Translate

Thursday, June 6, 2019

موہاکس_کی_شکست "💠

"رسول اللہ ﷺ کی روح" تمہاری طرف دیکھ رہی ہے !!
۔ ۔ ۔

؛29 اگست 1526 کو پورے یورپ کی اتحادی فوج نے ویٹیکن کے حکم پر عثمانی خلافت کی اسلامی فوج سے ٹکرانے کا فیصلہ کیا۔ اسلامی فوج کی قیادت "سلطان سلیمان القانونی" کر رہے تھے جبکہ اتحادی فوج کی قیادت "لویس ثانی" کر رہے تھے۔


اسلامی فوج کی تعداد ایک لاکھ جنکے پاس توپخانہ اور 800 آبدوزیں تھیں، جبکہ یورپی اتحادی فوج کی تعداد دو لاکھ تھی۔

؛29 اگست 1526کی صبح جنگ شروع ہو نے والی تھی۔ "سلیمان اعظم القانونی" نے اپنی فوج کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی, اس کے بعد ایک پرجوش تقریر کی جس میں ان کو صبر اور ثابت قدمی کی تلقین کی۔ اس کے بعد کمانڈوز کی "بریگیڈ صاعقہ" (آسمانی بجلی) کی صفوں میں گھس گئے۔ ان کی حوصلہ افزائی کی اور ان سے بات کرتے ہوئے کہا.. "رسول اللہ ﷺ کی روح تمہاری طرف دیکھ رہی ہے" یہ سن کر پوری مسلم فوج اپنے آنسووں پر قابو نہ پا سکی اور خوب روئے۔

اس دن عصر کے وقت اتحادی فوج نے اسلامی فوج پر حملہ کر دیا، سلطان نے اپنی فوج کی تین صفیں بنائی تھی, خود سلطان توپخانے کی کمان کر رہے تھے۔ یہ تیسری صف تھی، جب اتحادی فوج کے گھوڑ سوار بڑی بہادری سے آگےبڑھنے لگے تو سلطان نے اپنی فوج کو آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے کا حکم دیا یہاں تک کہ وہ اسلامی فوج کے بہت قریب پہنچ گئے۔

سلطان نے توپخانے کو ان پر آگ برسانے کا حکم دیا, 90 منٹ میں 200,000 یورپی فوج کو شکست دی۔ ان میں سے ہزاروں بھاگتے ہوئے موھاکس کے دلدل میں دھنس گئے۔ان کا بادشاہ لویس ثانی اور "سات اساقفہ" (بڑے مذھبی پیشوا) گرفتار ہوئے۔ 25000 اتحادی فوج کو اسلامی فوج نے قیدی بنالیا. خلافت عثمانیاں کی فوج میں صرف 150 جوان شہید ہوئے۔

اس فتح کے بعد مسلمان یورپ کے دل تک پہنچ گئے ،آج بھی یورپ اس شکست کو نحوست اور اپنی پیشانی پر داغ سمجھتا ہے،اس کو اپنی تاریخ کا سیاہ دن قرار دیتا ہے،400 سال گزر نے کے باوجود آج بھی ہنگری میں یہ کہاوت ہے" موھاکس کی شکست سے بھی بڑی" ۔
(آخرمیں پاک فوج سے بھی یہ گزارش ہے کہ.. "رسول اللہ ﷺ کی روح" تمہاری طرف دیکھ رہی ہے)
۔ ۔ ۔
#shefro

نقلی_علامہ_اقبال "💎

"علامہ اقبال" کے نام سے موسوم اشعار.. حیران کن معلومات !!
۔ ۔ ۔
انٹرنیٹ کی دُنیا میں اور بالخصوص فیس بُک پر اقبال کے نام سے بہت سے ایسے اشعار گردِش کرتے ہیں جن کا اقبال کے اندازِ فکر اور اندازِ سُخن سے دُور دُور کا تعلق نہیں۔ کلامِ اقبال اور پیامِ اقبال سے محبت کا تقاضا ہے، اور اقبال کا حق ہے کہ ہم ایسے اشعار کو ہرگز اقبال سے منسوب نہ کریں جو اقبال نے نہیں کہے۔

ذیل میں ایسے اشعار کی مختلف اقسام اور مثالیں پیشِ کی جاتی ہیں
ھ1۔ پہلی قسم ایسے اشعار کی ہے جو ہیں تو معیاری اور کسی اچھے شاعر کے، مگر اُنہیں غلطی سے اقبال سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ ایسے اشعار میں عموماََ عقاب، قوم، اور خودی جیسے الفاظ کے استعمال سے قاری کو یہی لگتا ہے کہ شعر اقبال کا ہی ہے۔ مثالیں
تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے"
- سید صادق حسین
اسلام کے دامن میں اور اِس کے سِوا کیا ہے
اک ضرب یَدّ اللہی، اک سجدہِ شبیری"
- وقار انبالوی
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا"
- ظفر علی خان

ھ2۔ پھر ایسے اشعار ہیں جو ہیں تو وزن میں مگر الفاظ کے چناؤ کے لحاظ سے کوئی خاص معیار نہیں رکھتے یا کم از کم اقبال کے معیار/اسلوب کے قریب نہیں ہیں۔
مثالیں:::
عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟
سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟
- نامعلوم
تِری رحمتوں پہ ہے منحصر میرے ہر عمل کی قبولیت.
نہ مجھے سلیقہِ التجا، نہ مجھے شعورِ نماز ہے"
- نامعلوم
سجدوں کے عوض فردوس مِلے، یہ بات مجھے منظور نہیں..
بے لوث عبادت کرتا ہوں، بندہ ہُوں تِرا، مزدور نہیں"
- نامعلوم

ھ3۔ بعض اوقات لوگ اپنی بات کو معتبر بنانے کے لئے واضح طور پر من گھڑت اشعار اقبال سے منسوب کر دیتے ہیں۔ مثلاََ یہ اشعار غالباََ شدت پسندوں کے خلاف اقبال کے پیغام کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں جبکہ اِن کا اقبال سے دُور دُور تک کوئی تعلق نہیں
اللہ سے کرے دور ، تو تعلیم بھی فتنہ"
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ"
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ"
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ"
- نامعلوم

ھ4۔ اِسی طرح اقبال کو اپنا حمایتی بنانے کی کوشش مختلف مذہبی و مسلکی جہتوں سے بھی کی جاتی ہے۔
مثلاََ
وہ روئیں جو منکر ہیں شہادتِ حسین کے
ہم زندہ و جاوید کا ماتم نہیں کرتے"
- نامعلوم
بیاں سِرِ شہادت کی اگر تفسیر ہو جائے
مسلمانوں کا کعبہ روضہء شبیر ہو جائے"
- نامعلوم
نہ عشقِ حُسین، نہ ذوقِ شہادت
غافل سمجھ بیٹھا ہے ماتم کو عبادت"
- نامعلوم

ھ5۔ پانچواں گروپ 'اے اقبال' قسم کے اشعار کا ہے جن میں عموماََ انتہائی بے وزن اور بے تُکی باتوں پر انتہائی ڈھٹائی سے 'اقبال' یا 'اے اقبال' وغیرہ لگا کر یا اِس کے بغیر ہی اقبال کے نام سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ اِس قسم کو پہچاننا سب سے آسان ہے کیونکہ اِس میں شامل 'اشعار' دراصل کسی لحاظ سے بھی شعری معیار نہیں رکھتے اور زیادہ تر اشعار کہلانے کے لائق بھی نہیں ہیں۔
مثالیں::
کیوں منتیں مانگتا ہے اوروں کے دربار سے اقبال
وہ کون سا کام ہے جو ہوتا نہیں تیرے پروردگار سے؟
تیرے سجدے کہیں تجھے کافر نہ کر دیں اقبال
تُو جُھکتا کہیں اور ہے اور سوچتا کہیں اور ہے!
دل پاک نہیں ہے تو پاک ہو سکتا نہیں انساں
ورنہ ابلیس کو بھی آتے تھے وضو کے فرائض بہت"
مسجد خدا کا گھر ہے، پینے کی جگہ نہیں
کافر کے دل میں جا، وہاں خدا نہیں"
کرتے ہیں لوگ مال جمع کس لئے یہاں اقبال
سلتا ہے آدمی کا کفن جیب کے بغیر"
میرے بچپن کے دِن بھی کیا خوب تھے اقبال
بے نمازی بھی تھا، بے گناہ بھی"
وہ سو رہا ہے تو اُسے سونے دو اقبال
ہو سکتا ہے غلامی کی نیند میں وہ خواب آزادی کے دیکھ رہا ہو"
گونگی ہو گئی آج زباں کچھ کہتے کہتے
ہچکچا گیا میں خود کو مسلماں کہتے کہتے"
یہ سن کہ چپ سادھ لی اقبال اس نے
یوں لگا جیسے رک گیا ہو مجھے حیواں کہتے کہتے"

ھ6۔ آخر میں ایک اہم نوٹ: اقبال کے بہت سے اشعار ایسے ہیں جنہیں اُنہوں نے ترک کر دیا تھا۔ ڈاکٹر صابر کلورُوی نے اپنی کتاب "کلیات باقیاتِ شعر اقبال (متروک اردو کلام )" میں ایسے اشعار کو تحقیق کے ساتھ شامل کیا ہے۔

متروکہ کلام کو شاعر کے نام سے پیش کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں کچھ اختلاف ہو سکتا ہے، البتہ اِس سلسلے میں ڈاکٹر کلورُوی کی رائے قابلِ غور ہے "زیر نظر مجموعے میں شامل اشعار کا تقریباً ۹۰ فیصد حصہ ایسا ہے جسے اقبال نے شعوری طور پر ترک کر دیا تھا۔ لہٰذا اس کلام کو درسی کتابوں میں شامل کرنا یا ریڈیو اور ٹی وی پر گانا مناسب نہیں ہو گا"۔ اگر کسی وجہ سے اقبال کا ایسا کلام پیش کرنا ہی ہو تو اِس کے ساتھ "متروک" یا "باقیات" لکھنا ہمارا اخلاقی فرض ہے۔
ایسے ایک شعر کی مثال::
پوچھتے کیا ہو مذہبِ اقبال
یہ گنہگار بو ترابی ہے"
۔ ۔ ۔
#shefro

ء65 کی جنگ 💠

پاکستانی گلوکار اور ریڈیو پاکستان !!

۔ ۔ ۔
ہمارے گلوکاروں، شاعروں، موسیقاروں اور ریڈیو پاکستان نے 1965 کی جنگ میں قوم کو ایسے انمول اور لاجواب قومی نغمے سنائے کہ جن کی خوشبو، جذبات، ساز اور آواز کو آج بھی سن کر لہو گرما جاتا ہے۔ جذبہ حب الوطنی میں ایسے ترانے تخلیق کیے گئے جن کا آج بھی کوئی ثانی نہیں۔ 

ء1965 کی جنگ میں ریڈیو پاکستان لاہور سے "عنایت حسین بھٹی" کی منفرد اور گرج دار آواز میں ایک ترانہ گوجتا ہے.. ”اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا ” اور اسی جنگی ترانے سے پاکستان میں قومی موسیقی کے باب کا آغاز ہوتا ہے۔ 

تاریخ گواہ ہے کہ کس طرح شاعروں، فنکاروں موسیقاروں نے ریڈیو پاکستان کا رخ کیا اور مشہور و معروف گلوکار سلیم رضا بلا معاوضہ سب سے پہلے ریڈیو پاکستان پہنچے اور سب سے زیادہ قومی نغمے ریکارڈ کروائے۔ “زندہ رہے گا سیالکوٹ تو زندہ رہے گا” اسٹوڈیو سے لے کر جنگی محاذ تک اپنی آواز کا جادو جگاتے رہے۔

"ناصر کاظمی" کے قلم اور "عنایت حسین بھٹی" کی آواز نے سرگودھا کے باسیوں کو زندہ دلی کا ایسا خراج تحسیں پیش کیا جسکی آج تک کوئی مثال نہیں ملتی “زندہ دلوں کا گہوارہ سرگودھا شہر ہمارا”۔

 پاکستان اور بھارت کی جنگ جاری تھی کہ عنایت حسین بھٹی نے اپنا تمام سرمایہ پاک فوج کے دفاعی فنڈ میں جمع کروا دیا اور اپنے پاس صرف 250 روپے رکھے۔ جب ان کی اہلیہ نے ان سے پوچھا کہ اگر یہ جنگ طویل ہو گئی تو پھر کیا ہوگا ؟ جواب میں بھٹی صاحب نے فرمایا کہ اگر میرا وطن ہی نہ رہا تو پھر کیا ہو گا ؟ اس لیے میرا سب کچھ میرے وطن کا ہے، اور وطن پر سب کچھ قربان۔

ء6 ستمبر 1965 کو ایک طرف پاک فوج نے اپنا مورچہ سنبھالا تو دوسری طرف شاعروں، موسیقاروں اور گلوکاروں نے بھی اپنا محاذ "ریڈیو پاکستان لاہور" پر سنبھالا ہوا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ نغمے فضاؤں میں ہتھیار بن کر گونج رہے ہوں۔ 

صوفی تبسم کے تحریر کردہ گیت ”اے پُتر ہٹاں تے نئیں وکدے” کو میڈم نور جہاں نے اپنی درد بھری آواز میں گا کر پوری قوم کو جذبہ حب الوطنی سے سرشار کر دیا اور خود انمول بن کر آسمان کو چھونے لگیں۔

ء65  کی جنگ میں مہدی حسن بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے...
” اپنی جاں نذر کروں،اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مردِ مجاہد تجھے کیا پیش کروں”

حقیقت میں مسرور انور صاحب نے اس گیت کو لکھ کر قوم کو اپنا سلام پیش کیا ہے اور مہدی حسن صاحب نے اسے گا کر اصل میں وطن عزیر پر جان نچھاور کر کے دکھائی ہے۔

 اسی طرح "مشیر کاظمی" صاحب نے بھی ایک شاہکار نغمے کو جنم دے کر اپنے آپ کو امر کر دیا؛
 ”اے راہِ حق کے شہیدو ، وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں”

 ٹھیک اسی طرح "نسیم بیگم" نے بھی اس نغمے کو گا کر اس کا حق ادا کیا اور یہ سچ ثابت کر دیا کہ جو بھی مجاھد اس نغمے کو سنے گا یقیناً وہ جام شہادت مانگے گا۔ 

"نذیر بیگم" بھی کسی سے پیچھے نہ رہیں اور پنجابی میں”بلے بلے لاھورئیے سیالکوٹیے” کو ایسا گایا کہ جس کو صدیوں تک یاد رکھا جائے گا۔ 

ڈاکٹر رشید انور کی “جگنی پاکستان دی اے” نے "عالم لوہار" کو پورے عالم میں مشہور و معروف کر دیا۔

"حمایت علی شاعر" کے قلم سے لکھا ہوا تاریخی ملی نغمہ “جاگ اٹھا ہے سارا وطن” جس کو "مسعود رانا" اور "شوکت علی" نے گایا اور مقبولیت کے عروج پر پہنچایا۔

 دیکھا جائے تو 65 کی جنگ میں میڈم نورجہاں، مہدی حسن، نسیم بیگم، مسعود رانا، تاج ملتانی استاد امانت علی، روشن آرا بیگم، طفیل نیازی, عالم لوہار اور شوکت علی سلیم رضا،احمد رشدی، ناہید نیازی،عشرت جہاں، نگہت سیما، مالا بیگم اور اس وقت کے تمام شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں نے نایاب شاہکاروں کو جنم دے کر شہیدوں، غازیوں اور عوام کو ایسا خراج تحسین پیش کیا جس کی مثال رہتی دنیا تک نہیں ملے گی۔

ء65 کی جنگ میں ریڈیو پاکستان اور ہمارے شاعروں، فنکاروں اور گلوکاروں کے کردار کو کبھی جدا نہ کیا جا سکے گا۔ کیونکہ ریڈیو پاکستان سے گونجنے والے ملی نغموں اور جنگی ترانوں نے اس جنگ کو پاکستانیوں کے لیے "راہ حق اور وفا" کی جنگ بنا دیا تھا۔

۔ ۔ ۔
#shefro

لفظ_مولا "صحیح معنیٰ و مفہوم !!

مولیٰ ايک مستقل لفظ ہے جس کی جمع ”موالی“ ہے، جس کے تقريباً 20 معانی ہيں، جن ميں سے چند معانی یہ ہيں : 
آقا، مالک، پرورش کرنے والا، دوست، آزاد کرنے والا، آزاد کيا ہوا غلام اور مہربان ۔

قرآن کريم ميں بھی مولیٰ کا لفظ مختلف معانی ميں استعمال ہوا ہے۔ صرف مولیٰ کا لفظ تنہا بھی استعمال ہوا اور متعدد ضميروں کے ساتھ بھی يہ لفظ استعمال ہوا ہے۔

فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌo (سورہ تحريم 66 : 4)
ترجمہ : 
سو بے شک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے ، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مدد گار ہیں ۔

اسی طرح سورة الحج، آيت 78 ميں 2 جگہ مولیٰ کا لفظ استعمال ہوا ہے، ايک جگہ ”کُم“ ضمير کے ساتھ جبکہ دوسری مرتبہ بغير ضمير کے اور دونوں جگہوں پر اللہ کی ذات مراد ہے۔ 
قرآن کريم ميں مولیٰ کا لفظ دوسرے معانی ميں بھی استعمال ہوا ہے۔ 

سورة الدخان آيت 41 میں ہے: 
”جس دن کوئی حمايتی کسی حمايتی کے ذرا بھی کام نہيں آئے گا اور ان ميں سے کسی کی کوئی مدد نہيں کی جائے گی۔ اس ميں مولیٰ” اللہ“ کے لئے نہيں بلکہ دوست کے معنیٰ ميں يعنی انسان کے لئے استعمال ہوا ہے۔ 

اسی طرح سورة الحديد، آيت15 میں ہے : 
”چنانچہ آج نہ تم سے کوئی فديہ قبول کيا جائے گا اور نہ اُن لوگوں سے جنہوں نے کفر اختيار کيا تھا، تمہارا ٹھکانا دوزخ ہے ، وہی تمہاری رکھوالی ہے اور يہ بہت برا انجام ہے ۔ 
اس ميں لفظ مولیٰ ”کُم“ ضمير کے ساتھ جگہ يا ٹھکانے کے لئے استعمال ہوا ہے۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کريم ميں يہ واضح کر ديا کہ مولیٰ کے متعدد معانی ہيں۔ 

قرآن کريم ميں لفظ مولیٰ ”نا“ ضمير کے ساتھ 2 جگہ سورة ا لبقرة آيت286 اور سورہ التوبہ آيت51 میں استعمال ہوا ہے اور دونوں جگہ پر اللہ کی ذات مراد ہے يعنی ليکن اس کا مطلب ہرگز يہ نہيں کہ مولانا ايک لفظ ہے اور وہ صرف اللہ کے ساتھ خاص ہے۔ مولیٰ ايک مستقل لفظ ہے اور اس کے ساتھ مختلف ضميريں استعمال کی جا سکتی ہيں: مولائی، مولانا، مولاکم، مولاہ وغيرہ ۔

مفسّرِین کے نزدیک ’’مولیٰ ‘‘ کے معنیٰ::::
وہ تفاسیر جن میں مولا کے معنیٰ مددگار لکھے ہیں : اِس آیتِ مبارکہ میں وارِد لفظ’’ مولیٰ ‘‘کے معنیٰ وَلی اور ناصِر ( یعنی مدد گار) لکھے ہیں ۔ 
(تفسیرطَبَری جلد 12صفحہ154)
(تفسیرقُرطُبی جلد 18 صفحہ 143)
(تفسیرِکبیرجلد 10 صفحہ 570)
(تفسیرِبَغْوی جلد 4صفحہ337)
(تفسیرِ خازِن جلد 4صفحہ286)
(تفسیرِ نَسفی صفحہ1257)

اُن چار کتابوں کے نام بھی حاضِر ہیں جن میں آیتِ مبارَکہ کے لفظ ’’مولیٰ‘‘ کے معنیٰ ’’ناصر‘‘(یعنی مددگار) کئے گئے ہیں ۔ 
(تفسیر ِجلالین صفحہ465)
(تفسیرِ رُوحُ الْمَعانی جلد 28 صفحہ481)
(تفسیرِ بیضاوی جلد 5صفحہ 356)
(تفسیر ابی سُعُود جلد 5 صفحہ 738)

النھایہ میں لفظ مولا کے مختلف معانی بیان کیئے گئے ہیں::
(1)رب (پرورش کرنیوالا
(2)مالک۔ سردار
(3)انعام کرنیوالا
(4)آزاد کرنیوالا
(5)مدد گار
(6)محبت کرنیوالا
(7)تابع (پیروی کرنے والا)
(8)پڑوسی
(9)ابن العم (چچا زاد)
(10)حلیف(دوستی کا معاہدہ کرنیوالا )
(11)عقید (معاہدہ کرنے والا )
(12)صھر (داماد، سسر)
(13)غلام
(14)آزاد شدہ غلام
(15)جس پر انعام ہوا
(16)جو کسی چیز کا مختار ہو ۔ کسی کام کا ذمہ دار ہو۔ اسے مولا اور ولی کہا جاتا ہے ۔
(17)جس کے ہاتھ پر کوئی اسلام قبول کرے وہ اس کا مولا ہے یعنی اس کا وارث ہو گا وغیرہ ۔ 
(ابن اثير، النهايه، 5 : 228)

حکیم الامت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے الفاظ ’’جس کا میں مولیٰ ہوں علی بھی اُس کے مولیٰ ہیں ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں : مولیٰ کے بَہُت (سے) معنٰی ہیں : دوست، مددگار، آزاد شُدہ غلام،(غلام کو) آزاد کرنے والا مولیٰ۔اِس (حدیثِ پاک میں مولیٰ) کے معنٰی خلیفہ یا بادشاہ نہیں یہاں (مولیٰ) بمعنی دوست (اور) محبوب ہے یا بمعنی مددگار اور واقِعی حضرتِ سیِّدُنا علیُّ الْمُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم مسلمانوں کے دوست بھی ہیں، مددگار بھی، اِس لئے آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو ’’مولیٰ علی‘‘ کہتے ہیں۔
(مراٰۃ المناجیح ج۸ص۴۲۵،)

مولىٰ کا صحیح مطلب:::
علم اللغة والنحو والأدب والانساب کے امام محمد بن زیاد ابن الاعرابی ابو عبدالله الہاشمی رح (١٥٠-٢٣١ ہجری) فرماتے ہیں :"چچازاد، آزاد کرنے والے ، آزاد ہونے والے ، کاروباری ساجھی، معاہدہ کرنے والے ، محبت کرنے والے، با اثر اور دوست سب کو ((مولىٰ)) کہتے ہیں. نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے : ((من كنت مولاه فعلي مولاه))
ترجمہ : 
جس کا میں دوست ہوں اس کا علی رضی اللہ عنہ بھی دوست ہے. یعنی جو مجھ سے محبت رکھتا ہے ، وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی محبت رکھے ، ثعلب کہتے ہیں : 
رافضیوں کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ پوری مخلوق کے مولا یعنی مالک ہیں، اس معاملہ میں رافضی لوگ کفر کے مرتکب ہوئے ہیں، یہ بات تو عقلی اعتبار سے بھی غلط ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خرید و فروخت کرتے تھے، جب تمام چیزیں ان کی ملکیت تھیں تو خرید و فروخت کیسی ؟؟؟ 
مذکورہ حدیث میں لفظ مولا، محبت اور دوستی کے باب سے ہیں ۔ 
(تاریخ دمشق، لامام ابن عساکر : ٤٢/٢٣٨، وسندہ صحیح)

لفظ مولا یا لفظ مولانا کا اطلاق جس طرح باری تعالی پر ہوا ہے ، اسی طرح اس لفظ کا استعمال قرآن واحادیث میں دیگر مختلف معانی کے لیئے بھی ہوا ہے ۔ چنانچہ درج ذیل سطورمیں اس لفظ کی صحیح تحقیق اوراس کا استعمال کس انداز اور کس کس معنی میں ہوا ہے پیش کیا جا رہا ہے ۔

’’مولا ‘‘کااطلاق اللہ تعالی پرقرآن کریم میں

(1) فانصرناأنت مولانا ۔ (البقرہ:۲۸۶)
(2) بل اللہ مولاکم ۔ (آل عمران ۱۵۰)
(3) فاعلموا أن اللہ مولاکم ۔ (انفال:۴۰)
(4) واعتصموا باللہ ھومولاکم فنعم المولی ونعم النصیر ۔ (الحج:۷۸)
(5) ذلک نأن اللہ مولی الذین اٰمنوا (محمد:۱۱)
(6) واللہ مولاکم ۔ (تحریم:۲)
(7) الاماکتب اللہ لنا ھومولانا ۔ (توبہ:۵)
(8) فان اللہ ھومولاہ وجبرئیل وصالح المؤمنین ۔ (تحریم:۴)
(9) ثم ردواالی اللہ مولھم الحق ۔ (انعام:۶۲)
(10) وردواالی اللہ مولھم الحق ۔ (یونس:۳۰)

’’مولا‘‘ کا اطلاق اللہ تعالی پر احادیث میں

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : قولوا اللہ مولانا ولا مولالکم (بخاری:۴۰۴۳) ، لوگو!تم کہوکہ اللہ ہمارامولی اورکاسازہے نہ کہ تمہارا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ولیقل .... سیدی ومولای ۔ (بخاری:۲۵۵۲)(مسلم:۲۲۴۹) کہ اسے چاہئے کہ وہ اللہ کے بارے میں میرا آقا اورمیرا مولی کہے ۔

’’مولا ‘‘ کا اطلاق اللہ تعالی کے علاوہ پرقرآن کریم میں::

لبئس المولی ۔ (حج:۱۳) 
امام مجاھد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : اس آیت میں مولی بت کے معنی میں ہے ۔ (تفسیرابن کثیر:۳؍۷۸۰،چشتی)

یوم یغنی مولی عن مولی شیئا ۔ (دخان:۴۱) 
علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں: أی لا ینفع قریب قریبا ۔ (تفسیرابن کثیر:۴؍۱۸۳)، کہ کوئی رشتہ دار کسی بھی رشتہ دار کو نفع نہیں پہنچائے گا اس جگہ رشتہ دار پر مولی کا اطلاق ہوا ہے ۔

مأوٰکم النارھی مولاکم ۔ (تحدید:۱۵) 
علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں: ھی مولاکم : ھی أولی بکم من کل منزل علی کفرکم وارتیابکم ۔ (تفسیرابن کثیر:۴؍۳۹۵) ، 
کہ مولاکم سے مراد تمہارے لئے ہرمنزل پر تمہارے کفر اور شک کی بناء پر جہنم بہتر ہے۔ اس جگہ مولی کااستعمال جہنم کے لئے ہوا ہے ۔

وکل علی مولاہ ۔ (نحل:۷۶) 
امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’ای غلیظ وثقیل علی مولاہ‘‘ ۔ (التفسیر الکبیر:۲۰؍۸۸) کہ وہ اپنے آقا پر بھاری اور بوجھ ہے ۔ اس جگہ مولی کا اطلاق مالک اور آقا پر ہوا ہے ۔

ولکل جعلنا موالی مماترک ۔ (نساء) 
اس آیت میں لفظ موالی کا اطلاق وارث پر ہوا ہے ۔ (تفسیرابن کثیر:۱؍۶۳۸)

انی خفت الموالی ۔ (مریم:۵) 
امام مجاھد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اراد بالمولی العصبۃ۔ (تفسیرابن کثیر:۳؍۱۵۰) کہ یہاں پر مولی کااطلاق ان رشتہ داروں پر ہوا ہے جن کو اصطلاح شرح میں عصبہ کہا جاتا ہے جنہیں میت کے ترکہ میں سے ذوی الفروض کو ان کا حصہ دینے کے بعد بچا ہوا مال دیا جاتا ہے ۔

فاخوانکم فی الدین وموالیکم ۔ (احزاب:۵) 
ای ’’أنا من اخوانکم فی الدین ‘‘ کہ میں تمہارا دینی بھائی ہوں ۔ اس آیت میں موالی بھائی کے میں استعمال ہوا ہے ۔

احادیث میں ’’مولانا ‘‘ کا اطلاق اللہ تعالی کے علاوہ پر::

وقال لزید: أنت أخونا ومولانا ۔ (بخاری:۲۶۹۹) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ زید تم ہمارے بھائی اور مولی ہو ۔

حافظ ابن حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: واما المولی فکثیرالتصرف فی الوجوہ المختلفۃ من ولی وناصر وغیرذلک ،ولکن لایقال السید ولا الموتی علی الاطلاق من غیراضافۃ الا فی صفۃ اللہ تعالی ۔۔۔ فکان اطلاق المولی أسھل وأقرب الی عدم الکراھۃ ۔ (فتح الباری:۶؍۹۸۶،چشتی)
ترجمہ : 
لفظ مولی کا اطلاق بہت سے معانی پر ہوتا ہے، مثلا ولی، ناصر، وغیرہ، لیکن لفظ مولی اور سید مطلقا بغیرکسی اضافت کے اللہ تعالی کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے، اور لفظ مولی کا اطلاق اللہ کے علاوہ پر کرنے میں کوئی کراہت نہیں ہے (اس لئے کہ جب سید کا اطلاق اللہ کے علاوہ پر ہو سکتا ہے جب کہ اس میں ایک ہی معنی [سردار] پائے جاتے ہیں تو مولی میں چوںکہ بہت سارے معنی پائے جاتے ہیں اس اعتبار سے اللہ کے علاوہ پر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے)

ماکنت مولاہ فعلی مولاہ ۔ (سنن ترمذی:۳۷۲۲) ، اس حدیث کامطلب یہ ہے کہ جس کا میں ذمہ دارہوں اس کا علی رضی اللہ عنہ بھی ذمہ دارہے یا جس سے میں محبت کرتا ہوں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس سے محبت کرتے ہیں ۔

علامہ جزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کہ حدیث پاک میں لفظ مولی کا تزکرہ بکثرت آیا ہے ، اور لفظ مولی ایک ایسا نام ہے جوبہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ رب ، مالک ، آقا ، احسان کرنے والا ، آزاد کرنے والا ، مدد کرنے والا ، محبت کرنے والا ، الغرض ہر وہ شخص جوکسی معاملہ کا ذمہ دار ہو اس پر مولی اور ولی کا اطلاق ہوتا ہے ۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ثلاثۃ علی کثبان المسک یوم القیامۃ،عبدادی حق اللہ وحق مولاہ ۔ (سنن ترمذی:۱۹۸۶) کہ قیامت کے دن تین لوگ مشک کے ٹیلوں پرہوگے ، وہ غلام جس نے اللہ تعالی کا حق ادا کیا اور اپنے آقا کا حق ادا کیا ۔ اس حدیث میں بھی مولی آقا اور سردار کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ولابأس بقول العبد لسیدہ :مولای،فان المولی وقع علی ستۃ عشر معنی ۔۔۔ منھاالناصروالمالک ۔ (شرح مسلم:۵؍۹۰۴،چشتی)
ترجمہ : غلام کے لئے اپنے آقا کومولا کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے اس لئے کہ لفظ مولی سولہ معنی میں استعمال ہوتا اس میں سے مالک اور ناصر بھی ہے ۔

مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ لفظ مولی کا اطلاق اللہ عزّ و جل کے علاوہ دیگرمعانی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔

’’مولٰنا‘‘ دولفظ سے مرکب ہے’’مولی‘‘ اور’’نا‘‘ عربی زبان میں مولی متعدد معنوں کے لئے آتا ہے،’’صاحب تاج العروس‘‘علامہ زبیدی رحمۃ اللہ علیہ نے مولی کے معانی تفصیل کے ساتھ لکھ کرتحریر فرمایا ہے کہ : فھذہ احد وعشرون معنی للمولی : واکثرھا قدجاء ت فی الحدیث ،فیضاف کل واحد الی مایقتضیہ الحدیث الواردفیہ ۔(تاج العروس:۱۰؍۳۹۹)
ترجمہ : یہ اکیس معنی لفظ مولی کے ہیں اوران میں اکثرمعانی حدیث میں آئے ہیں اس لئے جس حدیث میں لفظ مولی وارد ہواہے ، وہ حدیث جس معنی کی مقتضی ہوگی وہ مراد لئے جائیں گے ۔

قرآن وحدیث اور علماء امت کی تشریحات سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ لفظ’’ مولا‘‘ کا اطلاق اللہ عزّ و جل کے علاوہ دیگر معانی میں بھی درست ہے، بعض لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ لفظ مولا کا اطلاق اللہ تعالی کی ذات کے علاوہ کسی اور پر کرنا گویا اللہ تعالی کے ساتھ شرک اور اللہ تعالی کی ناقدری ہے،ان کایہ موقف قرآن وحدیث کے موقف کے خلاف ہے ، نیزان کی علمی کجی اور جہالت کی دلیل ہے ، اس لئے ان کے اس طرح کے موقف سے اتفاق کرنے سے احتیاط ضروری ہے ۔ 

۔ ۔ ۔
#shefro

Wednesday, June 5, 2019

رکودک "Reko Diq" ء "$100 ارب امریکی ڈالرکےذخائر" 💯

پاکستانی بلوچستان میں ضلع چاغی کے علاقے میں ایران و افغانستان کی سرحدوں سے نزدیک ایک علاقہ ہے جہاں دنیا کے عظیم ترین سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں۔ مقامی زبان میں رکودک کا مطلب ہے ریت سے بھری چوٹی۔ یہاں کسی زمانے میں آتش فشاں پہاڑ موجود تھے جو اب خاموش ہیں۔ اس ریت سے بھرے پہاڑ اور ٹیلوں کے 70 مربع کلومیٹر علاقے میں 12 ملین ٹن تانبے اور 21 ملین اونس سونے کے ذخائر موجود ہیں۔ تانبے کے یہ ذخائر چلی کے مشہور ذخائر سے بھی زیادہ ہیں۔ حال ہی میں پاکستانی بلوچستان میں غیر ملکی قوتوں کی مداخلت کی ایک وجہ یہ علاقہ بھی بتایا جاتا ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق سونے کی ذخائر کی مالیت 100 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔ اس کان کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بیک وقت دنیا کی سب سے بڑی سونا نکالنے والی شراکت اور دنیا کی سب سے بڑی تانبا نکالنے کی شراکت دونوں کام کر رہی ہیں جس سے اس علاقے کی اہمیت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق ان عظیم ذخائر کو کوڑیوں کے بھاؤ غیر ملکی شراکتوں کو بیچا گیا ہے۔

اس میں کچھ کانکنی بھی ہو چکی ہے جو اخبارات و جرائد میں پاکستانی حکومت کی ناعاقبت اندیشی اور کمیشن کھانے کی مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ یہی اخبارات و جرائد اسے بلوچستان میں امریکی مداخلت کی وجہ بھی بتاتے ہیں۔ موجودہ کانوں کا جو ٹھیکا دیا گیا ہے اس میں بلوچستان کی حکومت کا حصہ 25 فی صد، انتوفاگاستا (Antofagasta plc ) کا حصہ 37 اعشاریہ 5 فی صد اور بیرک گولڈ (Barrick Gold) کا حصہ 37 اعشاریہ 5 فی صد ہے۔ لیکن حکومت بلوچستان کو یہ حصہ اس صورت میں ملے گا اگر وہ ان کانوں میں 25 فی صد سرمایہ کاری کرے۔ یعنی اصل میں بلوچستان کی زمین اور وسائل استعمال کرنے کے لیے بلوچستان یا حکومت پاکستان کو کوئی ادائیگی نہیں ہو رہی۔ انتوفاگاستا (Antofagasta plc ) چلی کی ایک شراکت ہے لیکن اس میں بنیادی حصص برطانوی لوگوں کے ہیں کیونکہ اس شراکت نے 1888 میں برطانیہ میں جنم لیا تھا۔ دوسری شراکت بیرک گولڈ (Barrick Gold) دنیا کی سب سے بڑی سونا نکالنے کی شراکت ہے جس کا صدر دفتر کینیڈا میں ہے مگر یہ اصلاً ایک امریکی شراکت ہے۔ اس کے دفتر امریکا، آسٹریلیا وغیرہ میں ہیں۔ اولاً کانکنی کے حقوق ایک آسٹریلوی شراکت ٹیتیان (Tethyan) کو دیے گئے تھے جس کا اپنا اندازہ تھا کہ ہر سال 500 ملین پاؤنڈ تانبا نکالا جا سکے گا۔ بعد میں اوپر دی گئی شراکتوں نے یہ حقوق لے لیے۔ واضح رہے کہ ٹیتیان (Tethyan) انہی دو شراکتوں نے مل کر بنائی تھی جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ سونے کا ذکر تک نہیں ہوا اور بعض ذرائع کے مطابق تابنے کی آڑ میں سونا بھی نکالا جاتا رہا اور ہر 28 گرام سونے کے لیے 79 ٹن کے ضائع زہریلے اجزاء بشمول آرسینک زمین میں دفن ہوتے رہے جو ادھر کے ماحول کو خراب اور زیر زمین پانی اور کاریزوں کو زہریلا کرتے رہے۔

زیادہ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسے تانبے کی کان کے نام سے مشہور کیا گیا ہے تاکہ سونا نکالنے پر پردہ پوشی کی جاسکے۔ جولائی 2009ء میں بیرک گولڈ اور انتوفاگاستا نے اس علاقہ میں مزید تلاش کے لیے تین ارب امریکی ڈالر کی مزید سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ جنوری 2011ء میں ثمر مبارک مند نے عدالت اعظمی کو بتایا کہ ملک کانوں سے خود سونا اور تانبا نکال کر دو بلین ڈالر سالانہ حاصل کر سکتا ہے۔ غیر ملکی کمپنی دھاتوں کو خستہ حالت میں ہی ملک سے باہر لے جانا چاہتی ہے۔ مبصرین کے مطابق چلی اور کینیڈا کی کمپنی پاکستانی حکمرانوں کو رشوت دے کر ذخائر کوڑیوں کے بھاؤ حاصل کر رہی ہے۔
بلوچستان کی موجودہ صورتحال کا اندازہ آپ خود ان باتوں سے لگاسکتے ہیں، کہ امریکی بحری بیڑے کی ہمارے سمندر میں موجودگی، امریکہ اور ایران کی موجودہ کشیدگی اور انڈیا کی جانب سے حالیہ بلوچستان میں دہشدگردی کی اصل وجوہات کیا ہیں۔ 
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے ملک کو نظر بد سے بچاےٗ۔ اور ہمارے حکمرانوں کو عقل سلیم عطاء کرے۔ آمین

یہ اہم معلومات میں اپنے ایک دوست کے فرمائش پر شئیر کررہا ہوں
----
#shefro





دعائے_انس_بن_مالک رضی اللہ عنہ اور حجاج بن یوسف "

ایک عبرت انگیز واقعہ !
۔ ۔ ۔

ایک دن حضرت انس رضی اللہ عنہ حجاج بن یوسف ثقفی کے پاس بیٹھے تھے۔ حجاج نے حکم دیا کہ ان کو مختلف قسم کے چار سو گھوڑوں کا معائنہ کرایا جائے، حکم کی تعمیل کی گئی۔ 

حجاج نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہا: 
فرمائیے ! اپنے آقا یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی اس قسم کے گھوڑے اور ناز و نعمت کا سامان کبھی آپ نے دیکھا؟ 
فرمایا: بخدا! 
یقینا میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بدرجہ بہتر چیزیں دیکھیں اور میں نے حضور اکرم ﷺ سے :سنا کہ آپ فرماتے تھے 

جن گھوڑوں کی لوگ پروَرِش کرتے ہیں، ان کی تین قسمیں ہیں:

ایک شخص... گھوڑا اس نیت سے پالتا ہے کہ حق تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرے گا اور دادِ شجاعت دے گا، اس گھوڑے کا پیشاب، لید، گوشت پوست اور خون قیامت کے دن تمام اس کے ترازوئے عمل میں ہوگا۔

دُوسرا شخص... گھوڑا اس نیت سے پالتا ہے کہ ضرورت کے وقت سواری کیا کرے اور پیدل چلنے کی زحمت سے بچے (یہ نہ ثواب کا مستحق ہے اور نہ عذاب کا)

تیسرا وہ شخص... ہے جو گھوڑے کی پروَرِش نام اور شہرت کے لئے کرتا ہے، تاکہ لوگ دیکھا کریں کہ فلاں شخص کے پاس اتنے اور ایسے ایسے عمدہ گھوڑے ہیں، اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔

حجاج! تیرے گھوڑے اسی قسم میں داخل ہیں۔

حجاج یہ بات سن کر بھڑک اُٹھا اور اس کے غصّے کی بھٹی تیز ہوگئی اور کہنے لگا: اے انس! جو خدمت تم نے حضور اکرم ﷺ کی کی ہے اگر اس کا لحاظ نہ ہوتا،نیزامیرالمومنین عبدالملک بن مروان نے جو خط مجھے تمہاری سفارش اور رعایت کے بابت لکھا ہے، اس کی پاسداری نہ ہوتی تو نہیں معلوم کہ آج میں تمہارے ساتھ کیا کر گزرتا۔ 

حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خدا کی قسم! تو میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور نہ تجھ میں اتنی ہمت ہے کہ تو مجھے نظرِ بد سے دیکھ سکے۔ 

میں نے حضور اکرم ﷺ  سے چند کلمات سن رکھے ہیں۔ میں ہمیشہ ان ہی کلمات کی پناہ میں رہتا ہوں اور ان کلمات کی برکت سے مجھے نہ کسی سلطان کی سطوت سے خوف ہے، نہ کسی شیطان کے شر سے اندیشہ ہے۔

حجاج اس کلام کی ہیبت سے بے خود اور مبہوت ہو گیا، تھوڑی دیر بعد سر اُٹھایا اور (نہایت لجاجت سے) کہا: 
اے ابو حمزہ! وہ کلمات مجھے بھی سکھا دیجئے! فرمایا: تجھے ہرگز نہ سکھاوں گا۔
بخدا! تو اس کا اہل نہیں۔

پھر جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کے وصال کا وقت آیا، آبان جو آپ کے خادم تھے، حاضر ہوئے اور آواز دی۔ 

حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا چاہتے ہو؟ عرض کیا: وہی کلمات سیکھنا چاہتا ہوں جو حجاج نے آپ سے چاہے تھے مگر آپ نے اس کو سکھائے نہیں۔

فرمایا: ہاں! تجھے سکھاتا ہوں، تو ان کا اہل ہے۔ میں نے حضور اکرم ﷺ کی دس برس خدمت کی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال اس حالت میں ہوا کہ آپ ﷺ مجھ سے راضی تھے۔ 
اسی طرح تو نے بھی میری خدمت دس سال تک کی اور میں دُنیا سے اس حالت میں رُخصت ہوتا ہوں کہ میں تجھ سے راضی ہوں۔

صبح و شام یہ کلمات پڑھا کرو، حق سبحانہ وتعالیٰ تمام آفات سے محفوظ رکھیں گے۔

"بِسْمِ اللهِ عَلٰی نَفْسِیْ وَدِیْنِیْ، بِسْمِ اللهِ عَلٰی اَھْلِیْ وَمَالِیْ وَوَلَدِیْ، بِسْمِ اللهِ عَلٰی مَا اَعْطَانِیَ اللهُ، اَللهُ رَبِّیْ لَا اُشْرِکُ بِہ شَیْئًا، اَللهُ اَکْبَرُ، اَللهُ اَکْبَرُ، اَللهُ اَکْبَرُ وَاَعَزُّ وَاَجَلُّ وَاَعْظَمُ مِمَّا اَخَافُ وَاَحْذَرُ عَزَّ جَارُکَ وَجَلَّ ثَنَاوٴُکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ، اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ وَمِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْطَانٍ مَّرِیْدٍ، وَّمِنْ شَرِّ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ، فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللهُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، اِنَّ وَلِیَّ اللهُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْکِتٰبَ وَھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ۔
۔ ۔

(مستفاد از فتاوی یوسفی)
۔ ۔ ۔
#shefro

اپنی_اصلاح 💠

كسان كى بيوى نے جو مكهن كسان كو تيار كر كے ديا تها وه اسے ليكر فروخت كرنے كيلئے اپنے گاؤں سے شہر كى طرف روانہ ہو گيا، یہ مكهن گول پيڑوں كى شكل ميں بنا ہوا تها اور ہر پيڑے كا وزن ايک كلو تها۔

شہر ميں كسان نے اس مكهن كو حسب معمول ايک دوكاندار كے ہاتھوں فروخت كيا اور دوكاندار سے چائے كى پتى، چينى، تيل اور صابن وغيره خريد كر واپس اپنے گاؤں كى طرف روانہ ہو گيا. كسان كے جانے بعد…… دوكاندار نے مكهن كو فريزر ميں ركهنا شروع كيا…. اسے خيال گزرا كيوں نہ ايک پيڑے كا وزن كيا جائے. وزن كرنے پر پيڑا 900 گرام كا نكلا، حيرت و صدمے سے دوكاندار نے سارے پيڑے ايک ايک كر كے تول ڈالے مگر كسان كے لائے ہوئے سب پيڑوں كا وزن ايک جيسا اور 900 – 900 گرام ہى تها۔

اگلے ہفتے كسان حسب سابق مكهن ليكر جيسے ہى دوكان كے تهڑے پر چڑها، دوكاندار نے كسان كو چلاتے ہوئے كہا کہ وه دفع ہو جائے، كسى بے ايمان اور دهوكے باز شخص سے كاروبار كرنا اسكا دستور نہيں ہے.900 گرام مكهن كو پورا ایک كلو گرام كہہ كر بيچنے والے شخص كى وه شكل ديكهنا بهى گوارا نہيں كرتا. كسان نے ياسيت اور افسردگى سے دوكاندار سے كہا: “ميرے بهائى مجھ سے بد ظن نہ ہو ہم تو غريب اور بے چارے لوگ ہيں، ہمارے پاس تولنے كيلئے باٹ خريدنے كى استطاعت كہاں. آپ سے جو ايک كيلو چينى ليكر جاتا ہوں اسے ترازو كے ايک پلڑے ميں رکھ كر دوسرے پلڑے ميں اتنے وزن كا مكهن تول كر لے آتا ہوں۔

اس تحریر کو پڑھنے کہ بعد آپ کیا محسوس کرتے ہیں۔

کسی پر انگلی اٹھانے سے پہلے کیا ہم پہلے اپنے گریبان چیک نہ کرلیں۔ کہیں یہ خرابی ہمارے اندر تو نہیں ؟

کیونکہ اپنی اصلاح کرنا مشکل ترین کام ہے...
۔ ۔ ۔
#shefro