبدالعزٰی" تھا۔ 

قرآن مجید میں صرف اسی شخص کا نام لے کر اس کی مذمت کی گئی ہے حالانکہ مکہ میں بھی اور ہجرت کے بعد مدینہ میں بھی بہت سے لوگ ایسے تھے جو اسلام اور پیغمبر اسلام کی عداوت میں ابو لہب سے کسی طور پر بھی کم نہ تھے۔ 

یہ شخص مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے قریبی ہمسایہ تھا، دونوں گھروں کے درمیان صرف ایک دیوار حائل تھی۔ یہ اور اسکے اہل خانہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی چین لینے نہیں دیا تھا۔ 

آپ کبھی نماز پڑھ رہے ہوتے تو یہ بکر ی کی اوجھڑی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پھینک دیتے۔ ہنڈیا میں غلاظت ڈال دیتے۔

ابو لہب کی (1) بیوی امّ جمیل کا تو روزانہ کا کسب یہی تھا کہ وہ راتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے دروازے پر خاردار جھاڑیاں لا کر بچھا دیتی تھی تاکہ صبح سویرے جب آپ یا آپ کے بچے باہر نکلیں تو کوئی کانٹا پاؤں میں چبھ جائے۔ اسکے علاوہ بھی یہ شخص ہر اس جگہ پہنچ کر حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتا جہاں آپ دعوتِ دین کے لیے جاتے اور لوگوں کو آپ کے خلاف اُکساتا۔

چنانچہ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ا س شخض کانام لے کر درج ذیل سورة مبارکہ میں اس کی اور اس کی بیوی کی مَذمت فرمائی::: (تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ ۔ مَآ اَغْنٰی عَنْہُ مَالُہ وَمَاکَسَبَ ۔ سَیَصْلٰی نَارًا ذَاتَ لَھَبٍ ۔ وَّامْرَاَتُہ ط حَمَّالَةَ الْحَطَبِ ۔ فِیْ جِیْدِھَا حَبْل مِّنْ مَّسَدٍ ) ''ٹوٹ گئے ابولہب کے ہاتھ اورنامراد ہوگیا وہ۔اُس کا مال اورجو کچھ اس نے کمایا وہ اس کے کسی کام نہ آیا۔ ضرور وہ شعلہ زن آگ میں ڈالا جائے گا اور(اُس کے ساتھ)اُس کی جورو (بیوی) بھی, لگائی بجھائی کرنے والی، اُسکی گردن میں مونجھ کی رسّی ہو گی ''(2)

 اس سورة مبارکہ میں بالواسطہ اللہ تعالیٰ نے یہ پیشین گوئی فرمائی تھی کہ ابولہب اور اس کی بیوی کبھی بھی اسلام قبول نہیں کریں گے۔ اور انکی موت ذلت آمیز ہو گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ،حالانکہ یہ سورة مبارکہ ابو لہب کی موت سے تقریبا  ً10 سال پہلے نازل ہوئی تھی، اگر وہ اسلام قبول کر لیتا تو نعوذباللہ قرآن غلط ثابت ہو سکتا تھا مگر ایسا نہیں ہوا ۔ (3) اور لطف کی بات یہ کہ اسکی موت کے بعد اسکی بیٹی درّہ اور اس کے دونوں بیٹوں عُتبہ اور متعب نے اسلام قبول کر لیا۔ (4)

تفاسیر میں آتا ہے کہ جنگ بدر میں قریش کی شکست کی جب اسے مکہ میں خبر ملی تو اُ سکو اتنا رنج ہوا کہ وہ سات دن سے زیادہ زندہ نہ رہ سکا۔ پھر اسکی موت بھی نہا یت عبرتناک تھی۔ اسے عَدَسَہ (Malignant Pustule) کی بیماری ہو گئی جسکی وجہ سے اس کے گھر والوں نے اُسے چھوڑ دیا، کیونکہ انہیں چھوت لگنے کا ڈر تھا۔ مرنے کے بعد بھی تین روز تک کوئی اسکے پاس نہ آیا یہاں تک کہ اس کی لاش سڑ گئی اور اسکی بو پھیلنے لگی۔ 

آخرکار جب لوگوں نے اسکے بیٹوں کو طعنے دینے شروع کیے تو ایک روایت یہ ہے کہ انہوں نے کچھ حبشیوں کو اجرت دے کر اسکی لاش اٹھوائی اور انہی مزدوروں نے اس کو دفن کیا اور دوسری روایت یہ ہے کہ انہوں نے ایک گڑھا کھدوایا اور لکڑیوں سے اس کی لاش کو دھکیل کر اس میں پھینکا اوراوپر سے مٹی ڈال کر اسے ڈھانک دیا۔

(5)چنانچہ اللہ تعالیٰ کا قرآن مجید میں یہ فرمان حرف بحرف سچ ثابت ہوا جو اس کی سچائی کی ایک اور واضح دلیل ہے۔

۔••۔
حواشی
(1)۔ تفہیم القرآن ، جلد ششم ،صفحہ 522
(2)۔ اللھب ، 111: 1-5
(3)۔ IS  THE QUR'AN  GOD'S WORD  PART A  (A lecture by Dr. Zakir Naik )at www.irf.net.
(4)۔  تفہیم القرآن ، جلد ششم ،صفحہ 526
(5)۔ تفہیم القرآن ، جلد ششم ،صفحہ 526

۔ ۔ ۔
#shefro

"سلطنت_عثمانیہ_کی_عظیم_بحری_فوج "🚤

عثمانی بحریہ ::

سلطنت عثمانیہ کی بحریہ چودھویں صدی عیسوی کے اوائل میں تشکیل دی گئی۔ اس کی سربراہی قیودان پاشا (گرینڈ ایڈمرل) کرتا تھا۔ اس عہدے کو 1867ء میں ختم کر دیا گیا۔ 

ۃ1308ء میں بحیرہ مرمرہ میں جزیرہ امرالی کی فتح عثمانیوں کی پہلی بحری فتح تھی۔ 1321ء میں اس کے جہاز پہلی بار جنوب مشرقی یورپ کے علاقے تھریس میں لنگر انداز ہوئے اور بعد ازاں براعظم یورپ میں فتوحات میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ عثمانی بحریہ دنیا کی پہلی بحریہ تھی جس نے بحری جہازوں پر توپیں نصب کیں۔ 

ۃ1499ء میں لڑی گئی جنگ زونکیو تاریخ کی پہلی بحری جنگ تھی جس کے دوران بحری جہازوں پر لگی توپیں استعمال کی گئیں۔ عثمانی بحریہ نے ہی شمالی افریقہ میں فتوحات کا آغاز کیا اور 1517ء میں الجزائر اور مصر کو سلطنت میں شامل کیا۔ 

ۃ1538ء میں جنگ پریویزا اور 1560ء میں جنگ جربا بحیرۂ روم میں عثمانی بحریہ کی طاقت اور وسعت کا ثبوت ہیں۔ علاوہ ازیں عثمانی بحری جہازوں نے 1538ء سے 1566ء کے درمیان بحر ہند میں گوا کے قریب پرتگیزی جہازوں کا مقابلہ بھی کیا۔ 1553ء میں عثمانی امیر البحر صالح رئیس نے مراکش اور آبنائے جبل الطارق سے آگے کے شمالی افریقہ کے علاقے فتح کیے اور عثمانی سلطنت کی سرحدیں بحر اوقیانوس تک پہنچا دیں۔ 

ۃ1566ء میں آچے (موجودہ انڈونیشیا کا ایک صوبہ) کے سلطان نے پرتگیزیوں کے خلاف عثمانیوں کی مدد طلب کی اور خضر رئیس کی قیادت میں ایک بحری بیڑا سماٹرا بھیجا گیا۔ 

یہ بیڑا 1569ء میں آچے میں لنگر انداز ہوا اور اس طرح یہ سلطنت کا مشرقی ترین علاقہ قرار پایا جو عثمانیوں کی زیر سیادت تھا۔ اگست 1625ء میں مغربی انگلستان کے علاقوں سسیکس، پلائی ماؤتھ، ڈیوون، ہارٹ لینڈ پوائنٹ اور کورن وال پر چھاپے مارے۔ 1627ء میں عثمانی بحریہ کے جہازوں نے جزائر شیٹ لینڈ، جزائرفارو، ڈنمارک، ناروے اور آئس لینڈ تک اور 1627ء سے 1631ء کے دوران آئرستان اور سویڈن تک بھی چھاپے مارنے میں کامیاب ہوئے۔ 

ۃ1827ء میں جنگ ناوارینو میں برطانیہ، فرانس اور روس کے مشترکہ بحری بیڑے کے ہاتھوں شکست اور الجزائر اور یونان کے کھو جانے کے بعد عثمانی بحریہ کا زوال شروع ہو گیا اور اس طرح سلطنت سمندر پار مقبوضات پر گرفت کمزور پڑتی چلی گئی۔ 

سلطان عبد العزیز اول (دور حکومت: 1861ء تا 1876ئ) نے مضبوط بحریہ کی تشکیل کے لیے از سر نو کوششیں کیں اور کثیر سرمایہ خرچ کرنے کے بعد برطانیہ اور فرانس کے بعد دنیا کا تیسرا سب سے بڑا بحری بیڑا تشکیل دیا لیکن زوال پذیر معیشت ان بحری جہازوں کے بیڑے کو زیادہ عرصے برقرار نہ رکھ سکی۔ سلطنتِ عثمانیہ کی بحریہ اٹھارہویں صدی میں جمود کا شکار ہو گئی تھی۔ اس صدی میں جہاں اس بحریہ نے بہت سی کامیابیاں حاصل کیں وہیں اسے بہت سی شکستیں بھی ہوئیں۔ 

انیسویں صدی میں عثمانی بحریہ کا زوال شروع ہوا۔ تاہم یہ سرگرم رہی۔ جنگ عظیم اول میں عثمانی بحریہ نے اکتوبر 1914ء میں بحیرہ اسود میں روسی ساحل پر اچانک حملہ کیا۔ اس کے بعد نومبر میں روس اور اس کے اتحادیوں برطانیہ اور فرانس نے باقاعدہ جنگ شروع کردی۔ جنگ عظیم اول میں عثمانی بحریہ خاصی سرگرم رہی۔جدید ترکی کے قیام کے بعد بحریہ کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا۔ 

عثمانی بحریہ کا امیر قپودان پاشا (کپتان پاشا) کہلاتا تھا۔ ان میں معروف نام خیر الدین باربروسا، پیری رئیس، حسن پاشا، پیالے پاشا، طرغت پاشا اور سیدی علی عثمانی ہیں۔ 

بحری فتوحات کے علاوہ ان کے علمی کارنامے بھی نمایاں ہیں۔ عثمانی ترکوں کی بحری طاقت میں اضافے کے ساتھ ساتھ امیر البحر کی اہمیت بھی دو چند ہو گئی اور باربروسا کے زمانے میں کپتان پاشا دیوان کا باقاعدہ رکن بن گیا۔ 

عہدے کے اعتبار سے وہ امیر العساکر کے مساوی اور شیخ الاسلام کے ماتحت سمجھا جاتا تھا۔

۔ ۔ ۔
#shefro

"اصحاب_کہف"

طبی و ماحولیاتی معجزہ !
 ۔ ۔ ۔
سورۃ کہف میں قرآن پاک کے کئی معجزے مذکور ہیں، اسکی 2 آیات میں 2 طبی اور ماحولیاتی معجزات بیان کئے گئے ہیں۔

قرآن کریم میں اہل کہف کا قصہ قادر مطلق ذات کی عظمت و کبریائی کا روشن ثبوت ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ قصہ ظلم و ستم اور جبر وتشدد سے دوچار مسلمانوں کے حوصلے اور ہمت بلند کرنے کے لئے بیان کیا ۔ اصحاب کہف توحید کے قائل نوجوان تھے۔ وہ اپنے عہد کے حکمراں دقیا نوس کے ظالم سے عاجز آچکے تھے۔

ظالم معاشرے میں سانس لینے تک کے رواد ار نہیں رہے تھے۔ کفار کا غلبہ بے پناہ تھا۔ یہ نوجوان ظلم و ستم، تحقیر و تذلیل اور باطل کے آگے سر جھکانے سے بچنے کیلئے گھر بار اور اہل و عیال سب کو چھوڑ کر غار میں پناہ گیر ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر خاص رحمت نازل کی تھی۔ 

رب العالمین نے سورۃ کہف کی آیت نمبر 17 اور 18میں غار کے اندر انکے قیام کی منظر کشی یہ کہہ کر کی ہے۔ 
 ’’وَتَرَی الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ تَّزٰوَرُ عَنْ کَھْفِھِمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَاِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُھُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَھُمْ فِیْ فَجْوَۃٍ مِّنْہُ ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ مَنْ یَّھْدِ اللّٰہُ فَھُوَ الْمُھْتَدِ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا ( 17) وَتَحْسَبُھُمْ اَیْقَاظًا وَّھُمْ رُقُوْد’‘ وَّنُقَلِّبُھُمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَذَاتَ الشِّمَالِ وَکَلْبُھُمْ بَاسِط’‘ ذِرَاعَیْہِ بِالْوَصِیْدِ لَوِا طَّلَعْتَ عَلَیْھِمْ لَوَلَّیْتَ مِنْھُمْ فِرَارًا وَّلَمُلِئْتَ مِنْھُمْ رُعْبًا ( 18)‘‘ 
’’تم انہیں غار میں دیکھتے تو تمہیں یوں نظر آتا کہ سورج جب نکلتا ہے تو ان کے غار کو چھوڑ کر دائیں جانب چڑھ جاتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو ان سے بچ کر بائیں جانب اتر جاتا ہے اور وہ ہیں کہ غارکے اندرایک وسیع جگہ میں پڑے ہیں۔

یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ بھٹکا دے اس کے لئے تم کوئی ولی مرشد نہیں پاسکتے۔ تم انہیں دیکھ کر یہ سمجھتے کہ وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ سو رہے تھے۔ ہم انہیں دائیں بائیں کروٹ دلواتے رہتے تھے اورانکا کتا غار کے دہانے پر ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔ اگر تم کہیں جھانک کر دیکھتے تو الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے اور تم پر انکے نظارے سے دہشت بیٹھ جاتی‘‘۔

حافظ ابن کثیر ؒ اللہ تعالیٰ کے کلام ’’وَتَحْسَبُھُمْ اَیْقَاظًا وَّھُمْ رُقُوْد’‘ ‘ ’’ تم انہیں دیکھ کر یہ سمجھتے کہ وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ سو رہے تھے‘‘ ۔ اسکی تفسیر میں بتاتے ہیں کہ بعض علماء کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف پر نیند طاری کردی تو پھر کئی سال تک ان کے کانوں پر پردہ ڈالے رکھا۔ انکی آنکھیں بند نہیں کی تھیں تاکہ کوئی موذی ان کی طرف جلدی سے نہ لپکے۔ ان کی آنکھ کا کھلا رہنا انکے لئے زیادہ بہتر تھا۔ بھیڑیئے کے بارے میں آتا ہے کہ وہ سوتا ہے تو ایک آنکھ کھلی رکھتا ہے ۔ دوسری بند کرلیتا ہے پھر ایک کھولتا ہے اور دوسری بند کرلیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کے قصے میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ: ’’وَّنُقَلِّبُھُمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَذَاتَ الشِّمَالِ‘‘ ’’ اللہ انہیں دائیں بائیں کروٹ دلواتا رہتا تھا‘‘۔ اللہ تعالیٰ سال میں دو مرتبہ انہیں کروٹ دلاتا تھا۔ ابن کثیر نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ: ’’اگر اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ نہ دلاتا تو زمین انہیں چٹ کرجاتی‘‘۔ (ابن کثیر، تفسیرالقرآن العظیم جلد 3، صفحہ2)۔ 

یہاں صحابی رسول حضرت ابن عباس ؓ کا یہ قول تدبر کا متقاضی ہے کہ اگر اصحاب کہف کو دائیں بائیں کروٹ نہ دلوائی جاتی ہوتی تو زمین انہیں چٹ کرجاتی۔ سیدنا ابن عباس ؓ نے یہ کہہ کر جدید سائنسی حقیقت بیان کی ہے۔ اطباء کہتے ہیں کہ جو مریض چلنے پھرنے کے قابل نہ ہوں یا اپنے بستر سے اٹھنے کی سکت نہ رکھتے ہو ں ایسے مریضوں کو وقتاً فوقتاً کروٹ دلواتے رہنا چاہئے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو دوسری صورت میں ان کے جسم میں زخم پیدا ہوجائیں گے ۔ انہیں بیڈ سور (bad-sore) کہا جاتا ہے۔ جسم اور ٹانگوں کے نچلے حصوں پر خون کا لوتھڑا بن جاتا ہے۔ لہذا اس تکلیف سے انہیں بچانے کیلئے وقتاً فوقتاً کروٹ دینا ضروری ہوتا ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اصحاب کہف کو سال میں 2 مرتبہ دائیں بائیں کروٹ دینے کا انتظام کر کے زمین کا حصہ بن جانے سے تحفظ فراہم کیا۔ اطباء بتاتے ہیںاور مشاہدات بھی یہی ہیں کہ جن مریضوں کو طویل مدت تک بستر پر لیٹتے ہوئے کروٹ نہیں دی جاتی ان کے جسم میں مختلف زخم پیدا ہوجاتے ہیں۔ آخر میں چل کر یہ زخم مہلک بیماری کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اصحاب کہف کے اس واقعہ میں ماحولیاتی معجزہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ 

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کا تذکرہ یہ کہہ کر کیا ہے۔ ’’وَتَرَی الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ تَّزٰوَرُ عَنْ کَھْفِھِمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَاِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُھُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَھُمْ فِیْ فَجْوَۃٍ مِّنْہُ‘‘۔ ’’تم انہیں غار میں دیکھتے تو تمہیں یوں نظر آتا کہ سورج جب نکلتا ہے تو ان کے غار کو چھوڑ کر دائیں جانب چڑھ جاتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو ان سے بچ کر بائیں جانب اتر جاتا ہے اور وہ ہیں کہ غارکے اندرایک وسیع جگہ میں پڑے ہیں‘‘۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ غار کا دروازہ بائیں جانب تھا کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بتایا ہے کہ جب سورج نکلتا تو انکے غار کو چھوڑ کر دائیں جانب چڑھ جاتا۔

حضرت ابن عباسؓ، سعید بن جبیرؒ اور قتادہؒ بتاتے ہیں کہ قرآن پاک کی اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جب سورج افق پر چڑھتا تو اس کی کرنیں اوپر جانے کی وجہ سے ہلکی ہوجاتیں اور اسکی تیزی زوال کے وقت باقی نہ رہتی۔ آگے چل کر پھر یہ بیان کیا گیا ہے کہ اور جب سورج غروب ہوتا تو غار کے شمالی جانب سے نکل کر چلا جاتا۔ اس طرح سورج کی شعاعوں سے اصحاب کہف محفوظ رہتے۔ وہ ہمیشہ سائے میں رہتے اور ٹھنڈی مناسب ہوا انکے غار میں آتی جاتی رہتی تھی۔ اگر غار کا محل وقوع اس انداز کا نہ ہوتا تو سورج کی شعاعیں اصحاب کہف کو جلا دیتیں۔

قرآن پاک کے اس مضمون سے 2 باتیں معلوم ہوتی ہیں: 
ھ1۔ طویل مدت تک بستر پر لیٹنے والے مریضوں کو زخموں اور اذیت ناک پھوڑوں سے بچانے کیلئے الٹتے پلٹتے اور دائیں بائیں کروٹ دینے کا انتظام ناگزیر ہے۔ ایسا نہ کرنے پر مریضوں کی کمر اور جسم کے مختلف حصوں میں زخم پیدا ہوسکتے ہیں۔ 
ہ2۔ انسانوں خصوصاًمریضوں کو طویل مدت تک کسی جگہ قیام کرنے کے لئے سورج کی شعاعوں سے بچنا اور ہوادار جگہ کا انتخاب لازمی ہوتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کا اختتام یہ کہہ کر کیا ہے۔ ’’ذلک من آیت اللہ ‘‘ ’’یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے‘‘۔ 

اصحاب کہف کا واقعہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی اس طرح ہے کہ رب العالمین نے ہی انہیں ایسے غار میں پناہ لینے کا الہام کیا تھا جہاں وہ برسہا برس زندہ رہ سکتے تھے۔ 

جہاں سورج سے بچاؤ کا طبعی نظام موجود تھا اور جہاں انکے جسم کو تروتازہ رکھنے والی ہوا کی آمد و رفت کا پورا اہتمام تھا۔ آگے چل کر اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ: ’’من یھد اللہ فھو المھتد‘‘ ’’جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے۔‘‘ اسکا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہی تھا جس نے ا صحاب کہف والے نوجوانوں کو توحید کی ہدایت دی تھی اور وہی تھا جس نے انہیں اپنا دین، اپنی آبرو اور اپنی جان بچانے کیلئے غار میں پناہ لینے اور مناسب ترین غار کے انتخاب کی رہنمائی کی تھی۔ 

اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کرتا ہے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ ہدایت کا کلمہ قرآن پاک میں بہت سارے مقامات پر آیا ہے۔ مثال کے طور پر سورہ محمد کی آیت نمبر 17میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
’’والذین اھتدوا زادھم ھدی واتاھم تقواھم‘‘ ’’
وہ لوگ جنہیں ہدایت ملی اللہ نے ا نہیں مزید ہدایت سے نوازا اور انہیں خدا ترسی کی نعمت سے نوازا‘‘۔ اللہ تعالیٰ سورہ مریم کی آیت نمبر 76 میں ارشاد فرماتا ہے کہ: 
’’ویزید اللہ الذین اھتدوا ھدی والباقیات الصالحات خیر عند ربک ثواباً و خیر مرداً‘‘
  ’’اور ہدایت یافتہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت میں برکت دیتا ہے اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک ثواب کے لحاظ سے اور انجام کے اعتبار سے بہت ہی بہتر ہیں‘‘۔ 

 قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا وہ کلام ہے جسے جبریل امین رب العالمین کی طرف سے آسمان سے لیکر اترے تھے ۔ اسکی عبارتیں اس کے الفاظ اور اسکی ترتیب سب کچھ جبریل امین سید الانبیاء محمد مصطفی ﷺ کے پاس لیکر پہنچے تھے۔ قرآن آخری آسمانی کتاب ہے یہ عظیم معجزہ ہے یہ قیامت تک بندگان خدا کے لئے رب العالمین کی انمول نعمت ہے دینی و دنیاوی امور اور ہر زمان و مکان میں انکی ہدایت کیلئے سب سے عظیم رہنما دستاویز یہی ہے۔ 

اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’مافرطنا فی الکتاب من شیء‘‘ ’’ہم نے قرآن کریم میں کسی بھی طرح افراط سے کام نہیں لیا۔ ‘‘ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی اور روشنی دینے والی کتاب ہے۔ یہ ذکر حکیم ہے۔ یہ صراط مستقیم بتانے والی کتاب ہے۔ اس پر عمل کرنے والے فکری، نظریاتی اور عملی اعتبار سے منحرف نہیں ہوتے۔ قرآن پاک ہر طرح کی ٹیڑھ، ہر قسم کی خامی اور ہر انداز کی غلطی سے پاک و صاف ہے۔

یہ وہ کتاب ہے جسے سن کر جنات کہہ اٹھے تھے کہ ہم نے عجیب و غریب کلام سنا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم قرآن پاک کی تلاوت کرکے سکون محسوس کرتے اور روشنی حاصل کرتے تھے صحابہ قرآن پاک کو روحانی غذا بنائے ہوئے تھے۔ وہ اس کے احکام اپنے اوپر نافذ کرتے اس کی مقرر کردہ حدوں کی پابندی کیا کرتے۔ ایسا کرنے کی وجہ سے اللہ رب العزت کے فضل و کرم کی بدولت وہ پوری دنیا کے حکمراں بن گئے تھے۔ 

صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے نہ صرف یہ کہ قرآن کریم من و عن اپنے بعد آنے والے لوگوں کے حوالے کیا انہوں نے قرآن پاک کی ا یک ، ایک آیت کو قابل عمل ہونے کے نظائر بھی آنے والی نسل کے سپرد کئے۔ اگر عصر حاضر کے مسلمان ایک بار پھر عظمت رفتہ بازیاب کرنے کے آرزو مند ہیں ،اگر ہمارے دور کے مسلمان ایک بار پھر آفات و مصائب کے دلدل سے نکل کر عروج کی بلندیاں سر کرنا چاہتے ہیں تو انہیں قرآن پاک پر عمل کرنا ہوگا۔ 

جو لوگ بھی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی طرح قرآن پاک کی صداقت اور حقانیت کو اپنے عقیدے کا اٹوٹ حصہ بنائیں گے اور قرآنی آیات پر عمل کو اپنی زندگی کی پہچان و شناخت بنائیں گے وہ کامیاب ہونگے، سرخرو ہونگے، عروج کی اس منزل پر سرفراز ہونگے جسکا انہوں نے تصور تک نہ کیا ہو گا۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں قرآن پاک سیکھنے اور سکھانے اور اس میں غور و تدبر کرنے کی ہدایت کی ہے۔

رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ’’تم میں بہتر لوگ وہ ہیں جو قرآن پاک سیکھیں اور سکھائیں‘‘ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ جس نے قرآن پاک کی ایک آیت سنی اس کے لئے دگنا اجر لکھ دیا جائیگا اور جو اسکی تلاوت کرے۔ قرآن اسکے لئے قیامت کے روز روشنی کا باعث بنے گا۔

۔ ۔ ۔
#shefro

Tuesday, July 30, 2019

اسلام_اور_ٹیکس_پالیسی "💹

مغرب بنیادی طور پر ٹیکس کے حوالے سے دو پالیسیوں سے گزرا

ھ•اول: ٹیکس لگانا بادشاہ اور چرچ کا حق ہے کہ وہ جو مناسب سمجھیں ٹیکس لگائیں۔

•دوم:
No taxation without representation کا اصول جو امریکہ انقلاب کا پیش خیمہ بنا۔ یعنی صرف عوام کے نمائندوں کو ہی حق ہے کہ وہ عوام پر ٹیکس لگائے۔ اور یہ اصول آج بھی قائم ہے۔
تاہم اسلام اس پالیسی کو مسترد کرتا ہے۔ اسلام میں اختیار اعلیٰ صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالی کو حاصل ہے۔ اور اللہ اپنے بادشاہی میں کسی کو شریک نہیں کرتا، وہی الحاکم ہے۔ اور صرف اللہ سبحانہ و تعالی کا حکم ہی آپ کو اس قابل بنا سکتا ہے کہ آپ کسی کا مال لے سکیں۔ اس کے دلائل درج ذیل ہیں۔

ھ1) شریعت نے بیت المال کے ذرائع آمدن کا تعین کر دیا ہے اور اسی سے ریاست کے امور چلانے کا حکم دیا ہے اور اس میں کوئی ٹیکس شامل نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے ریاست کے تمام امور چلائے اور کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا۔ اور جب آپ کو علم ہوا کہ بارڈر پر بیرونی تاجر سے مال پر کسٹم لیا جا رہا ہے، تو آپ نے اس سے منع فرمایا۔ عقبی بن عامر رض سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی کریم کو فرماتے سنا؛
٭لا یدخل الجنہ صاحب المکس"
(کسٹم لینے والا جنت میں نہیں جائے گا) [الحاکم، احمد]

ھ2) تاہم یہ حرمت صرف کسٹم تک نہیں، آپ نے حجۃ الوداع میں فرمایا؛
٭إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا...»“
[بے شک تمہارا خون، تمہارا مال، تمہاری آبرو اس دن (یوم عرفہ)، اس شہر (مکہ) اور اس مہینے (ذی الحجہ) کی طرح ایک دوسرے پر حرام ہے] (متفق علیہ بروایت ابی بکرہ رض)

پس جس طرح کسی کی جان لینے کیلئے شرعی دلیل چائیے (جیسے شادی شدہ زانی، مرتد، قصاص) کسی کی عزت پامال شریعت کے حکم کے بغیر نہیں ہو سکتی، (شرعی عدالت کا فاسق یا مجرم ٹھہرانا)۔۔۔ ویسے ہی کسی سے اس کا مال (خواہ ریاست ہی کرے) نہیں چھینا جا سکتا۔ یہ ڈاکہ ہے۔ اور ڈاکہ روکنے کیلئے شریعت جان دینے تک لڑنا چائیے۔ یہ ریاستی بدمعاشی ہے۔ جو ہمارے حلال کی آمدن کو جبر سے چھینتی ہے۔

ھ3) فقہاء نے احادیث سے بصراحت ثابت کیا ہے کہ ٹیکس لینے والا حوض کوثر سے محروم رہے گا، اس کی دعا قبول نہیں ہو گی، اس کا گناہ زنا سے کم نہیں۔ اور ٹیکس لینے والا سود خور سے بڑا مجرم ہے۔ (اس کے ریفرنس عند الطلب)۔

ھ4) اگرچہ موجودہ دور کے حساب سے دیکھا جائے تو اسلامی ریاست کے شرعی ذرائع آمدن (زکواۃ، عشر، خراج، مال فے، غنائم، رکاز خمس، مال الغلول، حمی وغیرہ) ریاست کی تمام ضروریات کیلئے ضرورت سے بہت زائد ہیں، (جس کی تفصیلات ایک الگ تفصیلی پوسٹ کی متقاضی ہیں) تاہم سوال یہ ہے کہ اگر وہ ناکافی ہو، تو پھر کیا ہو گا؟
اس کا جواب شریعت کے رو سے یہ ہے۔ کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کچھ فرائض صرف بیت المال پر رکھے ہیں اور کچھ بیت المال اور مسلمانوں دونوں پر۔ پس جو فرائض صرف بیت المال پر ہیں۔ اگر بیت المال میں اس کیلئے مال کافی نہ ہو تو وہ کام ملتوی کئے جائیں گے۔ تاہم جو ذمہ داری بیت المال اور امت دونوں پر ہیں اس کیلئے امت سے ٹیکس لینا جائز ہے۔

پس دو طرح کے اصول یاد رکھنے کی ضرورت ہے؛
•اول: ٹیکس لینے کے اصول، یعنی کتنا، اور کس سے وغیرہ۔
•دوم: وہ کونسے امور ہے جس کیلئے ریاست ٹیکس لے سکتی ہے

ھ5) ٹیکس لینے کے اصول یہ ہیں؛
•ا) بیت المال میں فنڈ کافی نہ ہو۔ (خزانہ بھرنے کیلئے ٹیکس لینے کی اجازت نہیں)
•ب) ٹیکس جتنا شرعیت کی ذمہ داری پوری کرنے سے زائد نہ ہو
•ج) یہ صرف دولت مندوں پر ہو، دولت پر۔۔۔ آمدن پر نہیں۔ وہ دولت جو بالمعروف خرچ کرنے کے بعد سرپلس ہو۔
•د) صرف ان امور کیلئے جس کی ذمہ داری اللہ نے امت پر بھی ڈالی ہے۔ (دلائل عند الطلب)

ھ6) وہ کونسے امور ہیں جن کی ذمہ داری اللہ نے بیت المال کے ساتھ امت پر بھی ڈالی ہے؛
ا) جہاد ؛
"انْفِرُواْ خِفَافًا وَثِقَالاً وَجَاهِدُواْ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ​"
(نکلو اللہ کی راہ میں خواہ تم ہلکے ہو یا بوجھل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔) سورہ التوبہ)۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔اور کثیر تعداد میں آیات و احادیث ہیں۔
ب) ملٹری انڈسٹری:
"وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدْوَّ اللّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لاَ تَعْلَمُونَهُمُ اللّهُ يَعْلَمُهُمْ​"
( اورتیار کرو پلے ہوئے گھوڑے اور جو کچھ طاقت تم جمع کر سکو تاکہ دشمن پر رعب پڑھ سکے۔۔۔۔۔۔)(الانفال)
ج) غریبوں، ضرورت مندوں اور مسافروں پر خرچ کرنا:
"وہ شخص مجھ ہر ایمان نہیں لایا جو یہ جانتے ہوئے کہ اس کا پڑوسی بھوکا ہے، سکون سے رات کو سو جائیں"۔ (طبرانی)
د)ریاستی ملازمین، فوجیوں، اساتذہ، قاضیوں کی تنخواہیں وغیرہ
س) ضروری سڑکیں، سکول، ہسپتال، پانی، مسجد ۔ ۔ ۔لیکن اس میں اعلی ضروریت نہیں آتی۔ (لا ضرر و لا ضرار) [الحاکم]
ص) قحط، زلزلہ، سیلاب وغیرہ (دلائل عند الطلب)

پس بالواسطہ ٹیکس جیسے جی ایس ٹی، عدالتی فیس، سٹیمپ ڈیوٹی، ریسٹورنٹ ٹیکس، بجلی گیس کے بلوں کے سارے ٹیکس، ڈیم کا ٹیکس، کسٹم، ایکسائز، ود ہولڈنگ، FED، موبائل بیلنس کے ٹیکس، اشیا پر ٹیکس، VAT، سود کی ادائیگی کے ٹیکس سب کے سب ناجائز اور حرام ہیں۔ یہ ریاستی ڈاکہ اور لوٹ مار ہے۔

آمدن پر براہ راست ٹیکس بھی سارے حرام ہیں، جیسے انکم ٹیکس، کیپٹل گین ٹٰیکس، کرایہ وصولی پر ٹیکس، کارپوریٹ ٹیکس، AOP اور دوسری آمدن پر ٹٰیکس، سودی کمائی پر ٹیکس۔
کیونکہ آمدن پر ٹٰکس جائز نہیں۔ بلکہ بالمعروف خرچ کے بعد دولت پر مخصوص کیسز میں جائز ہے جیسا کہ اوپر درج ہے۔
۔ ۔ ۔
#shefro

ننگے_بدن_والا 🌋

ایک انسان تھا جسے دنیا "ضرار بن ازور ؓ " کے نام سے جانتی تھی!
۔ ۔ ۔
یہ ایک ایسے انسان تھے کہ اس دور میں دشمن ان کے نام سے کانپ اٹھتے تھے اور انکی راہ میں آنے سے کتراتے تھے۔ جنگ ہوتی تھی تو سارے دشمن اور فوجیں زرہ اور جنگی لباس پہن کر جنگ لڑتے تھے۔ لیکن آفریں حضرت ضرار ؓ پر, زرہ تو درکنار اپنا کرتا بھی اتار دیتے تھے۔

لمبے بال لہراتے چمکتے بدن کے ساتھ جب میدان میں اترتے تھے تو ان کے پیچھے دھول نظر آتی تھی اور انکے آگے لاشیں۔ اتنی پھرتی، تیزی اور بہادری سے لڑتے تھے کہ دشمن کی صفیں چیر کر نکل جاتے تھے۔ ان کی بہادری نے بےشمار مرتبہ حضرت خالد بن ولید ؓ کو تعریف کرنے اور انعام و کرام دینے پر مجبور کیا۔

دشمنوں میں وہ "ننگے بدن والا" کے نام سے مشہور تھے۔
رومیوں کے لاکھوں کی تعداد پر مشتمل لشکر سے جنگِ اجنادین جاری تھی۔ حضرت ضرارؓ حسب معمول میدان میں اترے اور صف آراء دشمن فوج پر طوفان کی طرح ٹوٹ پڑے, اتنی تیزی اور بہادری سے لڑے کہ لڑتے لڑتے دشمن فوج کی صفیں چیرتے ہوئے مسلمانوں کے لشکر سے بچھڑ کر دشمن فوج کے درمیان تک پہنچ گئے۔ دشمن نے انہیں اپنے درمیاں دیکھا تو ان کو نرغے میں لے کر بڑی مشکل سے قید کر لیا۔

مسلمانوں تک بھی خبر پہنچ گئی کہ حضرت ضرار ؓ کو قید کر لیا گیا ہے۔
حضرت خالد بن ولید ؓ نے اپنی فوج کے بہادر نوجوانوں کا دستہ تیار کیا اور حضرت ضرارؓ کو آزاد کروانے کے لیے ہدایات وغیرہ دینے لگے۔
اتنے میں انہوں نے ایک نقاب پوش سوار کو دیکھا جو گرد اڑاتا دشمن کی فوج پر حملہ آور ہونے جا رہا ہے۔ اس سوار نے اتنی تند خوہی اور غضب ناکی سے حملہ کیا کہ اس کے سامنے سے دشمن پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گیا۔
حضرت خالد ؓ اس کے وار دیکھ کر اور شجاعت دیکھ کر عش عش کر اٹھے اور ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ سوار کون ہے؟ لیکن سب نے لاعلمی ظاہر کی کہ وہ نہیں جانتے۔ حضرت خالد ؓ نے جوانوں کو اس سوار کی مدد کرنے کو کہا اور خود بھی مدد کرنے اس سوار کی جانب لپکے۔
گھمسان کی جنگ جاری تھی کبھی حضرت خالد بن ولید ؓ اس سوار کو نرغے سے نکلنے میں مدد کرتے اور کبھی وہ سوار حضرت خالد ؓ کی مدد کرتا۔
حضرت خالد ؓ اس سوار کی بہادری سے متاثر ہو کر اس کے پاس گئے اور پوچھا کون ہو تم؟ اس سوار نے بجائے جواب دینے کے اپنا رخ موڑا اور دشمنوں پر جارحانہ حملے اور وار کرنے لگا موقع ملنے پر دوسری بار پھر حضرت خالد ؓ نے پوچھا: اے سوار تو کون ہے؟ اس سوار نے پھر جواب دینے کی بجائے رخ بدل کر دشمن پر حملہ آور ہوا, تیسری بار حضرت خالد ؓ نے اس سوار سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا کہ اے بہادر تو کون ہے؟
تو نقاب کے پیچھے سے نسوانی آواز آئی کہ میں ضرار ؓ کی بہن "خولہ بنت ازور ؓ" ہوں اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گی جب تک اپنے بھائی کو آزاد نہیں کروا لیتی۔ حضرت خالد ؓ نے کہا کہ پہلے کیوں نہیں بتایا تو کہنے لگی آپ نے منع کر دینا تھا۔ حضرت خالد ؓ نے کہا آپ کو آنے کی کیا ضرورت تھی ہم تھے آزاد کروانے کے لیے تو حضرت خولہ ؓ نے جواب دیا کہ جب بھائیوں پر مصیبت آتی ہے تو بہنیں ہی آگے آیا کرتیں ہیں۔
پھر مسلمانوں اور حضرت خولہ ؓ نے مل کر حضرت ضرار ؓ کو آزاد کروا کر ہی دم لیا۔

ایک گزارش ::
اسلام خون اور قربانیوں کے دریا میں تیر کر پہنچا ہے اس کی قدر کریں جذبہ جہاد کو زندہ رکھیں کہ جب تک جہاد تھا مسلمان ہمیشہ غالب رہے جب جہاد چھوڑا تو مسلمانوں پر زوال آیا۔
کم از کم اپنے بچوں کے نام ان اسلام کے ہیروز کے نام پر رکھیں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ ان کا نام کس کے نام پر ہے اور نام کا اثر شخصیت پر بھی پڑتا ہے۔اور ان کی تربیت ایسے کریں کہ اسلام کا مستقبل روشن کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
۔ ۔ ۔
#shefro

Saturday, June 8, 2019

6_جون_اور_دوسری_جنگِ_عظیم

آج کے دن کو دوسری جنگ عظیم کا سب سے اہم دن مانا جاتا ہے!!
۔ ۔ ۔

اس لڑائ کو مغرب میں "آپریشن نیپچون" یا سادہ الفاظ میں (ڈی-ڈے) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

6جون 1944کو اتحادی افوج (امریکی، برطانیوی، کینڈین) کے دستوں کو اوماہا  ساحل سمندر پر لینڈ کرنے کا حکم ملا، جس کے بعد ہزاروں کی تعداد میں امریکا، برطانیہ اور کینڈا کی فوج کے اہلکار بحری کشتیوں کے ذریعے اور پیراٹروپنگ کے ذریعے اس ساحل سمندر پر پہنچنے شروع ہوئے لیکن یہاں پہلے سے ہی جرمن فوج اپنی مضبوط قلعہ بندیاں کر چکی تھی۔

جرمن فوج نے ساحل پر اترتی اتحادی افواج کو تاک تاک کر بے رحمی سے نشانہ بنایا جس میں ہزاروں اتحادی فوجی مارے گئے ، لیکن اتحادیوں کے حملے کے آگے یہ قلعہ بندیاں زیادہ نا ٹک سکیں اور آخر کار یہ ساحل سمندر اتحادی افواج نے فتح کر لیا۔

یہ لڑائ اگرچہ یکم آپریل سے شروع ہوئ اور 6جون تک جاری رہی لیکن لڑائ کے آخری 24گھنٹوں نے پوری دنیا کا نقشہ بدل ڈالا۔

اس لڑائ میں 9,386 امریکی فوجی مارے گئے۔ جن میں سے 307 کی گلی سڑی باقیات ملیں، 1,557 کی باقیات بھی نا مل سکیں۔

حملے میں 4,868 برطانیوی فوجی بھی مارے گئے۔ ان میں سے 1,837 کی باقیات بھی نا مل سکیں۔

اسی دن 946 کینڈین فوجی بھی ہلاک ہوئے۔

اتحادی فورسز کے نقصانات میں پیراٹروپنگ اور بمباری میں استعمال ہونے والے 20,000 جنگی جہاز اور 12,000 پائلٹس بھی شامل ہیں جو اس لڑائ کا اندھن بنے۔

لڑائ کا دوسرا حریف جرمنی تھا جس کے 21,300 فوجی مارے گئے۔

اثرات:
لڑائ کے اثرات یہ تھے کہ مضبوط ترین پوزیشن کے چلے جانے کے بعد، جرمن افواج کے حوصلے پست ہو گئے اور انہوں نے ہر فرنٹ پر پسپا ہونا شروع کر دیا۔ یہ صورتحال جرمن افواج کی مکمل شکست اور ایک عالمی طاقت کی عالمی بالادستی پر ختم ہوئ۔

(زیرنظر تصویر اس جنگ کے آخری 24 گھنٹوں کی ہے جس میں ساحل پر لینڈ کرتے سپاہیوں میں سے چند ہی زندہ بچ پائے تھے)

۔ ۔ ۔
#shefro